• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کی جگہ کورونا ورلڈ آرڈر لے رہا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کیا تھا؟ اکلوتی سپر پاور کا خوف، اُس کی بالاتری اور اس کی یہ طاقت کہ وہ کسی بھی ہنستے بستے ملک کو تورا بورا کی پہاڑیوں میں بدل سکتا تھا۔ یہی وہ دھمکی تھی جو نائن الیون کے بعد پاکستان کو دی گئی تھی۔ ہمیں تورا بورا کی دھمکی دینے والا برسوں افغانستان پر نت نئے خوفناک بم برساتا رہا لیکن افغانیوں کو جھکا نہ سکا اور آج انہی سے صلح کرنے پر مجبور ہے۔ اب چاروں طرف نگاہ دوڑائیں تو احساس ہوتا ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کی جگہ کورونا ورلڈ آرڈر لے رہا ہے۔ ایک ایسا دشمن جو نظر بھی نہیں آتا اور نہ ہی بم برساتا ہے لیکن لاشوں کے پشتے پہ پشتے لگائے جاتا ہے۔ پہلی دفعہ کورونا کا ذکر ہوا تو نیو ورلڈ آرڈر کے حکمران ٹرمپ نے مذاق اڑایا اور فضا میں مکا لہراتے ہوئے کہا کہ ہم نپٹ لیں گے، ہم دیکھ لیں گے۔ اب تک امریکہ میں بائیس ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اور وائٹ ہائوس جیسی محفوظ عمارت کا مکین ٹرمپ ہر گھنٹے بعد ہاتھ دھوتا اور ہر تیسرے روز کورونا ٹیسٹ کراتا ہے۔ رزلٹ منفی آنے پر یوں شہنائیاں بجاتا اور میڈیا پر اعلان کرتا ہے جیسے اس کی عید ہو گئی ہو۔ نیو یارک کے قبرستانوں میں جگہ کم پڑنے پر کئی کئی لاشوں کو ایک ہی قبر میں دفنایا جا رہا ہے، میتوں کے لئے کولڈ اسٹوروں میں جگہ ختم ہو گئی ہے اور ایک نرس کا بیان چھپا ہے کہ جس کمرے کا دروازہ کھولتی ہوں، وہیں مردہ اجسام نظر آتے ہیں۔ تابوت بنانے والی فیکٹریاں دن رات کام کر رہی ہیں لیکن ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتیں۔ یہ تو وہ خبریں ہیں جو اخبارات میں چھپ چکی ہیں لیکن ایک ذاتی خبر نے کل رات مجھے اس قدر صدمہ دیا کہ میں رات بھر سو نہ سکا۔ میرا ایک مہربان دوست فیضان نیو یارک میں رہتا ہے۔ اس کی بیوی نیو یارک کے ایک بڑے اسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ کل رات سونے سے قبل میری بیوی نے اصرار کر کے مجھے اپنی وصیت (Will) لکھوائی۔ فیضان جوان ہے، بچے چھوٹے چھوٹے ہیں۔ میں تصور کر کے لرز گیا۔ واحد سپر پاور جس کے بم عراق اور شام سے ہوتے ہوئے افغانستان تک لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا چکے ہیں اور جس کی ایک دھمکی بڑے بڑے پھنے خان حکمرانوں کو جھکا دیتی ہے آج ایک نادیدہ دشمن کے خوف سے لرز رہا ہے۔ ٹرمپ کا اندازہ ہے کہ کورونا دو لاکھ امریکیوں کو نگل جائے گا لیکن ہر روز بڑھتی ہوئی رفتار اور کورونا کے حملوں میں تیزی شاید اکلوتی سپر پاور کا اس سے کہیں زیادہ نقصان کر جائے۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ اس کی مضبوط اور رئیس معیشت کا بیڑہ غرق کر جائے۔ ایک اور سانحہ امریکہ کے ساتھ یہ ہو گا کہ اس کی معیشت اور دولت کی ریڑھ کی ہڈی جنگی سامان تیار کرنے والی صنعتیں ہیں جو ہر سال امریکہ کے لئے بےحساب ڈالرز کماتی ہیں۔ جب جنگی طیاروں کی فروخت سست روی کا شکار ہوتی تو امریکی صدر فون اٹھا کر سعودی عرب سمیت تیل برآمد کرنے والے ملکوں کے سربراہوں کو حکم دیتے کہ فلاں مہنگے جنگی طیارے اتنی تعداد میں خرید لو۔ اب جنگی سامان خریدنے والے ممالک اپنی ڈوبتی معیشت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ جب دنیا معاشی قحط کا شکار ہو گی اور ہر ملک میں بھوکے ننگے اقتدار کے ایوانوں پر پتھر برسانے لگیں گے تو امریکہ سے اسلحہ اور جنگی سامان کون خریدے گا، کس کو ہوش ہو گا کہ اُس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی خریدے۔ چنانچہ کورونا کا یہ عذاب جہاں امریکی حکمرانوں کے بل پیچ نکال دے گا اور اُن کے غرور و تکبر کے غبارے کو پنکچر کر دے گااوراُن کی معیشت پر بھی ایسا گہرا زخم لگائے گا کہ وہ سپر پاور کے درجے سے نیچے کی طرف تشریف لانا شروع کر دیں گی۔ امریکہ کا سیاسی و معاشی نظام مضبوط ہے اور مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے وہ فقط تنزل کا شکار ہو گا لیکن کورونا جو عالمی سطح پر غربت مسلط کرے گا اُس کے نتیجے کے طور پر پسماندہ ممالک میں طبقاتی جنگیں، بھوکوں اور امراء (Haves- Haves Not)کے درمیان کشت و خون کے امکانات رد نہیں کئے جا سکتے۔ بہت سے ممالک کی سڑکوں پر جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے کے مناظر فیض احمد فیض کی نظم کو حقیقت کا روپ پہنا سکتے ہیں۔ خود پاکستان میں بھوک و افلاس بے شمار معاشرتی پیچیدگیوں اور طبقاتی مسائل کو جنم دے گی۔ حکومت کے امدادی پروگرام میں ضرورت مندوں کے چھینا جھپٹی کے واقعات اسی مرض کی علامتیں ہیں۔ چند روز قبل ایک صاحبِ حیثیت مخیر صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ میں آٹے کے توڑوں سے ٹرک بھر کر ایک مفلس اور بے روزگار ہونے والے خاندانوں کی بستی میں آٹا تقسیم کرنے گیا۔ چند ہی لمحوں میں میرے تین ملازم بے بس ہو گئے اور پھر بھوکوں نے ٹرک سے آٹا یوں لوٹا کہ ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔ وہ بوڑھے مرد و خواتین بھی خالی ہاتھ لوٹ گئے جو لوٹ مار کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ ان کے گھروں میں کئی دنوں سے چولہے ٹھنڈے پڑے تھے۔ یہ آنے والے طوفانوں کے ہلکے ہلکے اشارے اور چھوٹے چھوٹے ’’پیش خیمے‘‘ ہیں۔ بھوک اور غربت دنیا کا مہلک ترین ہتھیار اور خطرناک ترین محرک ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے انقلابات نے بھوک ہی سے جنم لیا۔ وہی بے روزگاری اور بھوک ایک بار پھر دنیا کے دروازے پر دستک دینے والی ہے۔ آپ نے دیکھا برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کورونا کا مذاق اڑایا۔ پھر دو ہفتے شدید بخار میں جل کر اسپتال پہنچا۔ چار ہفتوں بعد ہوش ٹھکانے آئے ہیں تو وزیراعظم کی رہائش گاہ میں اترا ہے۔ معاف کیجئے گا کورونا کی تعریف کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے کیونکہ ہم طاقتوروں کی تعریف کرنے کے عادی ہیں۔ یہ الگ بات کہ مجھے کورونا کئی ورلڈ آرڈرز یعنی نظاموں کی بنیادیں کمزور کرتا، اُن کی چولیں ہلاتا اور بعض کو دھڑام سے گراتا نظر آتا ہے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو کورونا میرے کان میں سرگوشی کر رہا ہے کہ جب انسان دنیا کے ظالم نظام کے سامنے بے بس ہو گئے، مظلوم و معصوم ظالم نظام کی چکی میں پسنے لگے، اور کمزور آسمان کی طرف بے بسی سے تکنے لگے تو اللہ پاک نے مجھے نیو ورلڈ آرڈر قائم کرنے کا حکم دیا۔ موجودہ تباہی و بربادی سے ایک نیو ورلڈ آرڈر جنم لے گا جو پہلے ورلڈ آرڈر سے بہت بہتر ہو گا۔ ہاں وقت لگے گا کیونکہ انسان اور نظام کو بدلنا وقت لیوا عمل ہے۔ باقی ان شاء اللہ پھر!

تازہ ترین