گزشتہ پچاس سال میں اُردو ادب کے ایسے قلم کار جن کا بنیادی تعلق طب کے شعبے سے رہا بہت اچھا ادب تخلیق کر چکے ہیں۔ ان میں تین نام خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر حسن منظر، ڈاکٹر شیر شاہ سید اور ڈاکٹر آصف فرخّی، تینوں اعلیٰ پائےکے ڈاکٹر بھی ہیں اور مصنف بھی، ڈاکٹر آصف فرخّی نے شاندار افسانے لکھے اور ترجمے کیے۔
ڈاکٹر شیر شاہ سید نے اپنے افسانوں سے بہت جلد ادبی دینا میں مقام بنایا خاص پر2005کے زلزلے کے بعد ان کے ذاتی تجربات پر مبنی افسانے ہمیں ضرور پڑھنے چاہئیں۔ خاص طور پر افسانوی مجموعہ ’’دل میرا بالا کوٹ‘‘ اس میں ہمیں زلزلے کی تباہ کاریوں کا انکھوں دیکھا حال بھی ملتا ہے اور اس کے بعد واقعات میں انسانی رویوں کی عظمت اور خباثت دونوں نظر آتے ہیں۔
یہاں ہم ڈاکٹر حسن منظر کے ناولٹ ’’وبا‘‘ پر کچھ بات کریں گے لیکن اس سے پہلے خود حسن منظر کا مختصر تعارف۔
حسن منظر اس وقت چھیاسی برس کے ہیں اور اب بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی ولادت 1934میں یو پی میں ہوئی اور انہوں نے ابتدائی تعلیم مراد آباد سے حاصل کی۔ تیرہ سال کی عمر میں لاہور آگئے اور ایم بی بی ایس کرنے کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں طبی خدمات انجام دیں۔ اس دوران ادب سے شغف جاری رہا اور انہوں نے تقریباً پچاس سال کی عمر میں اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ’’رہائی‘‘ شائع کیا۔ اب تک ان کے چھ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور کئی ناول جن میں ’’العاصفہ‘‘ اور ’’دھنی بخش کے بیٹے‘‘ شامل ہیں۔ ان کا زیر نظر ناولٹ ’’وبا‘‘ جسے وہ ایک بیانیہ قرار دیتے ہیں ایک ہسپتال کی کہانی ہے جو 1960ء کے عشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ گوکہ اس کہانی میں کسی سنی کا ذکر نہیں ہے مگر بیانیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ 1960کے عشرے کے اوائل کی بات ہے جب کراچی میں مختلف وبائیں پھوٹا کرتی تھیں۔
حسن منظر نے 2008ء میں لکھے جانے والے اس کے انتخاب میں لکھا ہے ’’اُس عالمی وبا سے جنگ کرنے والوں کے نام جس نے کمزور نہتے ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔‘‘ آج کے دور کی کورونا کی وبا کیا کمزور اور کیا طاقتور سب ممالک کو اپنی زد میں لے چکی ہے اور حسن منظر کے اس ناول سے ہمیں طب سے پیشے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر عملے کی محنت اور جانفشانی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس بیانیے کے شروع میں ہمیں ایک ایسے سرکاری ہسپتال کا احوال ملتا ہے جہاں گردن توڑ بخار اور چیچک کے مریضوں کا تانتا بندھا ہے اور ڈاکٹر اور نرسیں اس صورتحال سے بمشکل مقابلے کر رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پچاس سال قبل بھی پاکستان میں لوگوں کے رویے غیر سائنسی اور توھمات پر مبنی تھے۔ اکثر والدین مریض کو ایسے حالت میں ہسپتال لاتے جب اس کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہوتی۔ اس سے قبل وہ جادو ٹونے، تعویز گنڈے، دم درود اور جنتر منتر سب کرا چکے ہوتے اور پھر مریض جب قریب المرگ ہوتے تو ہسپتال پہنچے۔
نہ صرف مریض اور ان کے اقارب بلکہ حسن منظر ہمیں بتاتے ہیں کہ خاصے پڑھے لکھے لوگ حتیٰ کہ ڈاکٹر بھی غیر سائنسی رویوں کا شکار نظر آتے اور کئی ڈاکٹر طب کو سند لینے کے باوجود طب کی بنیادی باتوں سے متعلق نہیں ہوتے یا پھر ان پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
مثلاً حسن منظر لکھتے ہیں۔
’’کوڑھیوں کے ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر سمیع اللہ چیچک کے ٹیکے پراعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔ ان کی پشتوں میں اور ان کے گھرانے میں کبھی کسی نے ٹیکا نہیں لگوایا کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بھی چیچک نکلتی ہے لیکن اگر کسی کو چیچک ایک بار ہو جائے پھر ساری عمر چیچک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘‘
’’ڈاکٹر سمیع اللہ اگر ملک کے وزیر صحت ہوں تو ممکن ہے ٹیکا لگانے کا سسٹم ختم کر دیں اور یہ حقیقت ہے کہ چیچک کی وبا اب کتنی بھی شدت اختیار کرے ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ ان کی بیٹی ڈاکٹر مہرالنساء کا‘‘ (صفحہ نمبر گیارہ)
اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آج کل کورونا کی وباء کے مقابلے میں پاکستان میں ہم جن جاہلانہ رویوں کے مظاہرے دیکھ رہے ہیں اُن کی جڑیں بڑی گہری ہیں اور اب بھی کئی ڈاکٹر آپ کو دوا کے ساتھ ساتھ جنتر منتر پڑھنے کے مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔
حسن منظر کے بیانیے میں ہمیں پاکستان کا ایک ایسا ہسپتال نظر آتا ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اصل ناموں سے کام کرتے ہوئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ اس میں فرانسیسی بھی ہیں ،ڈاکٹر مصطفیٰ بھی ہیں اور ڈاکٹر انیس بھی ایک نرس مسٹر ہاشمی ہیں جو تقسیم سے قبل شانتا ہوتی تھیں۔ وہ ایک مرہٹا ہیں لیکن اس سارہ ہاشمی بن چکی ہیں۔ ایک مسیحی مسٹر رُتھ ہیں تو ایک یہودی مسٹر حّنہ ہیں وہ دور تھا جب نرسوں کو تمیز کے ساتھ مسٹر کہہ کر بلایا جاتا ہے اور انہیں نرس نہیں کہا جاتا تھا نہ ہی کسی کو اُن میں انجکشن لگنے کے بعد حوریں نظر آتی تھیں۔ ماحول باہمی رواداری اور مفاہمت کا تھا جو پاکستان میں بتدریج ختم ہوتا گیا یا ختم کر دیا گیا۔
حسن منظر کے بیانیے میں ہمیں پچاس ساٹھ سال قبل کے کراچی میں استعمال ہونے الفاظ بھی ملتے ہیں اور اس دور کے سماجی مسائل اور افراد کے حالات بھی ہسپتال کا ایک ملازم ہے جو ڈاکٹر مصطفیٰ کے بنگلے میں بجلی نہ ہونے کی صورت میں آتاہے، لکھتے ہیں۔
’’اندھیرا پڑنے پر یہی آدمی لالٹین کی چمنی چمکا کر اس میں گھانسلیٹ یعنی ’’مٹی کا تیل‘‘ ڈالتا ہے۔ بتی کو کاٹ کر سیدھا کرتا ہے اور جلا کر برآمدے میں ٹانگ آتا ہے… مسٹر حّنہ کو دیکھ کر وہ بھی خوش ہوتا ہے اور ہر بار پوچھتا ہے۔ مسٹرجی آپ اپنے ملک کب جا رہی ہیں؟ حالاں کہ اس ملک میں نہ مسٹر حّنہ پیدا ہوئی نہ کبھی گئی‘‘(صفحہ نمبر 24)
اس ناولٹ میں چیچک کو وباء کا تفصیلی بیان جیسے کہ کس طرح مریض دانوں کی تکلیف برداشت کرتے کرتے زیادہ تر فوت ہو جاتے اور کچھ اندھے بھی۔
مثلاً ایک منظر میں ایک بوڑھا ایک کاغذ پکڑے بیٹھا ہے نرس کہتی ہے ’’بابا صبح سے یہ کاغذ پکڑے بیٹھا ہے پوچھو تو کہتا ہے ڈاکٹر انیس کو دکھائوں گا۔ ڈاکٹر انیس اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر اُلٹ پلٹ کر دیکھتا ہے۔
’’معمولی سا کاغذ ہے جسے یہاں اُڑتے پھرتے ہیں۔ جنہیں ویسٹ پیپر باسکٹ میں ڈال دیا جانا چاہئے تھا یا ویسے جن پر تیمارداروں کو لکھ کر دیا جاتا ہے۔ بازار سے مریض کے لئے کیا لے آئیں۔ مینتھول پائوڈر، بدبو دور کرنے کا لوشن جہاں سے کھرنڈ جھڑ چکے ہیں وہاں سلبلاہٹ دُور کرنے کے لئے لگانے کا کوئی تیل۔
ڈاکٹر انیس کاغذ کھول کر دیکھتا ہے اور اس میں دو پچکی ہوئی نیم شفاف چھوٹی چھوٹی گولیوں کو دیکھ کر بوڑھے کے چہرے کو لیکن نرس جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹ گئی اور کہتی ہے۔
’’ڈاکٹر یہ صبح سے اپنے پوتے کی آنکھوں کے لینسوں کو لئے پھر رہا ہے جو آنکھوں کو پانی کے پھویوں سے صاف کئے جانے پر باہر نکل آئے تھے ہر ایک سے کاغذ مانگتا پھرا۔ پھر نجانے کہاں سے یہ کاغذ اس کے ہاتھ آگیا اوراب آپ کو دکھا رہا ہے‘‘
ڈاکٹر انیس ایک بار پھر آنکھ کے موتیوں کو دیکھتا ہے اور پھر بوڑھے کو ۔
بوڑھا کہتا ہے’’لّڈن کے یہ یہ پھر سے نہیں اگ جائیں گے ؟‘‘ ڈاکٹر نے مایوسی سے سر ہلایا۔
’’پھر تو وہ کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘
ڈاکٹر انیس سے کوئی جواب بن نہیں پڑ رہا ہے بوڑھے کے پاس رونے کے دو آنسو بھی نہیں بچے ہیں سر لٹکائے وہیں کھڑا ہے‘‘
حسن منظر کے ناولٹ ’’وبا‘‘ میں ایس کئی منظر ہیں جنہیں پڑھ کر دل دہل جاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ اُمید بھی پیدا ہوتی ہے کہ پچھلے پچاس ساٹھ برس میں میڈیکل سائنس کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ اب چیچک کو اس خطہ زمین سے دیس نکالا مل چکا ہے اور یہ بیماری سائنس نے ختم کر دی ہے مگر ہم ہیں کہ اب بھی پاکستان میں پولیو جیسی بیماری کے ٹیکے لگانے سے انکار کر رہے ہیں اب 2020 میں افغانستان اور پاکستان غالباً دُنیا کے وہ واحد دو ممالک ہیں جہاں پولیو اب بھی باقی ہے اور اس کی وجہ ہماری سراسر جہالت اور ہٹ دھرمی ہے جس کے باعث ہم اپنا اور اپنے بچوں کا نقصان کر رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی رویے ہمیں اب کورونا کی بیماری کے سلسلے میں دیکھنے کو مل رہے اور ایسے جاہلوں کی کمی نہیں جو کھلم کھلا لوگوں کو گمراہ کر رہے اور کہتے ہیں کورونا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ حسن منظر کے مطابق:
’’مریض کو اس کے گھروالے اور فیملی ڈاکٹر یہاں جب لاتے ہیں جب گھر پر اس کا علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔ ڈفتھیر یاکی دبیز سفید جھلّی نے سانس کے آنے جانے کے لئے راہ ہی نہیں چھوڑی ہوتی ہے۔ ٹیٹنس اور سگ گزیدگی کے بروقت ٹیکے لگنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے‘‘(صفحہ نمبر 29)
اس ناولٹ میں اچانک ایک موڑ اس وقت آتا ہے۔ جب اخبارات میں وبا کی خبریں لگتی ہیں اور مارشل لاء حکام ایک دم سے جاگ جاتے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹر کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر انیس نے کہہ دیا کہ وباء محکمہ صحت کی غفلت سے پھیلتی ہے اور ہسپتال کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں یہ خبر چھپتے ہی بھونچال آجاتاہے۔
ڈاکٹر انیس کے ذہن میں ایک ہی سین مختلف شکلوں میں بار بار مسلط ہو جاتاہے۔
’’بریگیڈیئر مناف کے آفس میں اکیلے بلایا گیا ہے جو روزمرہ کی زبان میں اس پر کرم ہو رہا ہے کہ تمہارا خیال ہے صفائی کا انتظام ناقص ہے اور لوگوں کو Vaccinate نہیں کیا گیا ہے۔ اس لئے شہر چیچک کی لپیٹ میں ہے۔
اس خوف کی حالت میں بھی ڈاکٹر انیس کو اندر ہی اندر ہنسی آرہی تھی کہ وہ شخص جس کا علم ہتھیاروں اور جنگی نقشوں تک محدود ہے مجھ سے پبلک ہیلتھ کے بارے میں جرح کر رہا ہے اس کے تو پڑائو میں اگر کسی کو مرا ہوا چوہا نظر آجائے تو طاعون کے ڈر سے بھاگنے والوں میں موصوف کی جیپ سب سے آگے ہو گی‘‘صفحہ 38
پھر ہسپتال میں ایک دم چہل پہل ہو گئی۔ چمکتی ہوئی ایمبولینس آگئیں، چمکتے ہوئے بوٹ اور یونیفارم، ملٹری ہیٹ کے نیچے دبے خاکی وردی والے برآمد ہو رہے ہیں۔ کاریں، ملٹری جیپیں اور لینڈ روور… لگتا تھا ہسپتال میں وکٹری ڈے منایا جا رہا ہے۔ ہسپتال کے باہر پریس والوں کو گاڑیاں تھیں۔ فوجی ڈاکٹروں اور شہر کے مشہور کنسلٹنٹ، فزیشن وغیرہ ۔ڈاکٹروں کو ڈانٹا جاتا ہے کہ وہ گرن توڑ بخار اور چیچک وغیرہ کا معائنہ ایک ہی جگہ کر رہے ہیں اس طرح تو وبائیں پھیلیں گی بلکہ ایک بیماری والے کو دیگر بیماریاں بھی لگ جائیں گے۔
’’ڈاکٹر انیس نے کہا‘‘ رجسٹریشن ٹیبل ایک ہے۔ نرسنگ اسٹاف ایک ہے۔ بلڈ پریشر چیک کرنے کا آلٰہ ایک ہے۔
ڈاکٹر انیس نے اپنے سینے پر اسٹیتھی اسکوپ کے چیسٹ پین کو تھپتھپاتے ہوئے کیا ’’اور اس سے میں ہر مریض کے سینے کا معائنہ کرتا ہوں‘‘۔صفحہ 41
حسن منظر نے اپنے ناولٹ میں ہمیں بتایا ہے کہ کس طرح اس وقت بھی ہمارے ملک میں صحت کے شعبے کو نظرانداز کیا جاتا تھا اور ہسپتالوں میں مطلوبہ وسائل نہیں تھے اور کس طرح اس وقت بھی ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے ساتھ ہمارے رویے ہمدردانہ ہونے کے بجائے جارحانہ رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ سرکاری ملازمت کے بجائے اب ڈاکٹر اپنا ذاتی پریکٹس اور دواخانوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
جس شعبے کو ملک کا بہترین شعبہ ہونا چاہئے اس کو وسائل کی کمی کا شکار کر کے پرائیویٹ ہسپتالوں کے سپرد کر دیا گیا ہے جہاں غریب عوام علاج تو کجا معائنہ بھی نہیں کرا سکتے۔ ایک ایک ماہر ڈاکٹر صرف ایک مشورے کی فیس اب ہزاروں رویے میں لے رہے ہیں۔ حسن منظر لکھتےہیں۔
’’وبا جہاں اور تبدیلیاں لاتی ہے ایک دوسرے کے لئے غیر لوگوں کو نزدیک بھی لے آتی ہے۔ سماجی میں مرتبے اور رکھ رکھائو دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ دونوں ہی کے گزر جانے پرحساس طبع افراد کو خیال آتا ہے ایک ساکت بے حس معاشرے کے لئے شاید وبا بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔ جتنی جنگ اور اس اچانک خیال کے دماغ سے گزر جانے پر سہم جاتے ہیں‘‘صفحہ42:
حسن منظر کے ناولٹ کو غالباً سب سے دلچسپ بات اس میں موجود کرداروں کے رویوں کی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور مریضوں کے رویے ان کے لواحقین کے رویے جو ڈاکٹر حسن منظر نے اپنی آنکھوں سے دیکھے انہیں قلم بند کر دیا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے آج پچاس ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی کم و بیش رویے کم از کم عوام کی حد تک تو ویسے ہی ہیں۔
مختصر یہ کہ ڈاکٹر حسن منظر کا ناولٹ ’’وباء‘‘ جیسے وہ ایک بیانیہ کہتے ہیں نہ مشکل سو صفحات کا ہے مگر اپنے پڑھنے کے ہمیں خاص سمجھ ملتی ہے۔ ڈاکٹر حسن منظر جدید پاکستانی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ قارئین ان کی دیگر کتابیں مثلا ’’ جان کے دشمن‘‘ ایک اور آدمی‘‘ اور ’’انسان کا دیش‘‘ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ سب اچھا ادب ہے جو ہمیں آج کے پاکستان اور اس میں موجود لوگوں اور اُن کے رویوں سے روشناس کراتا ہے۔