دنیا بھر میں کمپیوٹر کو حقیقی مناظر دیکھنے کے قابل بنایا جارہا ہے جسے ’’کمپیوٹروژن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی ضمن میں جدید ترین مصنوعی آنکھ تیار کی گئ ہے جو ایک سیکنڈ کے اربویں حصے میں کسی بھی منظر کو پہچان سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق اس کی تیاری کے لیے ایک ہی چپ پر روشنی محسوس کرنے والی الیکٹرونکس اور نیورل نیٹ ورک کو ایک ساتھ رکھا گیا ہے۔ اس طرح دنیا میں موجود تمام سینسر سے بھی تیز رفتار اور مؤثر برقی آنکھ تیار کی گئی ہے۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیشِ نظر مصنوعی طور پر دیکھنے والے نظاموں کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ ان میں صنعتی روبوٹ، ڈرون اور ڈرائیور کے بغیر چلنے والی کاریں شامل ہیں جنہیں کمپیوٹر وژن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اگرتمام نظام فوری طور پر کوئی منظر دیکھ کر اسے پہچان سکے تو اس سے ان کے کام کرنے کی صلاحیت مزید بہتر ہوسکتی ہے اور ڈرون سے لے کر روبوٹ تک کو بہت مؤثراور تیزرفتار بنایا جاسکتا ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ مشین کو کسی منظر دیکھنے کے قابل بنانا کتنا مشکل ہے اور اس کے لیے کس قدر کمپیوٹر قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی بصارت کی چھوٹی چپ بنانا ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے، کیوں کہ ایک وقت میں بہت زیادہ بصری ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اور اسے پروسیس کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔اس چپ کے ذریعے سارا ڈیٹا فوری طور پر پروسیس ہوتا رہتا ہے اور بہت تیزی سے اپنا عمل انجام دیتا ہے۔ یہ کام ویانا میںواقع انسٹی ٹیوٹ آف فوٹونکس میں انجام دیا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی آنکھ بنانے کے لیے جانور کی آنکھ کی نقل کی گئی ہے جو ساری معلومات کو دماغ تک بھیجنے سے پہلے ہی پروسیس کرلیتے ہیں۔
سائنسدانوں کی ٹیم نے ٹنگسٹن ڈی سیلینائیڈ کے چند ایٹم کی موٹی تہہ پر پوری چِپ ڈیزائن کی ہے،پھر اس پر روشنی محسوس کرنے والی ڈائیوڈ لگائی گئی ہے۔ پھر ان ڈائیوڈ کو ایک نیورل نیٹ ورک سے جوڑا گیا ۔ اس طرح پوری چپ نیورل نیٹ ورک سے یوں جڑتی ہے کہ آپ اسے حسبِ ضرورت تبدیل کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر اب تک چپ کو انگریزی کے بعض حروف کی شناخت کے قابل بنایا گیا ہے۔ تاہم اس پر مزید تحقیقات جاری ہے۔