اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے کی سربراہ اینگر ایڈرسن کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس قدرت کی جانب سے ہم سب کے لیے ایک پیغام ہے کہ انسان جو کرہ ارض کے قدرتی ماحول کو جو پے درپے نقصان پہنچا رہا ہے دراصل وہ پوری انسانیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہم جیسا کررہے ہیں ویسا بھر رہے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ گزشتہ سال آسڑیلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ اور کیتیا افریقہ میں کھڑی فصلوں پر لاکھوں ٹڈی دلوں کا حملہ اور دیگر خطرناک وائرل بیماریوں کا یکایک پھیلنا یہ سب پیغام ہیں اس پر پوری دنیا کو تمام تر سیاسی، مذہبی اقتصادی اور نسلی تنازعات سے بلند ہوکر سوچنا ہوگا تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اس کرہ ارض پر سکون سے زندگی گزار سکیں۔ پوپ فرانسس نے بھی اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ اس حسین کرہ ارض کو گلوبل وارمنگ، موسمی تغیرات، آلودگی سے پیدا ہونے والے خطرات سے محفوظ بنانے کے لیے عملی قدم اٹھائیں۔ انسانیت کو مہیب خطرات لاحق ہیں اور انسان ہی کو اس کا تدارک کرنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے سے جاری ہونے والی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ چند برسوں میں جانوروں سے انسانوں کو خوفناک بیماریوں میں مبتلا کرنے والے بہت سے وائرس سامنے آئے ہیں ان میں پالتو جانور بھی شامل ہیں۔ آج کی سائنس اور تحقیق نے بیشتر وبائی امراض کا علاج دریافت کرلیا ہے مگر چند برسوں میں ابھر کر آنے والے وائرس ان کا علاج دریافت کیا جارہا ہے یہ خطرناک وبائوں میں ریبز وائرس، ایچ آئی وی، نہٹا وائرس، انفلونزا، ماربرگ وائرس، ایبلو وائرس، ڈینگی وائرس، سارس کودی وائرس اور کرونا وائرس ہیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہر روز رپورٹس شائع کی جاتی ہیں جن میں وبائی امراض اور دیگر خدشات کی نشاندہی اور احتیاطی تدابیر شامل ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے پوری دنیا وبائی مرض سے پریشان ہے جو اپنے ساتھ معاشی مسائل، سماجی مسائل اور دیگر لے کر آئی ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے ماہرین اور سائنس داں حقائق سے آگاہ تھے مگر یہ مسئلہ عوام الناس کے سامنے 1992 میں کیوٹو کانفرنس جو برازیل میں منعقد ہوئی تھی اس میں ڈیڑھ سو سے زائد سربراہان مملکت، وزرا اور سفارت کار شریک ہوئے تھے وہ اس موضوع پر پہلی بڑی کانفرنس تھی۔ جس کے بعد دنیا کو آگہی حاصل ہوئی کہ قدرتی ماحول اور فطرت کی ترتیب منتشر ہورہی ہے اور ہم سب موسمی تغیرات کا شکار ہورہے ہیں۔
دنیا کے سائنس دانوں، ماہرین ارضیات اور ماحولیات کی بڑی تعداد بار بار خبردار کرتی رہی ہے کہ گلوبل وارمنگ، موسمی تغیرات سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔ مثلاً آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے کی روک تھام، آلودگی کی روک تھام، فضائی آلودگی میں اضافہ کی روک تھام اور گرین ہائوس گیز کی روک تھام۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی، سبزیوں، پھلوں، غذائی اجناس اور جانوروں کے گوشت سے بھی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کارخانوں کے آلودہ پانی سے کھیتوں کو سیراب کیا جارہا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں پانی کی صفائی اور انہیں دوبارہ قابل استعمال بنانے کا کوئی بندوست نہیں ہے وہ آلودہ پانی کھیتوں میں جاتا ہے یا دریا نہروں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے صاف پانی بھی آلودہ ہورہا ہے۔ اس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ موسمی تغیرات سے بیشتر خطوں میں سیلابوں، بارشوں، طوفانوں اور خشک سالی سے زبردست نقصانات ہورہے ہیں۔ آسڑیلیا، روس، امریکہ، افریقہ اور مشرق وسطی کے بہت سے علاقوں میں خشک سالی کی وجہ سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔
تاریخ دانوں اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دریافت تاریخ کے پانچ ہزار برس میں کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں اس طرح کی تبدیلیوں کا سراغ نہیں ملتا۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ماحولیاتی آلودگی صرف قدرتی عوامل کا نتیجہ ہو تو اس کا سدبات بھی قدرتی طور پر ہوتا رہتا ہے مگر قدرتی ماحول میں بگاڑ ہم پیدا کررہے ہیں زمین فضا اور پانی میں زہریلے مادے خطرناک کیمیاوی اجزاء شامل کررہے ہیں جس کی وجہ سے زمین کا فطری ماحول بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ شور بے ہنگم آوازیں ہماری سماعت کو متاثر کررہی ہیں، سڑکوں پر ٹریفک کا شور بے ہنگم آوازیں، دھواں، دھول مٹی، گرد و غبار اور اطراف میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر یا گندے پانی سے لبریز سڑکیں اور گلیاں یہ سب کیا ہیں۔ ہماری ہر سانس آلودہ، سماعت متاثر، بینائی متاثر، ہم بدترین آلودہ ماحول کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ پھر اس پر ستم یہ کہ زیادہ ترقی پذیر ممالک کے عوام میں تعلیم برائے نام ہے، ناخواندہ معاشرے ہیں، سوک سین کا تصور ناپید ہے۔
ان تمام مسائل اور مصائب میں سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ جس پر ترقی پذیر ممالک بالکل توجہ نہیں دیتے وہ آبادی میں بے ترتیب اضافہ ہے۔ اس حوالے سے جدید دنیا کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور یہ مسئلہ روز بروز گھمبیر صورت اختیار کررہا ہے۔
اٹھارہویں صدی میں معروف ریاضی داں تھامس مالتھس نے اٹھارہویں صدی میں آبادی میں اضافہ پر شاندار تحریر دنیا کو دی جس میں اس نے صراحت سے بتادیا کہ انسانی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس پر بندش عائد نہ کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب شرح اموات کے مقابلے میں شرح پیدائش میں زبردست اضافہ ہوجائے گا کھانے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور غذائی پیداوار کم سے کم ہوجائے گی۔ مالھتس ایک نیک نیت پادری تھا اس لیے وہ انسانوں کے بارے میں سوچتا تھا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے اور انہیں امدادی رقمیں فراہم کرنے کے نتیجے میں اوائل عمر کی شادیاں اور بغیر سوچے سمجھے اولاد پیدا کرنے کی رجحان کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
اگر آج مالھتس زندہ ہوتا اور یہ سب کچھ دیکھتا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں سے انسان اب زیادہ اناج پیدا کررہا ہے اور اربوں انسان اس سے کماحقہ مستفید ہورہے ہیں تو وہ یہ دیکھ کر کہتا میرا نظریہ اپنی جگہ ہے۔ تم لوگ جو چاہو کرلو مگر آبادی میں اضافہ ایک بڑا مسئلہ ہوگا کیونکہ زمین کی زرخیزی کی بھی ایک حد ہوتی ہے جدید ٹیکنالوجی اپنی جگہ شرح اموات کے مقابلے میں بچوں کی پیدائش کی شرح زیادہ ہوگی اور یہ ترقی دھری کی دھری رہ جائے گی۔
بلاشبہ مالھتس کا نظریہ اپنی جگہ ہے۔ ہم نے اب اس حقیقت کو بڑی حد تک قبول کیا ہے دنیا میں جو پے درپے قدرتی آفات اور مسائل کا سامنا ہے اس کا ایک بڑا سبب آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں تین ارب کی آبادی ساڑھے سات ارب افراد تک پہنچ چکی ہے۔ ہر چند کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے جاپان، جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے اپنی آبادی کی روک تھام کر رکھی ہے اور ان ممالک میں شرح پیدائش تقریباً ایک فیصد یا کم ہے۔ جبکہ آبادی کی شرح میں اضافہ والے ممالک میں نائجیریا اور پاکستان نمایاں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین اپنی سکت سے زیادہ بوجھ اٹھا رہی ہے۔ اس طرح چین اور بھارت میں آبادی میں اضافہ سے آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا کے قدرتی ماحول کو پہلے ہی بہت سے مسائل اور خطرات کا سامنا ہے آبادی میں اضافہ موسمی تغیرات کو مزید ہوا دے گا اور زمین پر بگاڑ پیدا ہوگا وبائو میں اضافہ ہوگا۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ جن ممالک میں آبادی میں اضافہ کی شرح زیادہ ان ممالک میں آبادی کی روک تھام کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے جدید سائنسی طریقوں کو اپنانے پر زور دیا جائے۔
امریکہ دنیا کی پچیس فیصد آلودگی پھیلانے کا ذمہ دار ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ کرتا ہے جبکہ اس کی آبادی دنیا کی آبادی کا پانچ فیصد ہے۔ یورپی ممالک میں آبادی پر کنٹرول ہے مگر امریکہ اس کے برعکس آبادی میں اضافہ کررہا ہے 1970 میں امریکہ میں بیس کروڑ آبادی تھی اب بتیس کروڑ کے قریب ہے اور 2050 میں یہ تعداد بڑھ کر بیالیس کروڑ سے زیادہ ہوجائے گی۔
دنیا کی آبادی میں اضافہ کا پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ جنوبی کرہ ارض کے ممالک میں آبادی زیادہ ہے اور یہ آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو آئندہ برسوں میں آبادی میں مزید اضافہ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی مجموعی آبادی سات ارب ستر کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے براعظمی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔
ترقی پذیر ممالک کی آبادیاں زائد ہیں جہاں تعلیم کی کمی، پسماندگی، ؟؟، بیروزگاری، مہنگائی، صحت عامہ کا فقدان، مایوسی اور افراتفری زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ خوراک کی کمی، صاف پینے کے پانی کی کمی بڑے مسائل ہیں۔ اس کی وجہ سے ماحولیات میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ دنیا کے بڑے اور گھمبیر مسائل میں پینے کے صاف پانی کی کمی بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ لالچ، حرص و ہوس اور زیادہ منافع کمانے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے بے تحاشہ دوڑ میں کرہ امرض کا حسن ماحولیات اور بے شمار حیاتیات تباہ ہورہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اور وہ چند ممالک جن کی معیشتیں فروغ پارہی ہیں جیسے چین، بھارت اور برازیل وغیرہ کی سیاسی معاشی مفادات کی اندھا دھند دوڑ نے بہت سے حقائق مسخ کردیا ہے۔ کرہ ارض پر موجود حیاتیات کو قدرتی ماحول میں بتدریج تبدیلی سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ انسانی کوتاہیوں او خود غرض فطرت کی ترتیب کو منتشر کررہی ہیں۔ موسمی تغیرات قدرتی ماحول میں بگاڑ اور آلودگی میں اضافہ ایک حقیقت ہے۔ بھارت میں گرین پیس کے سینکڑوں رضا کاروں کو کام کرنے روک دیا گیا کیونکہ گرین پیس جنگلات کی کٹائی اور کوئلہ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے خلاف تحریک چلارہی تھی۔ بھارت نے گرین پیس کو جو غیرسرکاری تنظیم ہے اور ماحولیات میں سدھار کے لیے سرگرم عمل ہے کام کرنے دیا اور اس کا لائسنس بھی منسوخ کردیا۔ کیونکہ تنظیم نے مودی سرکاری کے بعض اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی اور بھارت کو دنیا میں آلودگی پھیلانے والا تیسرا بڑا ملک قرار دیا تھا۔
اس طرح امریکہ نے 1992 میں کیوٹو کانفرنس میں ماحولیات میں سدھار لانے کے لیے جو معاہدہ طے ہوئے ان پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اس وقت صدر جارج بش تھے اب صدر ٹرمپ نے پیرس معاہدہ کو رد کرتے ہوئے امریکہ کو اس سے الگ کرلیا ہے جبکہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے پیرس معاہدہ کی تکمیل کے لیے خاصی سرگرمی دکھائی تھی اور وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ گلوبل وارمنگ ایک حقیقت ہے مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منطق اس کے برعکس ہے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سب غلط ہے دراصل دنیا گلوبل کول کی طرف جارہی ہے امریکہ میں آئے دن برفانی طوفان آتے ہیں سمندر ٹھنڈے ہورہے ہیں اس وجہ سے وہ پیرس معاہدہ سے الگ ہوگئے جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی امریکہ پھیلاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے بڑے سرمایہ دار طبقے کو گلوبل وارمنگ اور ماحولیات میں بگاڑ کے مسئلے پر بہت سے اعتراضات ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ محض سائنس دانوں کی ایک لابی کے ذہن کی اختراع ہے اور زمین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے جو اپنی شہرت کے لیے یہ راگ الاپ رہے ہیں۔ دنیا جیسی چل رہی ہے چلنے دو۔ ماہرین کا ایک نظریہ یہ ہے کہ تاریخ ارضیات کے تابع ہے چنانچہ آئے دن سیلاب آتے ہیں، سمندر کہیں نہ کہیں خشکی کا کوئی ٹکڑا نگل لیتا ہے یا پھر خشکی سمندر کا کچھ حصہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ شہروں کے شہر غرقاب ہوجاتے ہیں۔ کہیں پہاڑ نمودار ہوجاتے ہیں۔ کہیں پہاڑ اپنا وجود کھو دیتے ہیں، کہیں دریا اپنا رخ تبدیل کرلیتے ہیں۔ وادیاں صحرائوں میں بدل جاتی ہیں، خاکنائے آبنائے بن جاتے ہیں۔ ماہرین ارضیات کو تاریخی جغرافیائی جائزہ سے انکار نہیں ہے۔ مگر یہی ماہرین کہتے ہیں جو کچھ چل رہا تھا اس میں انسانی اقدام نے مداخلت کرکے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔
جو لوگ ماحولیات میں بگاڑ اور موسمی تغیرات کو حقیقت ماننے سے انکار کرتے ہیں ان کی تعداد دس سے پندرہ فیصد ہے۔ ماحولیات کی ہر کانفرنس میں دنیا کے بڑے سائنس دانوں، ماہرین اور دانشوروں کی قطعی اکثریت نے شرکت کی ہے اور اس سچائی کو تسلیم کیا ہے کہ قدرتی ماحول میں بگاڑ کا ذمہ دار انسان خود ہے۔
انسان دوست علمی حلقوں کا کہنا ہے کہ انسانی خواہشات حرص و ہوش منافع کا لالچ سفاکانہ مسابقت کی دوڑ نے انسان کی عزت نفس، زمین کے قدرتی ماحول اور معاشروں کی اپنی روایات شدید زک پہنچائی ہے۔ انسان کو مشین بنادیا گیا۔ صارفین کا سماج وضع کرکے اس کی ضرویات کھیلا جارہا ہے۔ زندگی کا ہی نہیں فطرت کا حسن بھی چھین لیا ہے۔ لوگوں کی زندگی دو وقت کی روٹی کے لیے کولہو کے بیل جیسی ہوکر رہ گئی ہے۔ زندگی کی ضروریات نے انسانی اخلاقیات اور زرق جمالیات کو روند ڈالا ہے۔ ہر شہ میں ہر عمل میں ہر طرف فطری عمل کی جگہ تضوع اور معنوعیت نظر آتی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ گلوبل وارمنگ سے جتنا انکار کریں مگر امریکی سائنس دان اور ماہرین ارضیات جانتے ہیں کہ کیلی فورنیا کے ساحلی علاقوں سے آنے والی گرم ہوائیں جنگلات میں آگ لگنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس طرح جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں آسڑیلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ اس ملک کی سب سے بڑی قدرتی تباہی کا سبب بنی۔
ناسا نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 1870 سے اب تک سمندر کی سطح میں آٹھ انچ کا اضافہ عمل میں آیا ہے۔ مگر اب سمندر کی سطح میں بتدریج اضافہ عمل میں آرہا ہے جو ایک خطرے کی نشانی ہے۔ ناسا نے گلوبل وارمنگ، موسمی اتار چڑھائو اور گلیشیر پگھلنے کے عمل پر نظر رکھنے کے لیے دو درجن ماہرین کو ٹاسک دیا ہ۔ سائنس دانوں کے مطابق گزشتہ بارہ ہزار سال میں جو درجہ حرارت بڑھا اب صرف اتنا درجہ حرارت گزشتہ تیس سال میں بڑھا ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔
کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں پیدا ہونے والی بگاڑ اور آلودگی کے حوالے سے 1970 میں جائزہ لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے رپورٹوں نے سب کے ہوش اڑا دیئے۔ 1997 میں جاپان میں ہونے والی ماحولیات کی بڑی کانفرنس میں سائنس دانوں کی بڑی تعداد شریک تھی جنہوں نے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ زمین کے قدرتی ماحول کو بگڑنے سے بچائو کا طریقہ یہ ہے کہ قدرتی کوئلہ اور تیل کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیس میں اضافہ ہورہا ہے جس سے زمین کے قدرتی ماحول پر شدید منفی اثرات نمایاں ہورہے ہیں۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ اجارہ دار سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کی ستر فیصد سے زائد آبادی کو غربت، جہالت، پسماندگی، توہم پرستی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ اس کھیل میں عالمی بینک، آئی ایم ایف، ورلڈ اکناک فورم اور دیگر بڑے سرمایہ کار سود خود ادارے شامل ہیں۔ کوئلہ، تیل، قدرتی گیس کے استعمال کو کم سے کم کرکے انرجی کی پیداوار کے لیے متبادل طریقوں پر زور دیا جارہا ہے جیسے سولر انرجی، ونڈ انرجی، ہائیڈرو پاور اور تھوریم انرجی سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح دنیا کی ؟؟ کا 7فیصد حصہ بچایا جاسکتا ہے اور آلودگی میں کمی کی جاسکتی ہے۔
پیرس میں ہونے والی ماحولیات کی عالمی کانفرنس میں اس پر بھی بات کی گئی کہ سمندر کو آلودگی سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سمندر سے ہم 2.5 ٹریلین ڈالر کماتے ہیں۔ تین ارب انسانوں کو سمندر خوراک فراہم کرتے ہیں۔
چند دہائیوں سے سمندر سے زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سمندروں میں کارخانوں کا آلودہ پانی ڈالا جارہا ہے۔ پلاسٹک کا کوڑا ڈالا جارہا ہے۔ دیگر کوڑا کرکٹ سمندروں میں بھرا جارہا ہے۔ فیکٹریوں کا تیزابیت اور کیمیکل کا پانی سمندر میں ڈالا جارہا ہے جس کی وجہ سے سمندری حیاتیات کو شدید خطرات لاحق ہیں، بلکہ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ سمندری حیاتیات میں کئی اقسام کی مچھلیاں ناپید ہوچکی ہیں۔ سمندر آلودہ ہورہے ہیں۔ اگر انسان اسی طرح سمندری خزانوں کو پامال کرتا رہا تو یہ انسانیت کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نیا راستہ اپنائیں جس سے سمندری حیاتیات کو تمام انسانوں کو فائدہ ہوسکے۔ اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی نظر میں رکھنا ہوگا کہ ہمارے دیگر اقدام کی وجہ سے سمندر کی سطح میں جو تبدیلی آرہی ہے اس کا سدباب کیونکر کیا جاسکتا ہے یہ ایک بڑا سوال ہے۔ واضح رہے کہ سمندروں کے حوالے سے جاری ناسا کی رپورٹ کے مطابق سمندر کی سطح بیس سینٹی میٹر بڑھ رہی ہے۔ جو 2050 میں چالیس سینٹی میٹر تک ہوجائے گی۔ دوسری طرف ساحلی زمین آہستہ آہستہ دھنستی جارہی ہے۔ اس کی وجہ سے ساحلی پٹی پر ملٹی اسٹوری بلڈنگز کی تعمیر ہے۔ اس وجہ سے میگا سٹی جکارتہ جو انڈونیشیا کا صدر مقام ہے چالیس سینٹی میٹر کی وجہ سے سمندر کی نذر ہوسکتا ہے۔ بار بار سمندری طوفان، ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بھی سمندر کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے برف بگھل رہی ہے، بارشوں اور سیلابوں کا پانی سمندر میں ہی گر رہا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ 2100 میں سمندر کی سطح میں ایک میٹر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر انسان نے ہوش مندی سے کام کیا اور قدرتی ماحول کو بہتر بنانے پر پوری توجہ مرکوز کردی تو ممکن ہے ماحولیات میں سدھار آجائے گا اس کے لیے کاربن سی ٹی کا اخراج کم سے کم تر سطح پر لانا ہوگا اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔ ماحول دوست کردار اپنانا ہوگا۔ زمین کو مزید کھوکھلا نہ کیا جائے۔ سمندر کو کوڑے دان نہ بنائے درختوں کی کٹائی بند کرے نئے پودے لگائے اور قدرتی ماحول کو مزید خراب ہونے سے محفوظ رکھے۔