گلشن آرا
خاکہ نگاری جسے شخصیت نگاری کے نام سے بھی ہم جانا جاتاہے۔ ہر عہد، ہر ملک اور ہر زبان میں اس کے نمونے اور نقوش ملتے ہیں۔زندگی اور زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج و میلان، نشیب و فراز ڈوبتی ابھرتی انسانی زندگی کے تمام رنگ و روپ خاکہ نگاری میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں معاملہ معاشرتی و سماجی، علمی و ادبی ہو یاسیاسی، بڑی شخصیت ہو یا معمولی، عالم ہو یاجاہل،حکمراں ہو یا سماج کا ایک ادنیٰ انسان، مصنف کسی سے بھی متاثر ہوسکتا ہے اور کسی شخصیت کو موضوع و محور بناسکتا ہے۔ خاکہ ایک بے حد نازک فن ہے۔ یہاں قلم پر بے پناہ گرفت کے ساتھ ساتھ جرأ ت اور سلیقہ مندی بھی درکار ہے۔ تھوڑی سی لاپرواہی اور کوتاہی خاکہ کو مجروح کردیتی ہے۔ ایک ایک پہلو اور گوشے کو مصنف کو ملحوظ خاطررکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کی مختلف زبانوں میں بے شمار خاکے لکھے گئے ،مگرشاہکار کا درجہ کم ہی کے حصے میں آیا۔
فرانسیسی، عربی، روسی، جرمنی، چینی، انگریزی وغیرہ ترقی یافتہ زبانوں میں اس صنف کے کئی شاہکار اور اعلیٰ نمونے ہیں۔ اردو میں خاکہ و شخصیت نگاری کے لیے ایک اور انگریزی لفظ (Pen Portrait) کا بھی استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ انگریزی زبان و ادب میں دونوں الفاظ Pen Portraitاور Sketchالگ الگ معنی و مفہوم میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ خاکہ و شخصیت نگاری کے معروف ناقد پروفیسر داؤد احمد رقم طراز ہیں:
”Sketchمختلف خطوط کی مدد سے کسی شخصیت کے خد و خال ابھارنے کو کہا جاتا ہے، جب کہ Portrait سے مراد کسی واضح شبیہ کی عکاسی ہے۔ خاکہ کو شخصی مرقع یا شخصیہ بھی کہتے ہیں اور خاکہ نویسی کو شخصیت نگاری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ خاکہ نگاری کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے۔خاکہ کسی فرد یا شخص کی مکمل زندگی کا عکاس نہیں ہوتا بلکہ اس کی نمایاں خصوصیات کا اظہار لیے ہوتا ہے۔ خاکہ میں بنائی جانے والی تصویر کی اصل شخصیت سے مطابقت ضروری ہوتی ہے، اگر تصویر اصل شخصیت سے ذرا سی بھی مختلف ہوگی تو خاکہ ناقص قرار پائے گا۔ خاکہ صرف اس شخصیت کا لکھا جاسکتا ہے، جس کی شخصیت سے خاکہ نگار کو کسی طرح کی دلچسپی ہو۔ اردو ادب میں باضابطہ خاکہ نگاری کی ابتدا مرزا فرحت اللہ بیگ کی مشہور و معروف کتاب ’نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘ (1927) سے ہوتی ہے، مگر کچھ محققوں اور ناقدوں نے اس سے بھی قبل اس صنف کے نمونے اور نقوش تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ان میں محمد حسین آزاد، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر محمد حسن، شمیم کرہانی، صابرہ سعید، حسن احمد وغیرہ کے نام نامی قابلِ ذکر ہیں۔ بہرکیف اردو زبان میں خاکہ و شخصیت نگاری کا باضابطہ آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کو آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے والوں میں خواجہ حسن نظامی، شاہد احمد دہلوی، رشید احمد صدیقی، اشرف صبوحی، مولوی عبد الحق، جوش ملیح آبادی، دیوان سنگھ مفتون، خواجہ محمد شفیع، مرزا محمد بیگ، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خاں، کنہیا لال کپور، شورش کاشمیری، فرحت کاکوروی، مالک رام، جگن ناتھ آزاد، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، فکر تونسوی، بیگم انیس قدوائی، منظر علی خاں منظر، قرۃ العین حیدر، کشمیری لال ذاکر، باقر مہدی، انور عظیم، سردار جعفری، مہندر ناتھ، مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم، انتظار حسین، چراغ حسن حسرت، سید صباح الدین، لطیف کاشمیری، منصور آفاقی، اے حمید، صادق الخیری، حافظ لدھیانوی، صالحہ عابد حسین، مجید لاہوری، علی جواد زیدی، کرشن چندر، مشفق خواجہ، اقبال متین، ابراہیم جلیس، نظیر صدیقی، غضنفر وغیرہ جیسے لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔اردو خاکہ و شخصیت نگاری کی جدید تاریخ میں ایک اہم نام محمد طفیل کا ہے۔جن کودنیا محمد نقوش کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ انہوں نے اپنی پوری علمی، ادبی اور صحافتی زندگی میں صرف اور صرف دو ہی ادبی و صحافتی کام کیے، ایک رسالہ نقوش کی ادارت اور اس سلسلے میں ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں اور لکھنے پڑھنے اور علمی و ادبی ذوق و شوق رکھنے والوں سے خط و کتابت کی اورخاکے لکھے۔
ان کے خاکوں کے مجموعوں میں ’آپ‘، ’آداب‘، ’محترم‘،’مکرم‘، ’معظم‘، ’محبی‘، ’مخدومی‘ وغیرہ پوری ادبی و علمی دنیا میں اپنی ایک خاص دلکشی، اہمیت، عظمت، جاذبیت، ادبیت، معنویت اور تہہ داری رکھتے ہیں۔ محمد طفیل نے جدید اردو خاکہ و شخصیت نگاری کو ایک نئی تازگی و توانائی، وقار و وزن، بلند مقام و مرتبہ عطا کرکے اردو خاکہ نگاری کو کھڑا کردیا۔ جسے ہم کسی طور فراموش یا نظر انداز نہیں کرسکتے۔ جہاں ایک طرف اردو خاکہ نگاری کی تاریخ میں مردوں کی ایک لمبی فہرست ہے، وہیں چند خواتین خاکہ نگارجن میں قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، صغرا مہدی، جیلانی بانو، بیگم انیس قدوائی، صالحہ عابد حسین، عفت آراء، پروفیسر شمیم نکہت، ادا جعفری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ عصمت چغتائی نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ’دوذخی‘ کے نام سے لکھا اور اس کی ادبی و علمی اہمیت و عظمت آج بھی دیر اور دور تک محسوس کی جاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے چند ہی خاکے لکھے، مگر ان کے خاکوں میں ان کی عالمانہ و دانشورانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ ملتا ہے۔ صالحہ عابد حسین نے کئی شاہکار اور دلچسپ خاکے لکھے۔ جو آج بھی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عفت آرا جو عالمی شہرت یافتہ اردو و انگریزی کے ادیب و ناقد پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی صاحبزادی ہیں۔ عفت آرا کی کتاب ’نشیب و فراز‘ میں جہاں سفر نامے، مضامین، ترجمے اور کہانیاں ہیں، وہیں تیرہ نہایت دلچسپ اور خوبصورت خاکے ہیں۔ خود مصنفہ کے لفظوں میں:
”خاکے لکھنے کا وصف بھی یورپ کے مصنّفین کی دین ہے کیوں کہ Addison and Steeleنے جس مہارت سے خاکہ نگاری کی ہے ان کی تقلید سے دوسرے لکھنے والوں کو بھی تقویت ملی اور انھوں نے اس فن کو تکمیل تک پہنچایا اور پھر ہم نے بھی اسے اپنے انداز میں لکھنے کا شوق پورا کیا۔ لکھنے والوں کو لکھنے کے دوران بڑا ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ کیسے مرقع نگاری بھی بھر پور ہو اور اچھی اور معیاری زبان کا استعمال ہو، قاری کو اپنے مطالعہ میں بھی شریک کیا جاسکے اور اندازِ بیان دلچسپ ہو تاکہ خاکہ نگاری میں کمال حاصل ہو سکے۔ لکھنے کے میدان میں قدم رکھنا گویا تنقید کو دعوت دینا ہے اور اس لیے یہ عمل جوئے شیر لانے کے مقابل ہے۔
شاعری میں جس طرح رباعی کا فن تسلیم کیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح اصناف نثر میں خاکہ نگاری کی صنف بھی تسلیم کی گئی ۔ سیکڑوں کی تعدادمیں خاکوں کے مجموعے منظرِ عام پر آچکے اور آرہے ہیں، مگر ان میں چند خاکہ نگار ہی ہیں جو اپنی منفرد و مخصوص پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں
اردو خاکہ نگاری آج ترقی کی کئی منزلیں طے کرچکی ہے۔ جس کی ابتدا ءمرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوئی اور دیکھتے دیکھتے اردو خاکہ نگاری کی جدید تاریخ میں کئی ایسے اہم خاکہ نگار ابھر کر سامنے آئے، جنہوںنے اس صنف کو ایک نئی تازگی و توانائی، دلکشی و شگفتگی اور ادبی وقار و معیار بخشا۔ 1970کے بعد صنف خاکہ کی طرح دوسری اصناف سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے بھی خاکہ نگاری کے باب میں کئی اضافے کیے۔ آج اردو کے رسائل و جرائد میں بھی کثرت سے خاکے شائع ہورہے ہیں اور دلچسپی سے پڑھے جارہے ہیں۔