• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم نے اپنے رب کو ناراض کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔ چھوڑیں مغرب کو، امریکہ کو! آئیں اپنی بات کرتے ہیں۔ ہم میں کون سی خرابی ہے جو موجود نہیں۔

سچ پوچھیں تو ہم جو کرتے ہیں، ہمارے جو اعمال ہیں اُن کے لیے خرابی، کوتاہی جیسے الفاظ بھی معمولی پڑ جاتے ہیں۔ ہم تو سر عام وہ وہ گناہ کرتے ہیں اور اُس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے جن کی بنا پر ایک کے بعد ایک قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور اُنہیں ایک ایک کرکے تباہ و برباد کر دیا گیا۔

یہاں تو ناپ تول میں کمی کرنے پر ایک قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا اور ہم ناپ تول تو کجا جعلی دوائیاں، کیمیکل سے تیار کی ہوئی شے کو دودھ کا نام دے کر بیچتے ہیں، پیسے کے لیے غیر ضروری آپریشن بھی کر ڈالتے ہیں، سڑک، پل، بلڈنگ وغیرہ ناقص میٹریل سے تیار کرکے زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں، یہاں تو مرچ جعلی، آٹا ملاوٹ شدہ، دالیں ناقص، کھانے کا تیل انتڑیوں کو گلا کر بنایا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ گوشت گدھے، گھوڑے کا بیچا جاتا ہے، مردہ مرغیوں تک کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ بجلی، گیس ہم چوری کرتے ہیں۔ رشوت یہاں عام ہے، سفارش کا یہاں دور دورہ ہے۔

سود ہم کھاتے ہیں بلکہ ہمارا پورا معاشی نظام ہی سودی ہے، شراب یہاں عام ہے، زنا کو ہم رواج دے رہے ہیں۔ فحاشی و عریانیت کو خوب پھیلایا جا رہا ہے ، وہ لوگ جو ناچ گانے سے جڑے ہیں اور جس کو اُن کے فحش کام کی وجہ سے جانا جاتا ہے، اُنہیں ہم اور ہمارا میڈیا رول ماڈل بناکر پیش کرتے ہیں۔

اللہ کے احکامات کی یہاں کھلے عام خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں بلکہ کئی معاملات میں تو ہمارا وہ حال ہے جو سرکشی کے زمرے میں آتا ہے۔ کون سی معاشرتی اور اخلاقی خرابی ہے جو ہم میں موجود نہیں؟

یہاں تو نماز پڑھنے والوں، داڑھی رکھنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، فحش اور نازیبا لباس پر تو کسی کو اعتراض نہیں لیکن (عورتوں کے) برقعے اور (مردوں کی) ٹخنوں سے اونچی شلوار کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔

شرم و حیا کو تار تار کیا جا رہا ہے، غیر محرم مردوں اور عورتوں کی دوستیوں کے سلسلے کو تقویت دی جا رہی ہے۔ کون سی ایسی خرابی ہے جو ہم میں موجود نہیں؟

مغرب کی نقالی میں ہم نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو یکسر بھلا ڈالا۔ جس ملک میں ہم رہتے ہیں اور جسے ہم نے اسلام کے نام پر قائم کیا، اُس کو بنے 72سال ہو چکے لیکن ہم نے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے وعدے کو وفا نہیں کیا۔

جب ہماری یہ حالت ہو گی تو ہمارا رب ہم سے ناراض کیوں نہ ہو گا؟؟؟ کورونا وائرس کیوں ہم پر حملہ نہ کرے گا؟ مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی کا بند ہونا، مسجدوں میں تالے پڑنا، جمعہ کی نماز کے لیے چاہتے ہوئے بھی نہ جا پانا، کیا یہ سب میرے رب کی ناراضی کو ظاہر نہیں کرتا؟؟؟ اللہ تعالی نے ایک چھوٹے سے کورونا وائرس سے دنیا کو بدل دیا۔

یہ وائرس میرے رب کی مرضی سے آیا اور اُس کی مرضی سے ہی اس سے ہماری جان چھوٹے گی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنے کیے پر شرمندہ ہیں؟ ہم سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے ہیں؟ گناہوں کی معافی کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہم اُس سرکشی اور اُن گناہوں، خرابیوں سے جان چھڑانے کے لیے تیار ہیں جو رب العالمین کی ناراضی کا باعث بنتی ہیں۔

ہمیں اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر بھی اپنا احتساب کرنا ہوگا جس کے لیے یہ بہترین موقع ہے۔ کس نے کتنا جینا ہے اور کسے کب موت آ پکڑے گی، کون کورونا وائرس کا شکار ہوکر اس دنیا سے جائے گا اور کسے کسی دوسرے بہانے سے اس فانی دنیا سے رخصت ہونا ہے، یہ سب میرے رب کے علم میں ہے۔

اٹل حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کو مرنا ہے۔ کورونا وائرس کی آزمائش یا عذاب نے اگر ہمیں جگا دیا اور اپنے رب کے قریب کر دیا تو ہم کامیاب ہو گئے۔ اگر ہم نے اپنے آپ کو بدل دیا اور جن خرابیوں کا کالم کی ابتدا میں ذکر کیا، اُن سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا تہیہ کر لیا تو یاد رکھیں! ہمارا رب ہماری دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ان شاء اللہ۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین