• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پاکستان نیوی کا ایک ریٹائرڈ آفیسر ہوں، اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ آپ کی نذر کررہا ہوں، جو لفظ بہ لفظ حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں پاکستان نیوی میں بحیثیت لیفٹیننٹ خدمات انجام دے رہا تھا۔ اُس روز میں چُھٹّی پر کراچی سے اپنے آبائی شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ جارہا تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد کے قریب ایک زرخیز شہر ہے۔ وہاں سے مجھے کچھ دنوں کے لیے اپنی بڑی بہن سے ملنے لاہور بھی جانا تھا۔ اُس زمانے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے صرف ایک ویگن چلا کرتی تھی، جو فیصل آباد تک جاتی تھی، وہاں سے لاہور کے لیے بہت سی کوچز اور دیگر گاڑیاں مل جاتی تھیں۔ میں لاہور جانے کے لیے جب گھر سے نکلنے لگا، تو امّاں جی نے ہمیشہ کی طرح دعائیں دیتے ہوئے خاص طور پر تاکید کی کہ ’’بیٹا! اپنا پرس قمیص کی سائیڈ والی جیب میں نہ رکھنا، جیب کترے نکال لیتے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا ’’امّاں جی! مَیں جیب میں پرس رکھتے وقت آیت الکرسی پڑھ لیتا ہوں، جس کی برکت سے اللہ میری حفاظت فرماتا ہے۔‘‘ یہ سن کر انہوں نے مجھے تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھا اور پھر اپنی دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔

میں بذریعہ ویگن ٹوبہ ٹیک سنگھ سے فیصل آباد بس اڈے پہنچ گیا۔ بس اڈے پر بہت رش تھا، ٹکٹ خریدنے کے لیے لائن لگی ہوئی تھی، مَیں بھی ایک لائن میں لگ گیا اور ٹکٹ حاصل کرکے کوچ کی طرف بڑھ گیا۔ جیسے ہی کوچ میں چڑھا، تو یک دَم احساس ہوا کہ جیب سے میرا پرس غائب ہے۔ مَیں نے ساری جیبیں ٹٹول ڈالیں، لیکن پرس غائب ہوچکا تھا، اس اچانک افتاد سے مَیں بہت پریشان ہوگیا۔ ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے۔ مجھے شدّت سے امّاں جی کی نصیحت یاد آنے لگی، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ پریشانی اور بے بسی کے عالم میں بس سے نیچے اتر آیا۔ میرے پرس میں کچھ رقم کے علاوہ شناختی کارڈ، اے ٹی ایم کارڈ سمیت سب سے اہم چیز میرا نیوی کا کارڈ تھا۔ 

امّاں جی کو یاد کرکے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مَیں نے اُسی وقت آسمان کی طرف نظر اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور کہا ’’اے اللہ! میری مدد فرما، اے اللہ! میری ماں نے خصوصی نصیحت کی تھی، لیکن میں نے امّاں جی کو آیت الکرسی کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اللہ حفاظت کرے گا۔ اے اللہ! اب تُو آیت الکرسی کی برکت سے میری مدد فرما۔‘‘ ابھی میں اپنے رب سے التجا کر ہی رہا تھا کہ اسی لمحے اپنے کندھے کے قریب یوں محسوس ہوا، جیسے کوئی مجھ سے کہہ رہا ہو کہ ’’سامنے جو دو لڑکے جارہے ہیں، بائیں طرف والے لڑکے کے پاس تمہارا پرس ہے، جاکر لے لو۔‘‘ حالاں کہ پرس غائب ہوئے آٹھ دس منٹ ہوچکے تھے۔ میں تیزی سے اُن لڑکوں کی طرف بھاگا اور قریب پہنچ کر بائیں طرف والے لڑکے کو دبوچ لیا۔ پھر اپنا تعارف کروا کے درشت لہجے میں کہا ’’شرافت سے میرا پرس دے دو، ورنہ بہت ماروں گا۔‘‘ اس اثناء میں ارد گرد بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے۔ میری گرفت اور لہجے سے لڑکے کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ تاہم، وہ کسی صورت مان نہیں رہا تھا۔ 

مَیں نے اس کی جامہ تلاشی لی، لیکن میرا پرس نہیں ملا۔ اس دوران کوئی نادیدہ آواز واضح طور پر مسلسل مجھ سے کہہ رہی تھی کہ ’’اِسے چھوڑنا نہیں، پرس اِسی کے پاس ہے۔‘‘ مَیں چند ثانیے مایوسی کے عالم میں اسے بغور دیکھتا رہا۔ اس دوران آس پاس کھڑے لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اِسی لمحے مَیں نے اُس سے کہا ’’اپنی ٹانگیں کھولو۔‘‘ جب اس نے ٹانگیں کھولیں، تو اس کی شلوار کی خفیہ جیب سے میرا پرس برآمد ہوگیا، میں نے پرس قابو کرتے ہی اسے دو تھپّڑ رسید کیے اور پھر لوگوں نے بھی اس لڑکے کی خوب دُرگت بناکر پولیس کے حوالے کردیا۔ مَیں اپنا پرس لے کر جب بس کی طرف آیا، تو ایک شخص، جو یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، مجھ سے پوچھنے لگا ’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ آپ کا پرس اِسی لڑکے پاس ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’مجھے کچھ نہیں پتا کہ یہ کیسے ہوا، مَیں نے تو اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے دعا مانگی تھی۔ یہ یقیناً اللہ کی مدد اور آیت الکرسی کی برکت ہی ہے۔‘‘ پھر لاہور جاکر جب اپنی بہن اور بہنوئی کو یہ واقعہ سُنایا، تو کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ آج بھی جب میں اس واقعے یاد کرتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ اللہ کریم نے میری امّاں جی کی بات کو بھی سچّا کر دکھایا اور میرا مان بھی رکھا۔ میرا ایمان ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو صدقِ دل سے پُکارا جائے، تو وہ ضرور مدد کرتا ہے۔ (لیفٹیننٹ کمانڈر، سیف الرحمٰن (ر) ازمیر سوسائٹی، لاہور)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین