سائنسدان ا س وقت کروناوائرس کا ذریعہ معلوم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو دنیا بھر میں تباہی پھیلانے کا باعث بنا ہوا ہے۔ چندہفتوں قبل چینی سائنسدانوں نے اس کی جینیاتی تجزیہ کے بعد چینوٹیاں کھانے والے فلس دار جانور پینگولن کو اس باب میں خاص طور پر مشتبہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن جب اس ڈیٹا کاسائنسدانوں نے دوسرے تین پینگولن کے کروناوائرس کے جینوم ڈیٹا کے ساتھ اس کا جائزہ لیا جو گذشتہ ہفتے دستیاب ہواتھا توگو کہ وہ اب بھی مشتبہ جانوروں میں شامل ہے لیکن اس رازکے حل سے ہم ابھی بہت دور ہیں۔
عوامی صحت کے ذمےدارافسران وائرس کے ذریعہ کا تعین کرنا چاہتے ہیں ،تاکہ بیماری کے اگلے حملے سے عوام کو بچا یا جاسکیں۔ سائنسداں سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہوا ہے جیسے دوسرے کرونا وائرس منتقل ہوئے تھے۔ مثلا ً نظام تنفس میں دقت کا باعث’’ سارس‘‘(SARS) کی بیماری ہے ،جس کی بابت خیال کیا جاتا ہے کہ وہ وائرس 2002 میں عود بلائو(CIVET)سے انسانوں کو منتقل ہوا تھا۔
موجودوبا کے شروع میں ہی چین کے شہر ووہان کی مارکیٹ میں کام کرنے والے درجنوں افراد متاثر ہوگئے تھے۔ لیکن وہاں کی مارکیٹ سے ملنے والے کرونا وائرس کے نمونوں کے ذریعہ کاابھی تک تعین کرنا باقی ہے۔ چین کی تین ٹیمیں علیحدہ علیحدہ کرونا وائرس کا ذریعہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جن میں ایک گروپ تو چائنیز سینٹر آف ڈیسیز کنٹرول اینڈ پریو ینشن سے متعلق ہے، جب کہ دوسرے گروپ کا تعلق چائنیز اکیڈمی آف سائنسیز سے ہے۔
گوانگہو کی سائوتھ چائنا ایگریکلچر ل یونیورسٹی کی ایک ریسرچ ٹیم نے 7فروری کی پریس کانفرنس میں ایک جانور پینگولن کو اس کاذریعہ ظاہر کیا تھا۔چین کے لوگوںمیں پینگولن اپنے گوشت اور فلس (کھپروں )کی وجہ سے بہت زیادہ مقبول ہیں ،کیوں کہ اس کے فلس روایتی چینی دوائوں میں استعمال کئے جاتے ہیں۔گرچہ اس کے فلس کی دنیا بھر کی پابندی کی وجہ سے چین میں بھی پابندی عائدہے۔ لیکن یہ اب بھی افریقی ملکوں اور جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں سے اسمگل کئے جاتے ہیں۔ تحقیق کاروں کے مطابق انھوں نے لوگوں میں ملنے والے کروناوائرس کا جب اسمگل کئے ہوئے ایک پینگولن میں موجود وائرس سے جینیاتی تقابل کیاتو وہ 99 فی صدتک ملتا تھا۔
لیکن یہ نتیجہ مکمل جینوم سے نہیں ملتا ہے ،کیوں کہ اس کا جائزہ لینے والوں نے 20 فروری کواپنا جائزہ ایک بایو میڈیکل پرنٹنگ سرور پر ڈالاتھا،جس کے مطابق یہ ایک مخصوص مقام تک محدود ہے جسےRBD کہاجاتا ہے۔لیکن سائوتھ چائنا ایگریکلچرل یونیورسٹی کے پیراسائٹالوجسٹ Parasitalogist))زیائو لیہوا کے مطابق جو ایک ریسرچ پیپر کے شریک کار بھی تھے ،یہ پریس کانفرنس بایو انفارمیٹک گروپ اور لیباریٹری میں جائزہ لینے والوں کے درمیان غلط معلومات کی فراہمی کاشرمناک تبادلہ تھا،کیوں کہ پورے جینوم کے تقابل سے یہ معلوم ہو اتھاکہ پینگولن کے وائرس اور انسان کے وائرس کا90.3 فیصدڈی این اے آپس میں ملتا ہے۔
RBD کرونا وائرس کا ایک اہم حصہ ہے جو انسانی خلیہ سے ملکراس میں داخل ہونے میں معاون ہوتا ہے ۔ سارس وائرس کا ذریعہ معلوم کرنے والی ٹیم میں شامل ڈیوک نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے میڈیکل اسکول کے وائرولوجسٹ(virologist) لنفاوانگ کے مطابق دونوں وائرسز لہ آر بی ڈی(RBD) کی 99 فی صد مماثلت بھی لازمی طور ان کو آپس میں متعلق نہیں کرتی ہے ۔
انٹر نیشنل گروپ نےگزشتہ مہینے غیر قانونی اسمگل کئے ہوئے پینگولن کے کرونا وائرس کے منجمد خلیہ کے نمونے سے دریافت کیا تھا کہ انسانوں اور پینگولن کے ڈی این اے میں85.5%سے 2.4% تک مماثلت پائی جاتی ہے۔دو چینی گروپ نے اسمگل شدہ پینگولن کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا تھا ،ان کی ریسرچ پیپر کے مطابق کرونا پھیلانے والا واائرس اوراسمگل کردہ پینگولن کے وائرس کے ڈی این اے میں 92.3فی صد سے91.02 فی صدتک مماثلت پائی گئی تھی، جب کہ بیماری کی درست نشان زدگی کے تعین کے لیے ان جائزوں کے پیپر میں شائع کردہ جینیاتی مماثلت سے کافی زیادہ مماثلت ہونی چاہیے تھی ۔اس بات کا اظہارارنجے بنرجی نے کیا تھا جو کینیڈا کے شہر ہیملٹن میں میک ماسٹر یونیورسٹی میں کرونا وائرس پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ نشان دہی کرتے ہیں کہ سارس کے کروناوائرس کے جینوم اور عود بلائو کے کرونا وائرس کے جینوم کی مماثلت99.8 فی صدتھی، جس کی وجہ سے عودبلائو کو سارس کے وائرس کے ذریعہ کے طور پرتعین کیاگیا ۔ بنرجی کا کہنا ہے کہ اگر پینگولن موجودہ وباکا ذریعہ ہوں تو بھی وہ پینگولن نہیں ہیں، جن کا جائزہ لیا جاچکا ہے۔گزشتہ مہینے شائع ہونے والے ایک جائزہ کے مطابق انسان اور چمگادڑ میں قریب ترین مماثلت چین کے صوبے یونان کی ایک چمگادڑ کے کرونا وائرس اور بیماری پھیلانےوالے کرونا وائرس کے جینیاتی مماثلت میں ملی ہے جو96 فی صدہے۔ چمگادڑ وائر س انسانوں کومنتقل کرسکتے ہیں۔ لیکن ان دونوں وائرس کےRBD مقامات میں بنیادی فرق ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مخصوص چمگادڑ نے براہ راست انسانوں کو مجروح نہیں کیا تھا۔ چناںچہ ریسرچ کرنے والے کا کہنا ہے کہ اس کا درمیانی واسطہ کوئی اور ذریعہ ہوسکتا ہے۔
چینی اکیڈمی آف سائنسز انسٹی ٹیوٹ بیجنگ کے ایکولوجسٹ جیانگ زیانگ کے مطابق ان پیپروں سے مناسب جواب ملنے کی بجائے سوالات زیادہ پیدا ہوگئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر پینگولن وائرس کا ذریعہ ہیں اور وہ دوسرے ملکوں سے آئے ہیں تو اس ملک میں وائرس سے متاثر ہونے والے لوگوں کی کوئی رپورٹ کیوںموصول نہیں ہوئی تھی؟
ووہان کی جیانگھن یونیورسٹی میں جانوروں کی عادات کا جائزہ لینے والی سارہ پلیٹواس بات پر بہت فکرمند ہیںکہ یہ قیاس کہ پینگولن اس وائرس کا ذریعہ ہیں لوگوں کو اس پر مائل کرسکتا ہے کہ ان کو ہلاک کردیا جائے۔ جیسے سارس وبا کے دور میں کثیر تعداد میں عود بلائو ہلاک کردیے گئے تھے۔وہ مزید کہتی ہیں کہ جانورکوئی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ مسئلہ تویہ ہے کہ ہم ان سے کس طرح تعلق بناتے ہیں۔