٭ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ مالتھس کےنظریہ آبادی کو مانا جائے یا رد کر دیا جائے۔ اور اگر مانتے بھی ہیں تو آبادی کم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے یا غذائی پیداوار بڑھانے پر محنت کی جائے۔ لیکن اجناس کی توآج بھی کوئی کمی نہیں ۔ جو چیز نہیں ہو رہی وہ ہے منصفانہ تقسیم۔ہم دوہرے غیر منصفانہ نظام میں رہ رہے ہیں ایک عالمی اور دوسرا ملکی طبقاتی نظام ۔
٭دنیا کے چند امیر ملکوں نے ڈیڑھ سو غریب یا متوسط ملکوں کو اپنے مالیاتی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ گھٹے ہوئے ماحول میں ہمارے اپنے زور آور ہیں جو بچی کچھی روٹی بھی عوام کے حلق سے چھین رہے ہیں ۔
٭اگر ہم اپنی کثیر آبادی کو انصاف نہ دے سکےتو پھر اجتماعی جسمانی اوراخلاقی موت کے لئے تیار رہیں ، کیوں کہ وائرس سے بچ نکلے تو جوہری اسلحے کا جوانبار ہم نے کھڑا کر لیا ہے وہ چشم زدن میں ہست کو نیست کر دے گا۔اصل تنبیہ ایک عادلانہ نظام کے قیام کی ہے۔ کورونا وائرس نے اس کی راہ ہموار کر دی ہے، پہلا قدم کون لیتا ہے وہی سلطان۔
دوسو سال گزرے جب مالتھس نے اپنا نظریہ آبادی پیش کیا ، تو اس کے ذہن میں کورونا وائرس نہ تھا لیکن طاعون ، تپ دق ، چیچک اور ہیضہ ضرور تھا۔ وبائی امراض کے ساتھ قدرتی آفات کو مالتھس نے برابر کی اہمیت دی تھی جو بڑھتی آبادی کو روکنے میں مدد گار ہوتے ہیں کیوں کہ غذا کی پیداوار اس رفتار سے نہیں بڑھتی۔قدرتی آفات میں سیلاب اور زلزلے سے ہر ملک گزرتا ہے ، البتہ آتش فشاں کا پھٹنا سمندری طوفان سے تباہی اور چٹانی تودوں کا لڑھک کر آبادیوں کو مسمار کر دینا انہی ممالک میں ہوتا ہے جو پہاڑوں کے دامن میں یا سمندروں کے کناروں پر آباد ہیں ۔
روئے زمین پر انسانی گنتی (Geometric Progression)سے بڑھتی ہے یعنی 2 سے 4 اور چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ ۔ جب کہ غذائی اجناس کی پیداوار (Arithmetic Progression)سے یعنی ایک سے دو پھر دو سے تین اور تین سے چار ۔ اس لئے انسانی آبادی کی وقتاً فوقتاًروک تھام ضروری ہے چنانچہ قدرتی آفات اور وبائی امراض کے بعد تیسری صورت مالتھس کے خیال میں قحط اور جنگیں تھیں ۔
طاعون کی وباء چوہوں سے پھیلتی ہے جیسا کہ کورونا وائرس کا ذمہ دار چمگاڈروں کو ٹہرایا جا رہا ہے ۔ یورپ کے سرد مُلکوں میں سولہویں اور سترہویں صدی میں یہ وباء عام تھی ۔ ہندوستان اور انڈونیشیا جیسے گرم مُلک بھی اس کی زد میں آتے رہے ۔1665 میں لندن کی پانچ لاکھ کی آبادی میں ستر(70) ہزار افراد اس کالی موت (Black Death) کی بھینٹ چڑھ گئے۔
انیسویں(19) صدی میں شمالی ہندوستان میں ہیضے کی وباء باربار پھیلتی رہی ، ڈپٹی نذیر احمد کا ناول توبتہ النصوح اسی پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ نصوح دہلی کے ایک خوش حال خاندان کا سربراہ ہے جو ہیضے میں بیمار پڑتا ہے اور خواب میں اپنے کو حشر کے میدان میں پاتا ہے ۔ہیضے سے جانبر ہونے کے بعد اپنی اور خاندان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے جو نذیر احمد کے ناول کا اصل موضوع ہے ۔یہ اردو کے مقبول ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے ۔
بیسویں(20) صدی میں انفلوئنزا نے دنیا میں ڈیرے ڈال دیئے ۔1918ءمیں کرہ ارض کے دو کروڑ باسی متاثر ہوئے۔ صرف امریکہ میں پانچ لاکھ اموات ہوئیں ۔انفلوئنزا کی ایک جھلک میری یاداشت میں آج بھی محفوظ ہے جب 1957ء میں امریکہ ، کینیڈا اور انگلینڈ سے ہوتی ہوئی یہ بیماری کراچی آن پہنچی۔اس کاایک نشانہ روزنامہ جنگ کے کالم نگار مجید لاہوری بنے۔ جو اپنا پندرہ روزہ طنز ومزاح کا رسالہ نمک دان کے نام سے نکالا کرتے تھے۔ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا ۔رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا ، مجید لاہوری کے تخیل کی پرواز تھی جب ہندوستان کے مختلف صوبوں سے لوگ ہجرت کر کے آرہے تھے اور کراچی ہو یا لاہور رہائش سب سے بڑا مسئلہ تھی ۔
قدرتی آفات میں زلزلہ سب سے اچانک اوور سب سے جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔کئی ممالک تو ایسے ہیں کہ زلزلہ ہر دس(10) یا پچاس (50)سال بعدآتا رہتا ہےاور انبوہ کثیر کے لقمۂ اجل بننے کا سبب ہوتا ہے ۔چین ، جاپان ،ایران ، ترکی اور پاکستان اس میں سرفہرست ہیں ۔2005ء کا کشمیر کا زلزلہ تو ہماری یادوں میں تازہ ہے جب اَسی(80) ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے ۔ اور متاثرین کی تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے ۔آج بھی ان کی دوبارہ آبادکاری مکمل نہیں ہو سکی ہے ۔ ہزاروں یتیموں کی کفالت اور تعلیم رفاحی ادارے کر رہے ہیں اور ایک تعداد ضرور دربدر بھی ہوئی ہو گی ۔ کوئٹے کا 1935ء کا زلزلہ جس میں شہر کی آدھی آبادی رات کے اندھیرے میں ابدی نیند سو گئی۔آج بھی کوئٹےکے (H.Type)مکانات زلزلے کی یاد دلاتے ہیں جہاں صرف سات فٹ اونچی دیوار اینٹوں کی جب کہ بقیہ دیوار اور چھت ٹین کی چادروں کی تاکہ اگلے زلزلے میں اموات زیادہ نہ ہوں ۔
یہ تو صرف پاکستان کا احوال تھا ۔سولہویں(16) صدی میں چین کے صوبہ شن سی میں زلزلے سے ساڑھے آٹھ لاکھ اموات ہوئیں جب کہ 1976ء میں تنگ شان صوبے میں ڈھائی لاکھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ احمد آباد گجرات کے زلزلے میں جہاں کراچی ہل کر رہ گیا وہاں احمد آباد سے تیس (30) ہزار اموات کی رپورٹ ہوئیں لیکن ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم واجپائی نے کہا کہ شاید ہم کبھی نہ جان سکیں کہ 2000کے یوم جمہوریہ پر واقع ہونے والے زلزلے میں درحقیقت کتنی اموات ہوئیں ۔
جنوبی امریکہ کا ملک چلی اور شمالی امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا مستقلاً زلزلے کی زد میں رہتے ہیں ۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ ممالک جو ٹکٹانک پلیٹس (Tectonic plates) کی سرحد پر ہوتے ہیں وہ ان پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہمہ وقت زلزلے کے خطرے سے دو چار رہتے ہیں ۔پاکستان تین پلیٹوں کی سرحدوں پر واقع ہے اس لئے ٹی وی کی پٹیوں پر کسی نہ کسی علاقے سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے زلزلے کی خبر چلتی رہتی ہے ۔اللہ ہمیں کسی بڑے زلزلے سے محفوظ رکھے مگر مالتھس کے نظرئیے کے مطابق یہ قدرت کا نظام ہے جو آبادی کو کنٹرول میں رکھتا ہے ۔
دوسری بڑی قدرتی آفت سیلاب ہے ۔ آدمی سب سے پہلے دریا کے کنارے آباد ہوتا ہے اور دریاؤں کا خاصہ ہے کہ جب بارشیں زیادہ ہوں یا گلیشئر درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے پگھلے تو دریاؤں میں پانی بڑھ جاتا ہے اور کناروں سے چھلک کر کھیتوں اور میدانوں میں پھیل جاتا ہے یہ سیلاب رحمت بھی ہے اور زحمت بھی ۔آپ نے جغرافئیے کی کتابوں میں پڑھا ہو گا کہ مصر دریائےنیل کا تحفہ ہے ۔ کیوں کہ سیلاب کا پانی جب اترتا ہے تو اپنے پیچھے سیلابی مٹی چھوڑ جاتا ہے جو بڑی زرخیز ہوتی ہے ۔ دریائے نیل ہو یا شیر دریا سندھ ، مسی سی پی(Mississippi )ہو یا برہم پترا ، ہر دریا سیلاب کا سبب بنتا ہے اور آبادیوںکو بہا لے جاتا ہے ۔2010 کا سیلاب توابھی ہم بھولے نہ ہوں گے جب شدید مون سون کی بارشوں نے چاروں صوبوں کے مجموعی طور پر 2 کروڑ افراد کو متاثر کیا ، جس میں 43 ارب ڈالر کے مالی نقصانات ہوئے اور دو ہزار کے لگ بھگ جانیں گئیں ۔دریائے سندھ میں سیلاب کا ایک پیٹرن(Pattern) ہے کہ ہر پانچ سال پر ایک اوسط درجے کا سیلاب اور ہر دس سال پرایک اونچے درجے کا سیلاب ۔
یادش بخیر، مشرقی پاکستان کی یادوں میں ایک آخری یاد اس سمندری طوفان یا سائیکلون کی ہے جس میں اتنا بڑا علاقہ زیر آب آگیا تھا کہ فضائی تصاویر کے مطابق کم ازکم پانچ لاکھ ورنہ دس لاکھ افراد ڈوب کر اپنے انجام کو پہنچے ۔ دنیا کی معلوم تاریخ کا قدرتی آفت کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔ لیکن بنگال ہی میں اس سے بڑا سانحہ 1943ء میں وقوع پذیر ہو چکا تھا جب انسانی غفلت اور بد انتظامی کے باعث غذائی قلت اور قحط کا شکار متحدہ بنگال میں اس وقت کی چھ کروڑ آبادی میں سے بیس(20) سے تیس(30) لاکھ افراد فاقے اور بیماریوں سے گلیوں اور کوچوں میں مردہ پائے گئے ۔ اجتماعی اموات کا یہ واقعہ مالتھس کی تھیوری ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔ لیکن شکی مزاج لوگوں کےلئے ہم اب اپنا رخ عالمی جنگوں کی طرف موڑتے ہیں ۔
ہم یونانی اور رومن جنگوں کو چھوڑ دیں ، مہا بھارت اور منگولوں کی یلغار کو بھی نظر انداز کر دیں اور صلیبی جنگوں کا ذکر بھی نہ کریں ۔ صرف جنگ عظیم دوم کو لے لیں جو چھ سال 1939ء سے 1945ء تک جاری رہی وہ انسانی آبادی سے ساڑھے پانچ کروڑ افراد کو نگل گئی۔ اس میں فوجی بھی شامل ہیں جو محاذ جنگ پر مارے گئے سویلین آبادی بھی ہے جو بمباری سے ہلاک ہوئی اور وہ جنہیں غذا کی کمی بھوک اور بیماری نے ایسا دبوچا کہ پھر زندگی سے ہی رہائی مل گئی ، دونوں عالمی جنگوں کو ملا کر دیکھیں تو ساڑھے سات کروڑ کی گنتی بنتی ہے اس وقت جب کہ کرہ ارض پر دو ارب سے بھی کم انسان رہ رہے تھے ۔ مالتھس کا نظریہ آبادی ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے چوبیس گھنٹے مصروف کار تھا ۔
اب ادھر پچھتر (75) برسوں سے دوسری عالمی جنگ کے بعد گلوبل آبادی ساڑھےسات بلکہ پونے آٹھ ارب تک پہنچ چکی ہے ۔ ہر چند کے غذائی پیداوار نے بھی ساتھ نہیں چھوڑا اور ہمارے سیارے پر ہر زندہ شخص کے لئے خوراک موجود ہے ۔ اگر کہیں قحط پڑتا بھی ہے وہ بد انتظامی یا غیر منصفانہ نظام ، یا پیٹ بھرے لوگوں کی حرص و ہوس کی وجہ سے ہے ۔ پاکستان کی آبادی خوف ناک حدوں کی چھو رہی ہے جسے ہم نہ تعلیم دے سکتے ہیں نہ صحت کی سہولیات مگر گندم ہر ایک کےلئے وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ آٹا اگر مارکیٹ سے غائب ہوتاہے تو منافع خوروں کی ملی بھگت سے ۔ ورنہ ہم اپنے بائیس کروڑ کو کھلانے کے بعد تین ہمسایہ ملکوں کی غذائی کفالت سرحد پرہونے والی اسمگلنگ کے ذریعے کر رہے ہیں ۔
آبادی اور غذا میں توازن برقرار رکھنے کا ایک ہتھیار بعض لوگوں کے خیال میں خاندانی منصوبہ بندی ہے ۔ جاپان اور پولینڈ نے آبادی میں اضافے کو روک کر ہر سال کمی کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔ مگر اس میں بڑی خرابی یہ ہے کہ جوانوں اور بوڑھوں کا توازن بگڑ جاتا ہے ۔ میں اپنے شاگردوں سے اکثر یہ کہتا ہوں کہ جاپان غیر ملکی افرادی قوت پر ویزاکی جتنی بھی سختی کرےلیکن ایک دن پاکستان کی ساٹھ فیصد نوجوان آبادی نے جاپان جا کر اس توازن کو ٹھیک کرنا ہے ۔
صدرٹرمپ کا یہ بیان چشم کشا ہے کہ اگر کورونا وائرس سے امریکہ میں اموات ایک سے دو لاکھ تک رہتی ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی ورنہ خدشہ بیس سے تیس لاکھ کا ہے اور گلوبل پیمانے پر بات کروڑوں میں جا پہنچے گی ۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ مالتھس کی نظریہ آبادی کو مانا جائے یا رد کر دیا جائے۔ اور اگر مانتے بھی ہیں تو آبادی کم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے یا غذائی پیداوار بڑھانے پر محنت کی جائے۔ لیکن اجناس کی توآج بھی کوئی کمی نہیں ۔ جو چیز نہیں ہو رہی وہ ہے منصفانہ تقسیم۔ہم دوہرے غیر منصفانہ نظام میں رہ رہے ہیں ایک عالمی اور دوسرا اپنا ملکی طبقاتی نظام ۔ دنیا کے چند امیر ملکوں نے ڈیڑھ سو (150) غریب یا متوسط ملکوں کو اپنے مالیاتی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ، اور اس گھٹے ہوئے ماحول میں ہمارے اپنے زور آور ہیں جو بچی کچھی روٹی بھی عوام کے حلق سے کھیچنےکے درپے ہیں ۔
کورونا وائرس نے ہمیں ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اس کرہ ارض پر انسانوں کی برابری کا رائج تصور دل سے تسلیم کریں۔یہ وائرس پوری یکسوئی سے غریب اور امیر پر یکساں مہلک وار کرتا ہے۔ وہ ممالک جنہیں اپنی ٹیکنالوجی پر ناز تھا آج صرف ہاتھ مَلنے پر مجبور ہیں ۔ دولت کا انبار لگانے والے اپنے کھربوں ڈالر ،کوروناوائرس سےہونے والے نقصانات کےازالےکے لئے خرچ کرنے پر مجبورہو چکے ہیں ۔ لیکن اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے طبقاتی نظام پر ضرب لگائیں اور اپنے منہ زوروں کو (افسوس کہ جنہیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں) لگام دیں ۔ جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ظلم کا نظام چل سکتا ہے لیکن عدل کے بغیر نہیں چل سکتا، زمام کار انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد ان شرفاءنمابدعنوانوں کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہونا چاہیئےکیوں کہ ہماری بقاء کا یہی راستہ ہے ۔ اگرہم اپنی کثیر آبادی کو انصاف نہ دے سکےتو پھر اجتماعی جسمانی اوراخلاقی موت کے لئے تیار رہیں ۔ کیوں کہ وائرس سے بچ نکلے تو جوہری اسلحے کا جوانبار ہم نے کھڑا کر لیا ہے وہ ایک چشم زدن میں ہست کو نیست کر دے گا۔اصل تنبیہہ ایک عادلانہ نظام کے قیام کی ہے ۔کورونا وائرس نے اس کی راہ ہموار کر دی ہے، پہلا قدم کون لیتا ہے وہی سلطان ۔