• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے میرے پروردگار! میرا سینہ کھول دے۔ اور میرے کام کو آسان کر دے۔ اور میری زبان سے گرہ کھول دے۔ تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ لیں۔ (سورہ طہٰ۔ 25تا28)

اے غفار! اے ستار! ہم گنہگار۔ خطا کار۔ مقصدِ حیات سے غافل۔ آسٹریلیا سے کینیڈا تک۔ سارے بر اعظموں میں اپنی بےبسی اور بےکسی تسلیم کرکے اپنے گھروں میں بند ہیں۔

اے القہار! اے الفتاح! ہم مانتے ہیں کائنات بحر و بر تسخیر کرنے کے باوجود ہماری فہم بہت محدود ہے۔ ذہن میں جتنی روشنی ہے وہ بھی تیری عطا کردہ ہے۔

اے الباسط! اے الواسع! دسمبر 2019ء سے سارے سائنسدان، اسکالرز، علما و فضلا، ماہرین سب اس نئی وبا کی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ 50ہزار سے زیادہ انسان اس کا شکار ہو چکے ہیں۔

اے الخبیر! الکبیر! زمین کے ناخدا رو رہے ہیں۔ بادشاہ، وزرائے اعظم، صدور، چانسلرز، گورنرز سب عاجز ہیں۔ یہ وبا بکنگھم پیلس میں بےدھڑک داخل ہوگئی ہے۔10ڈائوننگ اسٹریٹ اس کا راستہ نہیں روک سکی۔ محلات محفوظ ہیں نہ قَلعے۔ نہ سیکرٹریٹ، نہ چھائونیاں۔

اے رزاق! اے نافع! امیر قومیں اپنی ساری ترقی ساری دولت کے باوجود یہ جی20، گروپ آف سیون، اس وبا کے بڑھتے قدم نہیں روک سکے۔ وہ اور ان کی مقروض قومیں زندگی اور موت کی ایک جیسی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے دنیا کو پہلی دوسری اور تیسری میں تقسیم کر رکھا تھا۔ کورونا وائرس نے سب کو ایک کر دیا ہے۔

یا حی یا قیوم! اے ہمارے معبود! تیرے سوا ہم کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم خوف زدہ ہیں۔ تھرتھر کانپ رہے ہیں کہ تیرے گھروں کے دروازے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ مکۃ المکرمہ، مدینۃ المنورہ میں کرفیو لگ رہا ہے۔ اسلامی ملکوں میں مسجدیں اجتماعات سے محروم ہو رہی ہیں۔ یہ سب مسلم حکمرانوں کے دَور میں ہو رہا ہے۔ غیر ملکی سامراجی ظالم ہلاکو، چنگیز، فرنگی یہ کیا کرتے تھے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے ذہن اس حکمت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہماری جبینوں میں سجدے تڑپ رہے ہیں۔

کبھی اے حقیقت منتظَر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں

اے قادر! اے مقتدر! تو نے ہی فرمایا ہے۔ تم مجھ سے مانگو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (المومن۔60)

اے سمیع! اے بصیر! ہم حاضر ہیں۔ اپنے اپنے گھروں میں جائے نماز بچھائے ہم بڑی عاجزی سے فریاد کر رہے ہیں۔ ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآن پاک کی روشنی میں، حضور اکرمؐ کی سیرت اقدس، اسوۂ حسنہ سے یہ جان سکیں کہ یہ کڑا وقت کیوں آیا ہے۔ ہم اس ابتلا سے کیسے نکل سکیں گے۔ ہمیں ساتویں صدی عیسوی سے تیرہویں صدی کے ادوار کے مسلمانوں جیسی توانائی بخش کہ ہم اس کائنات کے اسرار و رموز سمجھ سکیں۔

اے حفیظ! اے حبیب! ہمیں ہمت دے کہ ہم تحقیق کر سکیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس صدی میں انسانی زندگی کی بہترین سہولتیں دینے والے، احیائے علوم اور نشاۃ ثانیہ کے علمبردار یورپ میں موت نے اپنے پر اس طرح کیوں پھیلائے ہیں۔ ان کا نظام صحت کیوں زمیں بوس ہو گیا ہے۔ فلسفہ، منطق، نبادات، جمادات، حیوانات، حیاتیات، ارضیات، سماجیات ساری علمی جہتیں کیوں شل ہو گئی ہیں۔ وہ جو سپر طاقت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے واشنگٹن نیویارک میں قبرستان کی حدود کیوں بڑھ رہی ہیں۔ ان کی فوجی ہیبت، جدید ترین اسلحہ، خوفناک کمانڈرز اس چھوٹے سے جرثومے کے آگے بےبس ہیں۔

اے المہیمن! اے جبار! پیغمبر آخر الزماںؐ تیرے محبوب کی امت اتنی بےحس کیوں ہوگئی ہے۔ او آئی سی کی کوئی آواز نہیں آ رہی ہے۔ مسلمان ملکوں کی یونیورسٹیاں اس عالمی ابتلا پر کوئی تحقیق نہیں کر رہی ہیں۔

اے اوّل اے آخر! اے ظاہر اے باطن! یہ تو ہی جانتا ہے کہ دنیا اس صورتحال سے کب اور کیسے نکلے گی۔ کتنے زمین کے اندر جا چکے ہوں گے۔ کتنے زمین کے اوپر تڑپ رہے ہوں گے۔ ہمیں تحقیق کی استطاعت دے۔ دریافت کی صلاحیت دے۔ ایجاد کی طاقت دے اور اجتہاد کا حوصلہ دے۔

اے جلیل! اے کریم! ہمیں جلد توفیق دے کہ ہم مسجدوں کے دروازوں پر کھڑے دعائیں مانگ رہے ہوں۔ ’یاﷲ! کھول دے۔ ہمارے لیے اپنی رحمت کے دروازے‘.

اے رحمن! اے رحیم! 200سے زائد ممالک صدیوں کی تحقیق، تدریس، ایجادات، دوائوں، ویکسینوں کے باوجود اپنے پیاروں کو ہلاکت سے نہیں بچا پا رہے ہیں۔ میرے مالک یہ تیرے نائب ہیں۔ تو نے ہی انہیں احسن تقویم عطا کی ہے۔ اب ان سے مزید ہلاکتوں کا صدمہ برداشت نہیں ہوگا۔ ہم سب کو یہ یقین کامل ہے کہ اس وبا کے تیز رفتار اور موت کے متواتر حملے اسی لمحے ختم ہوں گے جب تیرا حکم ہوگا۔ ہماری التجا ہے کہ اب اس لمحے کو طلوع ہونے کی اجازت دیدے۔ پوری دنیا اس کٹھن وقت میں بہت کچھ سیکھ چکی ہے۔ لہو و لعب ترک کر چکی ہے۔ خدا ترس ہو چکی ہے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی عادی ہو رہی ہے۔ اے باری! اے مصور! انسان پر وہ حقیقت آشکار کر دے جس کے لیے دنیا اس کرب اور مصائب سے گزاری گئی ہے۔ ان سائنسدانوں، معالجوں اور مفکروں کو سیدھا راستہ دکھا جو رات دن جاگ کر اس درد کا درماں ڈھونڈ رہے ہیں۔

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین