• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس جدید دور میں سائنس وٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ گھنٹوں میں ہونے والا کام سیکنڈوں میں کرنا ممکن ہوگیا ۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے متعدد چیزیں تیار کرلی گئی ،تھری ڈی پرنٹر سے دل اورگردوں کی پیوند کاری کا تجربہ کرلیا گیا۔ ماہرین فلکیات نے خلامیں نئے نئے سیارے دریافت کر لیے ہیں ۔تاہم اتنی تر قی کرنے کے باوجود تاحال سائنس ابھی بھی چند چیزوں کا حل نہیں نکال سکی ہے ۔چند ماہ قبل چین میں شروع ہونے والا نیا وائرس ’’کرونا وائرس ‘‘(کوڈ 19)جو کہ اب قریباً پوری دنیا میں اپنا جال بیچھا چکا ہے اور لاتعدادفراد اس کی وجہ سے اپنی جاں بھی گواہ چکے ہیں ۔اور بہت سارے ابھی بھی اس وائرس سے زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1960 کی دہائی میں ہوئی تھی جو سردی کے نزلے سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا۔ اُس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کرونا وائرس E229 اور OC43 کا نام دیا گیا تھا، اس کے بعد اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں۔عالمی ادارہ صحت کے ذریعے نامزد کردہnCOVID-19 کرونا وائرس کی ایک وبا 2019کے آخر میں چین میں عام ہوئی۔جو آہستہ آہستہ وبائی شکل اختیار کر چکی ہے ۔یہ وائرس اس لیے خطرناک ہے کہ یہ انسان سے انسان کے درمیان پھیلنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔یہ وائرس بظاہر تو بخار سے شروع ہوتا ہے ،جس کے بعد خشک کھانسی ہوجاتی ہے ،ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔اس انفیکشن میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات کم ہوتی ہیں ۔اس کی ویکسین ابھی تک کسی بھی ملک کے ماہرین تیار نہیں کرسکیں ہیں ،مگر بہت سارے سائنس داں اس کی ویکسین بنانے میں سر گرداں ہیں اور اُمید کی جارہی ہے کہ جلد ہی اس کا حل تلاش کرلیا جائے گا ۔جیسے جیسے کرونا وائرس سے متاثر افراددنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آرہے ،اس نئے وائرس کے خلا ف ویکسین بنانے کی دوڑ تیز ہوتی جارہی ہے اور یوں ماہرین میڈیکل ٹیکنالوجی کی حدود کو بھی پیچھے دھکیل رہے ہیں ۔

فی الحال اس کا علاج بنیادی طر یقوں سے کیا جا رہا ہے ،مر یض کے جسم کو فعال رکھ کر سانس میں مدد فراہم کی جاتی ہے ،تا کہ ان کا مدافعتی نظام اس وائرس سے لڑنے کے قابل ہوجائے ۔جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں یہ کام کم وقت میں کیا جاسکتا ہے ۔ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بر طانیہ ،جاپان اور چین کے ادارے اس کا علا ج تلاش کررہے ہیں ۔مثلاً آسٹریلیا کی قومی سائنس ایجنسی سی ایس آئی آراو میں اس با ت پر تحقیق ہورہی ہے کہ وائرس کی تخلیق اور نقل بننے میں کتنا وقت لگتا ہے ،اس کےہمارے پھیپھڑوں پر کیا اثرات پڑتے ہیں اور یہ وبا کیسے پھیلتی ہے ۔فرانس کے پاسچر انسٹی ٹیوٹ نے اس حوالے سے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو اس کرونا وائرس کو سمجھ سکے ،اس کی ویکسین تیار کرسکے اور اس وبا کی تشخیص اور اسے کنٹرول کرنے کے مختلف طر یقے وضع کرسکے ۔امریکا میں قائم نو اویکس لیب میں ہونے والی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری گلین کے مطابق اس تجرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ کوششیں رائیگاں جائیں گی ۔

آسٹریلیا کی یونیو رسٹی آف کوئنیز لینڈمیں ایک نئی ویکسین پر کام ہورہا ہے، جس میں ایک ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے جو یونیورسٹی کے اپنے ماہرین نے بنائی ہے ۔ماہرین نے اسے ’’مالیکیولر کلیمپ ‘‘ کا نام دیا ہے ۔اس ٹیکنا لوجی کی مدد سے سائنس داں اس وائرس کی بیرونی سطح پر پروٹینز کی جگہ ایک ایسا عمل کر سکتے ہیں،جس سے ہمارے جسم کا دفاعی نظام حرکت میں آجاتا ہے ۔یونیورسٹی کے اسکول آف کیمسٹری اینڈ مالیکیو لر بایو سائنس کے سر براہ پرو فیسر پال ینگ بتاتے ہیں کہ عام طور پر کسی بھی ویکسین میں جو پروٹین پائے جاتے ہیں وہ غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے اکثر ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں یا ان کی ساخت اتنی تبدیل ہوجاتی ہے کہ ان سے جسم میں درست اینٹی باڈیز پیدا نہیں ہو پاتیں ۔مالیکیولر کیمپ کرتا یہ ہے کہ ان پر وٹینز کی ساخت قابو میں رکھتا ہے ،جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہمیں انفیکشن ہوتا ہے تو ہمارا مدافعتی نظام مذکورہ پروٹینز کی درست شناخت کرلیتا ہے اور یوں اس کے خلاف کام شروع کردیتا ہے ۔پروفیسر ینگ کاخیال ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویکسین قریباً چھ ماہ میں تیار ہوجائے گی ،جس کے بعداسے ٹیسٹ کیا جاسکے گا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ویکسین کو بنانے میں اس لیے اتنا کم وقت لگا ہے ،کیوں کہ چینی حکام نے کرونا وائرس کا جینیاتی کوڈ دنیا کوبتا دیا تھا ۔ماہرین کے مطابق روایتی طور پرکسی بھی مرض سے بچائو کی ویکسین بنانے کے لیے وائرس یا بیکٹیریاکو کمزور شکل میں استعمال کیا جا تا ہے ،یعنی اس پر ایسے کیمیائی عمل کیے جاتے ہیں ،جس سے اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے ۔جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب جینیاتی کوڈ کو استعمال کرکے وائرس کے ڈی این اے کے کچھ حصوں کو الگ کیا جاسکتا ہے ۔یوں ویکسین بنانے کے لیے در کار وقت کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے ۔ چین نے کرونا وائرس کی شناخت کے فوری بعداس کا جینیاتی کوڈاور دیگر معلومات بتادی تھیں ،جس کے بعد دنیا بھر کے ماہرین کے لیے ویکسین بنانا ممکن ہوگیا ہے ۔یونیورسٹی آف کوئین لینڈ میں بھی اس پر تحقیق جاری ہے ۔سی ای پی آئی اور ایک نجی دوا ساز کمپنی مشتر کہ طور پر ایڈ جووینٹ نامی کیمیائی ایجنٹ استعمال کررہے ہیں جو وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف ہماری مدافعت میں اضافہ کرسکتا ہے ۔جب اس ایجنٹ کو کسی ویکسین میں ملایا جاتا ہے تو اس سے جسم کا دفاعی نظام کسی انفیکشن سے زیادہ بہتر انداز اور زیادہ دیر تک لڑ سکتا ہے ۔ایس کے ایف کے مطابق اگر کوئی مر ض عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے تو ایڈجووینٹ کی اہمیت خاص طور پر بڑھ جاتی ہے ،کیوں کہ اس کی بدولت ہم ویکسین بنانے والے اینٹی جن کی تھوڑی سی مقدار سے بہت ساری ویکسین بنا سکتے ہیں ۔اس سے قبل ایڈجووینٹ برڈفلو اور سوائین فلو کی وبا کے دونوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا ۔

جینٹک سوفٹ ویئر کوڈِنگ

امریکی کمپنی موڈرنااورجرمنی کی کمپنی کیو رویک کرونا وائرس کی ویکسین بنانے کے لیے ایک مختلف ٹیکنالوجی استعمال کررہی ہیں۔یہ ٹیکنالوجی میسنجر آر این اے کہلانے والے مالیکولز پر کام کرتی ہے ،جو جسم کو بتاتے ہیں کہ وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے خود اپنا دفاعی نظام کیسے بنا سکتا ہے ۔مثال کے طور پر ڈی این اے ایک قسم کی یو ایس بی اسٹک ہے تو آر این اے اس ریڈار کا کام کرتا ہے جو ڈی این اے میں موجود ڈیٹا کو پڑھتا ہے ۔یوں جب جسم کے خلیوں کو کسی قسم کی پروٹین پید اکرنا ہوتی ہے تو آر این اے ہی وہ چیز ہے جو ڈی

این اے میں پوشیدہ معلومات جسم میں موجود ان فیکٹریوں تک پہنچاتا ہے جو پروٹینزپیدا کرتا ہے ۔جرمنی کی کمپنی آر این اے کی مدد سے کئی امر اض کی ویکسین بنا چکی ہے ۔کمپنی کے ڈائریکٹرڈاکٹرٹلمن رڑوزکے مطابق اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلیوں کو جسم کے دفاعی نظام کو بڑھانے میں محض ایک دو گھنٹے لگتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے چند ماہ میں کرونا وائرس کے خلا ف ویکسین اس قابل ہو جا ئے گی کہ اسے محدود پیمانے پر ٹیسٹ کیا جاسکے گا ،تاہم اس حوالے متاثر کن بات یہ ہے کہ کمپنی ایک ایسا آراین اے پرنٹر بنا رہی ہے ،جسے اس جگہ لے جایا جاسکے گا ،جہاں اس کی ضرورت ہو ۔یہ ایم آر این اے فراہم کر کے موقعے پر ویکسین کی پیدا وار بڑھانے میں مدد کرے گا ۔آراین اے ٹیکنالوجی کا استعمال میسا چیوسٹس میں موڈرنا کمپنی میں ہورہا ہے ،جس کی مالی اعانت سی ای پی آئی اور امریکا کا قومی ادراہ برائے الرجی اور وبائی امراض کرتا ہے ۔اس حوالے سے انسانوں پر تجربہ تو اگلے تین ماہ میں ہوجائے گا ۔سان ڈیئیگو کی انوویولیب کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر آغاز میں کیے گئے تجربات کام یاب رہے تو اسے اس سال کے آخر میں بڑے پیمانے پر چین میں آزمایا جاسکے گا ۔کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے ذیکا وائرس سے نمٹنے کے لیے سات ماہ میں ویکسین ایجاد کی تھی ۔انوویو کے سر براہ جوزف کے مطابق ہم چین میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مزید تیزی سے ویکسین تیار کر سکتے ہیں۔

اس وائرس سے بچائو کے کے لیے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اپنے ہاتھ ایسے صابن یا جیل سے دھوئیں جو وائرس کو مار سکتا ہو ۔کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ ڈھانپیں بہتر ہے کہ ٹشو استعمال کریں یا اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں ،تا کہ وائرس پھیل نہ سکے۔کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں ،ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں ۔وائرس سے متاثرہونے کی وجہ سے یہ آپ کے جسم میں داخل ہوسکتا ہے ۔ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رہے ہوں ،چھینک رہے ہوں یا جنہیں بخار ہو ۔ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل سکتے ہیں جو کہ فضامیں ہوسکتے ہے ۔کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے ساتھ ساتھ ،ہمارے سر فیسر( کسی بھی چیز کی سطح جیسے ٹیبل اور دروازے) کا خوف بڑھتا جارہا ہے ۔یہ وائرس ریسپیریٹری سسٹم (سانس کانظام ) پر اثر انداز ہونے والے وائرسز کی طر ح کرونا وائرس ان چھوٹے چھوٹے قطروں کے ذریعے پھیلتا ہے ،جو کسی کھانسنے والے کے منہ اور ناک کے ذریعے خارج ہوتے ہیں ۔ایک کھانسی میں 3000تک ایسے قطرے ہوسکتے ہیں ۔قطروں میں جو ذرات ہوتے ہیں وہ کسی سطح ،یا کسی کے کپڑوں پر گرتے ہیں اور کچھ ہو امیں رہتے ہیں ۔اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ یہ وائرس انسانی اخراج میں بھی موجود ہوتا ہے ۔امریکا میں سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ کسی ایسی جگہ پر ہاتھ لگانا جہاں وائرس ہو اور پھر اسی ہاتھ کو اپنے چہرے پر لگانا اس وائرس کے پھیلا ئو کا مرکزی طر یقہ نہیں ہے ۔

امریکا کا سی ڈی سی اور عالمی ادارہ ِصحت ڈبلیو ایچ اور اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ ہاتھ دھونے اور سطح کو بار بار صاف کرنا ا س وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں اہم ترین اقدام ہے ۔ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں احتیاط برتنی چاہیے ۔ابھی تک یہ واضح طور پر معلوم نہیں ہوا ہے کہ یہ وائرس کتنی دیر تک انسانی جسم کے باہر زندہ رہتا ہے ۔ماضی میں کی گئیں چند تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اس سے ملتے جلتے وائرس میٹل ،شیشے یا پلاسٹک پر نو دن تک رہتے ہیں ،اگر انہیں صحیح سے صاف نہ کیا جائے ۔کم درجہ ٔ حرارت میں تو قریباً 28دن تک زندہ رہ سکتے ہیں ۔کرونا وائرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں کئی قسم کی سر فیسز پر زندہ رہنے ی صلاحیت ہوتی ہے ۔اور محققین ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ وائرس پھیلتے کیسے ہیں ۔امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ ) میں وائرسز کے ماہر نیلجے وان دورمالن مختلف سر فیسز پروائرس کے خلاف ٹیسٹ کرنے والوں میں سے ایک ہیں ۔ان کی تحقیق کے مطابق کھانسے کے بعد یہ وائرس ہو امیں تین گھنٹے تک رہ سکتا ہے ۔کھانسی کے ایک سے پانچ مائیکرو میٹر چھوٹے چھوٹے قطرے ہوا میں کئی گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں ۔یہ سائز میں انسانی بال سے 30گنا کم ہے ۔ جہاں ہوا ہوتی ہے وہاں یہ قطرے جلدی سر فیسز پر بیٹھ جاتے ہیں ،تاہم این آئی ایچ کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہ وائرس گتے پر زیادہ عر صے تک رہے سکتا ہے ۔لیکن کاپر کی سطح پر یہ چار گھنٹے میں مرجاتا ہے ۔

ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی سطح کو 62 سے 71فی صد الکوحل والے یا 0.5فی صد ہائیڈروجن پر آکسائیڈ والے یاگھر یلوبلیچ جیسے کسی محلول سے صاف کیا جائے تو وہاں کرونا وائرسز ایک منٹ میں ختم ہوجاتے ہیں ۔زیادہ درجہ ٔ حرارت اور زیادہ نمی میں بھی کرونا وائرسز جلدی مر جاتے ہیں ۔محققین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرسز 56ڈگری سینٹی گریڈسے زیادہ گرمی میں مر جاتے ہیں ،مگر یہ اتنا گرم ہے کہ اس درجہ ٔ حرارت کے پانی میں نہانے سے انسانی جلد کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ابھی اس پر بھی تحقیق کی جارہی ہے کہ کپڑوں یا اس جیسے سر فیسزجن کو ڈس انفیکٹڈ کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے وہاں یہ وائرس کتنی دیر تک رہتا ہے۔راکی مائونٹین لیبز کے وینسنٹ منسٹر کے مطابق کوئی بھی ایسی سطح جہاں وہ جذب ہو سکتا ہو جیسے کہ کپڑے وہاں یہ زیادہ جلدی خشک ہو جاتا ہے، مگر ان سے چپکا رہتا ہے۔درجہ ٔ حرارت اور نمی کے تناسب کا بھی اس میں عمل دخل ہے کہ یہ وائرس کتنی دیر تک انسانی جسم کے باہر زندہ رہ سکتا ہے۔ وینسنٹ منسٹر کا کہنا ہے کہ ابھی ہم ان دونوں عناصر کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں کہ ان کا وائرس پر کیا اثر پڑتا ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اس وائرس کے انسانی جسم سے باہر اتنی دیر تک زندہ رہنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہاتھ دھونے اور سرفیسز کو صاف کرنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

بیماری کے اثرات

کرونا وائرس بنیادی طور پر ممالیہ جانوروں اور پرندوں کے نظام تنفس اور انسانوں کے نظام ہضم کو متاثر کرتا ہے۔ اس وائرس کے ذریعے انسانوں کو ہونے والی بیماریوں کی اس وقت 4 سے پانچ قسمیں ہیں۔ سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم "انسانی کرونا سارس " ہے جوسارس بیماری کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ بالکل منفرد قسم کی بیماری ہے۔ اس سے اوپری اور نچلے دونوں نظام تنفس یکساں متاثر ہوتے ہیں اور بسا اوقات آنت اور معدے کا نمونیا ہو جاتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ کرونا وائرس عام طور پر بالغ افراد کو سردی کے نزلے کی وجہ سے سب سے زیادہ لاحق ہوتا ہے۔عام سردی میں ہونے والے نزلے کی طرح کرونا وائرس کے اثر کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیوں کہ وہ ناک وائرس (عام سردی کا نزلہ) کے برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح لیبارٹری میں انسانی کرونا کی تحقیق و نشو و نما بھی مشکل ہے۔ کرونا نمونیا، وائرس نمونیا یا تو براہ راست یا ثانوی جرثومی نمونیا کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

اس ضمن میں چین میں طبی تجربات کے نتیجے میں فاوی پیراویر نامی ایک دوا کرونا وائرس کے خلاف مدافعت میں موثر ثابت ہوئی ہے۔ چینی چینل سی جی ٹی این کے مطابق،چین کے قومی مرکز برائے فروغِ بایو ٹیکنالوجی کے صدر ڑانگ کا کہنا ہے کہ شین ڑین شہر میں وائرس سے متاثرہ افراد پر تجربے کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ کم متاثرہ افراد میں اس دوا کے باعث گیارہ کے بجائے چار دنوں میں بہتری کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ ووہان شہر میں ایک اور طبی تجربے کے نتیجے میں دوا کے اثرات چار دن کے بجائے ڈھائی دن میں سامنے آئے ہیں، جب کہ اس کے منفی اثرات بھی انتہائی کم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فاوی پیر اویر دوا جاپان میں2014ءسے دستیاب ہے۔دوسری جانب روسی صدر ولا دیمر پوتین نے بھی کہا ہے کہ جاپانی ماہرین کی طرف سے کرونا وائرس کی نشاندہی کرنے والی ٹیسٹ کٹ اگلے ماہ روس میں تیار ہوگی، جب کہ ترک سائنسدان سرہادنے بھی ایک ایسی کٹ تیار کی ہے جو کہ صرف ایک قطرہ خون کے تجزئیے سے کرونا وائرس کی نشاندہی صرف تین تا دس منٹ میں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین