• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہر دور میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں محاذ آرائی کی صورت رہی ہے۔ یہ سلسلہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس وقت بھی اقتدار میں وڈیرے، چوہدری، سردار، خوائین جو چاروں صوبوں میں اپنی اپنی قوموں پر انگریزوں کے دور میں مسلط کئے گئے تھے، حکومت میں شامل ہوکر اپنی من مانیاں کرتے تھے۔ 

بھارت نے تو جاگیرداری نظام ختم کرکے جمہوری حکومت قائم کر دی جو آج تک جاری ہے مگر پاکستان میں بار بار مارشل لا لگتے رہے۔ پہلا مارشل لا ایوب خان نے لگایا اس وقت مسلم لیگ کی حکومت تھی جس کے سیاستدان 10سال آپس میں لڑ جھگڑ کر حکومتیں گراتے رہے تھے۔ 

عوام بیزار ہو گئے تھے لہٰذا اس فوجی تبدیلی کو اچھی نظر سے دیکھا گیا مگر جیسے ہی ایوب خان سیٹ ہو گئے تو لامحالہ حکومت چلانے کیلئے ان کو سیاستدان چاہئے تھے۔ 

انہوں نے مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کیلئے نئی مسلم لیگ کنونشن کی بنیاد مسلم لیگی چوہدری خلیق الزمان کے تعاون سے رکھی اور مسلم لیگی کونسل میں بٹ گئے اور تمام زور کونسل لیگ کو ختم کرنے پر لگا دیا گیا، مگر مادر ملت کے الیکشن میں ایوب خان دھاندلی سے جیت گئے، پھر جب ایوب خان کا زوال شروع ہوا تو باگ ڈور یحییٰ خان نے سنبھالی، پھر الیکشن کروائے تو مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمٰن کی صدارت میں الیکشن جیت لیا۔ 

بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کو شیشے میں اتارا اور عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا۔ درمیان میں بھارت نے فائدہ اُٹھایا اور مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا، عوامی لیگ نے اس کا ساتھ دیا، ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ اب مغربی پاکستان میں پی پی پی کی حکومت بنی اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔

پھر وہی کھیل بھٹو مرحوم نے اپوزیشن کے ساتھ نیا دستور بنتے ہی شروع کر دیا۔ بمشکل ان کی حکومت نے 5سال نکالے، اپوزیشن نے متحدہ محاذ پی این اے کے نام سے بناکر بھٹو صاحب کے نئے الیکشن میں حصہ لیا اور پھر دھاندلی ہو گئی۔ ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا۔

بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی پھر الیکشن کروا کر مسلم لیگی جونیجو کو وزیراعظم بنا کر سارا زور پیپلز پارٹی کو ختم کرنے میں صرف کر دیا۔ ضیاء الحق کا جہاز کریش ہوا، غلام اسحاق خان نے الیکشن کروائے۔ پی پی پی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ اب پی پی پی، مسلم لیگ کی اپوزیشن برداشت نہ کر سکی، پھر غلام اسحاق خان نے پی پی پی پر کرپشن کے الزامات لگا کر ڈھائی سال میں ان کی حکومت ختم کر دی اور کرپشن ثابت نہیں ہو سکی۔ 

پھر الیکشن ہوئے اب مسلم لیگ دوبارہ اقتدار میں نواز شریف کی صدارت میں کامیاب ہوئی مگر کھیل وہی جاری رہا۔ الغرض حکومتیں بنتی ٹوٹتی رہیں۔ مسلم لیگ اور پی پی پی دونوں آمنے سامنے لڑتے رہے یہاں تک نوازشریف، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف سے بھی الجھ پڑے اور ان کو معزول کرکے نئے چیف جنرل ضیاء الدین کو لے آئے جس کو فوج نے قبول نہیں کیا۔

ایک جہاز کے پھٹنے سے پی پی پی کو اقتدار ملا تھا تو اس مرتبہ ایک جہاز کے اترنے سے مسلم لیگ سے اقتدار چھن گیا۔ اب پرویز مشرف مسندِ اقتدار پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے بندے توڑ کر چوہدری برادران سے مل کر مسلم لیگ (ق) بنا ڈالی اور یہ سمجھتے رہے کہ اب (ن) لیگ کا سورج غروب ہو گیا ہے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ 

جب پرویز مشرف کا زوال شروع ہوا تو الیکشن میں (ق) لیگ کے بجائے اقتدار پی پی پی کو ملا۔ 5سال پی پی پی کے دور میں (ن) لیگ فرینڈلی اپوزیشن بن کر انتظار کرتی رہی۔ عوام کی بدحالیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ 5سال گزرے، پھر الیکشن ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) والے نئے وعدوں کی پوٹلیاں سنبھالے پی پی پی حکومت کے عیب گنواتے الیکشن میں کودے۔ 

عوام نے ان پر اعتماد کیا اور اقتدار واپس مسلم لیگ (ن) کو مل گیا۔ افسوس وہ تمام وعدے وفا نہیں ہوئے۔ پھرعمران خان میدان میں کودے اور چند ماہ بعد دھرنے کا دور شروع ہوا۔ عمران خان نے تبدیلی کا نیا نعرہ دیا قوم اس نعرے کے سحر میں آگئی۔ نئے الیکشن میں تبدیلی کے نام پر کچھ قوم نے ساتھ دیا اور کچھ اوپر والے کی کرپا تھی کہ بات بن گئی اور مل ملا کر پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی۔ 

پی ٹی آئی میں وہ لوگ بھی بھاگ کر شامل ہو گئے جن پر نیب اور ایف آئی اے کے مقدمات چل رہے تھے، یہ پہلا یو ٹرن تھا۔ اب ساری قوت پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے کرپٹ افراد کو پکڑنے میں صرف ہونا شروع ہوئی۔ تمام زور لگا کر بھی ایک ٹکا نہیں لے سکے۔ 

سب نے عدلیہ سے ضمانتیں کروا لی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کرپٹ افراد کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی تھی تو آج تک دہرا معیار کیوں جاری ہے۔ کراچی کے ایک وزیر جو غیر ملکی ہوتے ہوئے الیکشن لڑ چکے ہیں، جھوٹا حلف نامہ دیا، ان کے گھر میں بمشکل 2پرانی گاڑیاں ہوتی تھیں، آج ان کے بنگلے میں 1درجن نئی گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔ 

مشہور و معروف چینی، آٹا اسکینڈل میں صرف کاغذی تیاریوں پر وقت ضائع کرکے اپنے بندوں کو بچایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک وزیر کی نیب انکوائری میں 4شوگر ملیں بھائیوں اور والدہ کے نام سے نکلیں اور 10سال وزارت میں رہ کر ایک ارب سے 100ارب کے اثاثے ثابت ہو چکے ہیں مگر آج تک نیب نے انہیں نہیں پکڑا، کیوں؟ 

قوم کی کسی کو فکر نہیں، اب تو تبدیلی کے نام سے گھن آنے لگی ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کی آخری رسومات ہو سکتی ہیں، اگر اوپر والے کی کرپا پھر ہو گئی تو شاید بچ جائے مگر فی الحال تو عوام پی ٹی آئی سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔

تازہ ترین