ادب اور لسانیات کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ مختلف معروضی حالات اور ادوار میں، ہر زبان میں دو طرح کا ادب تخلیق ہوتا رہا ہے۔ایک خواص کے لئے ، جو اُنہیں دستیاب وسائل کے تحفظ کے واسطے جمود کی راہ دکھاتا ہے ۔ اور دوسرا عوام کے لئے ، جو اُنہیں اپنی موجودہ حالت کے بدلنے اور بنیادی وسائل سے محرومی سے نجات دلانے کی خواہش سے آشنا کرتا ہے۔ ترقی پسندی کی تعریف میں ادب کا چاہے برائے زندگی ہو نا ہو یا اُسے مارکسی فلسفہ ٔ معیشت کے دائرے میں لے آنا، اِس کے تشکیلی عناصر میں مقصدیت ، انسان دوستی ، حب الوطنی ، آزادی کا بنیادی حق ، معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات یعنی عورت، مزدور اور کسان کے مفادات کا تحفظ ، انسانوں کے تصادم میں کھردری حقیقتوں کا واشگاف اظہار اور سماجی ضابطوں کو توڑنے کی خواہش سب ہی کچھ موجود رہے ہیں۔یہی وہ عناصر ہیں جن سے جمود کی قوتیں لرزاں رہتی ہیں۔ ’’سب اچھا ہے ‘‘ کی صدا کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو اُردو زبان و ادب کے تخلیق کاروں کو جن حالات کا سامنا دو عظیم جنگوں کے درمیانی عرصے میں کرنا پڑا ، اُس سے کہیں زیادہ حبس، جمود ، سکوت ، غاصبیت اور جبر کا سامنا اِس خطے کے تخلیق کاروں کو گزشتہ کئی صدیوں میں رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اِس خطے کا قدیم سے قدیم لوک ادب بھی ترقی پسندی کی مروجہ اقدار سے محروم نہیں رہا، جسے کچھ ناقدین نے ’’ماتم کی جمالیات ‘‘کا نام بھی دیا۔بجا کہا ۔
بد قسمتی یا خوش قسمتی سے پاکستان کی مقامی زبانیں کبھی بھی عوام مخالف اشرافیہ یا غاصبوں کی درباری زبانیں نہیں رہیں ۔’’رگ وید ‘‘ کے زمانے سے بھی پہلے ، وادی ٔ سندھ اپنے سرسبز کھیتوں ، صحت مند مال مویشی اور بہتے دریاؤں کے سبب حملہ آوروں کا دستر خوان بنی رہی ۔ حملہ آور شمال کے ہوں یا جنوب کے ، مغرب کے ہوں یا مشرق کے، پشتو، سرائیکی، پنجابی، بلوچی اور سندھی بولنے پر فخر کرنے والے حکمرانوں کو تو اِتنا موقع بھی نہیں ملا جتنا ہمارے ہاں جمہوریت کو ملتا رہا ہے۔ اِن زبانوں کو محلات کی غلام گردشوں ، درباروں میں رو ارکھی جانے والی کورنش آلود سازشوں اور ماحول سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ اُردوادب میں ترقی پسند تحریک قیام پاکستان سے بہت پہلے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں ایک ایسے طبقے کے خلاف مزاحمت کے طور پر شروع ہو چکی تھی جو اپنے غاصبانہ تسلط کو حسب ِ خواہش دوام دینے کی قیمت پر پہلے سے کچل دیے گئے طبقے کی آخری حساسیت کو بھی زیر ِ پا رکھنا چاہتا تھا۔یہی وہ طبقہ تھا جو پاکستان بننے کے بعد بھی حکمرانی کی کرسی کو اپنے ساتھ گھسیٹ لایا اور یہاں کے مقامی لوگوں کی زبانوں، ثقافت اور تہذیبی روایات کی نفی کرتے ہوئے اُنہیںاُن کی تاریخ تک سے بیگانہ کر دیا۔مقامی اکائیوں کے بنیادی انسانی، لسانی اور سیاسی حقوق کی نفی کے اِس عمل میں یوںباور کرایا گیا کہ جیسے پاکستان کے نام سے قائم ہوئے خطے میں قیادت و سیاست کہیں باہر سے لا کر مقامی جغرافیئے پر منطبق کر دی گئی ہے۔یہ وہ ماحول تھا جس میں ترقی پسند تحریک نے پاکستانی ادب میں طبقاتی جدوجہد کو ایک بار پھر مہمیز کیا۔ ایسے میں اُردو زبان کو ذریعہ اظہار بنانے والے کہانی کاروں میںسعادت حسن منٹو، احمدندیم قاسمی، غلام عباس،اشفاق احمد،بانوقدسیہ، شوکت صدیقی اور منشا یاد نے طبقاتی کشمکش کو اپنی کہانیوںکا موضوع بنایا۔کچلے ہوئے طبقات کو زبان عطا کرنے کی کوشش میں عبداللہ حسین کا ناول ’’نادار لوگ‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ کا ’’راکھ‘‘ سامنے آئے جو کم ذات مصلیوں اور بھٹہ مزدوروں کی اپنے آجروں کے خلاف مزاحمت سے عبارت ہے۔مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’غلام باغ‘‘ نے سماج کے زیریں طبقات کی مزاحمت کوایک ایسے مزاج سے آشنا کیا جہاں عام لوکائی پر تھوپ دی گئی۔ بے توقیری اورذلت آمیز کمتری ایک باعمل برتری میں منقلب ہو جایا کرتی ہے۔اگرچہ ہمارے ہاں اُردو تھیٹر نے طبقاتی مزاحمت کے سلسلے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا مگر ریڈیو اور بعد ازاں ٹی وی ڈرامے نے بہت حد تک اِس کمی کو نہ صرف پورا کیا بلکہ ابلاغ کا بہتر وسیلہ ہونے کے ناطے عام لوگوں میں استحصالی طبقات کے خلاف شعوری بیداری کی بنیاد رکھی۔ڈراما چاہے منٹو کا لکھا ہوا ہو یا امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، نورالہدی شاہ اور عبدالقادر جونیجو کا ،اِن سب ہی دانشوروں نے اسٹیٹس کو کی قوتوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ اُن کے خلاف نبرد آزما ہونے کے ہنر سے بھیآشنا کیا۔
ہمارے سندھی دانشور اپنی لسانی اور ثقافتی اقدار کو لا حق حملہ آوری کے خلاف صدیوں سے اپنی تحریر وں سے صرف مُلا، قاضی اور حاکم اور اُن کے سہولت کاروں جیسے مقامی استحصالی طبقات کے خلاف ہی مزاحمت کو پروان نہیں چڑھایا بلکہ بیرونی حملہ آوری کے مضمرات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اپنی لسانی اور ثقافتی اقدار کے احیا کے لئے راستوں کا تعین کیا۔ امر جلیل نے سندھی نثری سرمایے کو معاصر عالمی ادب کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ عبدلقادرجو نیجو اور بصیر کمہاربھی انفرادیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے سندھ کے عظیم صحرا تھرکے باشندوں کی زندہ رہنے کی جدوجہد کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔
اِس کے برعکس پنجابی نثری ادب میں اپنی زبان، ثقافت اور تاریخ کو درپیش خطرات سے نمٹنے کی اُس طورکوشش نہیں کی گئی جس طرح دیگر پاکستانی زبانوں کے نثری ادب میں دکھائی دیتی ہے۔ جن جہتوں میں ترقی پسند پنجابی نثری ادب کے پھیلاؤ کی ضرورت تھی وہ ابھی تک تشنگی کا شکار ہے۔اِس کی کمی کسی حد تک نجم حسین سید، نواز، سرمد صہبائی اور سلیم خان گِمی کے ریڈیائی ڈراموںاور 1980ء کی دہائی سے ایک نئی ڈھب سے سامنے آنے والے پنجابی سینما سے پوری ہوئی، جب سلطان راہی کا کردار کثیرالجہتی دیہی سماج میں ایک بھرپور مزاحمت کے طور پر لکھا جانے لگا۔
پاکستانی زبانوں کی بات کرتے ہوئے سرائیکی زبان و ادب کا معاملہ قطعی الگ اور مختلف پس منظر کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ اس جاگیردارکے تفاوت کو جس طور پیش کیا گیااُس کی حقیقت کو پرکھنے کے لئے بدیسی نظریات کی بجائے مقامی دانش کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اس حوالے سے مقامی جاگیردار کا حوّا کھڑا کر کے طاقت کے بدیسی حوالوں مثلاً مُلا، قاضی اور حاکم کے اداروں کو معتبر کرنے کی کوشش میں عوامی پہنچ سے دور کردیا گیا ۔اب یہ اس خطے کی روایتی امن پسندی اور صلح جوئی کا اظہار ہے کہ انہوں نے اپنی اس طاقت کا اظہار ادبی حکمت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے کیا ہے۔ یہ سرائیکی زبان ہی کا خاصہ ہے کہ اِس میں ازمنہ قدیم سے لے کر آج تک کوئی بھی شاعر یا دانشور کسی حملہ آور کا ممدوح نہیں رہا۔یہ انسان دوست ترقی پسندی کا اعجاز ہی ہے کہ سرائیکی زبان وادب کا کوئی ہیرو کبھی حملہ آور نہیں رہا ۔ یہاں کے ہیرو نے ، توسیع پسندی اور خون خرابے کے بر عکس، اپنا پیغام ہمیشہ امن اور رواداری کے حوالے سے دنیا تک پہنچایا۔
اِسی طرح بلوچستان کا دانشور بھی ہر عہد کے شعوری تقاضوں سے ہمیشہ بہرہ وررہا ہے۔یہاں کے تخلیق کار صدیوں کے سفر میں بھی ترقی پسندی کے اوصاف بھلا نہیں پائے۔طبقاتی کھینچا تانی اور ہمہ قسم مزاحمتوں کو مثبت دوام عطا کرنے کے عمل میںغنی پرواز، منیر بادینی، غوث بہار، گوہر ملک، صبیحہ کریم، عبدلقادر نوری، حاکم بلوچ، عزیز بگٹی، ڈاکٹر فضل خالق، عبدالستار پُردالی، عندلیب گچکی اور حنیف شریف کی کہانیوں اور ناولوں کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پشتو زبان کے نثری ادب میں طبقاتی کشمکش کو خدائی خدمت گار تحریک کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بے جا نہ ہوگا کجس کے اثرات سے اِس زبان کا کوئی بھی اہم کہانی کار اپنے آپ کو جدا نہ کر سکا۔قیام ِ پاکستان کے بعد کے نمایاں نثر نگاروں میں گُل افضل خان، ماسٹر عبدالکریم، عبدالکریم مظلوم، مفلس درانی، عبدالکافی ادیب، نادر خان بزمی، عبدالغفران بے کس، قلندر مومن، طاہر آفریدی،اسیر منگل اور محمد اقبال اقبال شامل ہیں۔
پاکستانی ادب میں ترقی پسندی کی بات کرتے ہوئے ایک قطعی باطل تاثر کو جان بوجھ کر پھیلایا گیا کہ طبقاتی کشمکش کی بات کرنا اور اِس سے جُڑی جدوجہد کا حصہ بننا دراصل مذہب دشمنی یا حب الوطنی کے تقاضوں سے روگردانی کرتی ہوئی کوئی بغاوت قسم کی چیز ہے، حالانکہ انسانوں کا انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرناکہاں سے مذہب یا وطن سے دشمنی کے مترادف ہو گیا۔اب یہاں ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ اگر آپ کسی قوم کو جو اپنی ماں بولی، تاریخ ، جغرافیہ، آثار قدیمہ اور تہذیب وثقافت سے محروم کر دی گئی ہو، طبقاتی جدوجہد میں کوئی بھرپور کردار اداکرنے کو کہیں، تو کیا وہ کر پائے گی۔ یقینا نہیں۔ اس لئے روئے سخن اُن انسان دوست قوتوں کی طرف ہے جو اس خطے کے لوگوں کو طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے مستعد دیکھنا چاہتے ہیں۔اُن پر لازم ٹھہرتا ہے کہ وہ تیسری دنیا کے اس حصے میںبسنے والے کروڑوں لوگوں کے حق میں صدائے عدل کس طرح بلند کرتے ہیں۔