اسلام آباد (عاصم جاوید ، اویس یوسف زئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب انکوائریز میں سابق وفاقی وزیر اکرم درانی کی عبوری ضمانت میں 8 اپریل تک توسیع کر دی ہے۔ نیب کی جانب سے گھروں کی الاٹمنٹ کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی جسے خفیہ رکھنے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ چھپانا چاہتے ہیں؟ آپ عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس عدالت کا کوئی جج بلیک میل نہیں ہو گا۔
جج کا نام لسٹ میں کس جرم کے تحت ڈالا، سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت کیوں نہیں کی؟ کیا ہم اب چیئرمین نیب کو طلب کریں؟قانون سے کوئی بالاتر نہیں، گزشتہ روز چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اکرم درانی کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں ، غیر قانونی بھرتیوں ، غیر قانونی الاٹمنٹس اور بلٹ پروف گاڑی سے متعلق چار نیب انکوائریزمیں ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کی۔
نیب نے گھروں کی الاٹمنٹ سے متعلق رپورٹ سربمہر لفافے میں پیش کی اور اسے خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رپورٹ پڑھنے کے بعد نیب پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کیا۔
فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس میں ہائی کورٹ کے ججز اور سپریم کورٹ ملازمین کے نام بھی شامل ہیں ، اس رپورٹ میں ایسا کیا ہے کہ اسے خفیہ رکھنے کی استدعا کی گئی؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ چھپانا چاہتے ہیں؟ آپ نے ہمیں یہ لسٹ خفیہ کیوں دی، اسے پبلک کیوں نہیں کیا؟
اس سے نیب کی اہلیت ظاہر ہورہی ہے ، لسٹ کو پبلک کریں ، کیا اب نیب اس سطح تک آگیاہے کہ خفیہ رپورٹ جمع کرائے گا ، آپ کو معلوم ہے کہ اس میں کیا ہے؟ کہاں ہیں بھروانہ صاحب؟ اس موقع پر ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل مظفر عباسی نے بتایاکہ وہ سپریم کورٹ مصروف ہیں ان کو آنے دیاجائے وہ بہتربتاسکتے ہیں۔