رفتہ رفتہ بات آگے بڑھ رہی ہے۔ نگران وزیراعظم کے مسئلے نے جمہوریت پسندوں کو ایک واقعاتی ڈیپریشن میں ضرور مبتلا کیا گو یہ ڈیپریشن مردنی نہیں متحرک کیفیت کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ قوم کسی ذہنی حوصلہ شکنی کا شکار نہیں ہوئی وہ ایک حیرت آمیز سی خوشی سے دوچار رہی۔ وہ حیرت آمیز خوشی کیا تھی؟ یہ کہ اب قومی زندگی کے فیصلوں کی راہ میں پیش آمدہ رکاوٹیں دور کرنے کے لئے آئینی تسلسل کا غیر جانبدار راستہ موجود ہے۔ حزب اقتدار اور اپوزیشن میں نگران وزیراعظم کی متفقہ نامزدگی پر اتفاق نہیں ہو سکا، کوئی پریشانی نہیں، پارلیمانی کمیٹی موجود ہے۔ وہاں بھی متنازعہ صورتحال موجود رہی تب الیکشن کمیشن کا آئینی اختیار تو کہیں نہیں گیا، آپ نے عملاً دیکھا، نگران وزیراعظم پر حزب اقتدار اور اپوزیشن کے دونوں مرحلوں پر متفق نہ ہونے کے باعث الیکشن کمیشن نے ا پنے آئینی طریق کار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بطور نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کے نام کا اعلان کر دیا۔ ان سطور کے شائع ہونے تک پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کا بھی فیصلہ ہو چکا ہو گا۔ گزرے پانچ برسوں کی طرح نگران حکومتوں کے معاملے پر بھی سخن طرازیوں کی تمام عادتیں پوری کی گئیں مگر تماشا برپا ہونے کے بجائے آئین کی موجودگی نے اپنیفوقیت اور طاقت ثابت کر دی۔ میں گزشتہ پانچ برسوں سے خاص طور پر ووٹ کے ذریعہ تبدیلی کے موقف کی ایک طرح سے ”تبلیغ“ کر رہا ہوں۔ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں متعدد دیگر دوست بھی اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ پانچ برسوں کے اب تک کے فکری سفر میں قدم قدم پر مزاحمتوں اور سازشوں کے باوجود منزل قریب تر ہی آتی گئی ہے جس سے منزل پر پہنچنے کا یقین پختہ سا ہو گیا ہے۔
خدشات سے فرار ممکن نہیں، جس ملک کی تاریخ حرماں نصیبی کے اچانک پن کے ہاتھوں بے حال رہی ہو وہاں تو خدشات کھنبیوں کی طرح اگتے ہیں۔ ان کے وقت کا تعین اور تعداد کا شمار ممکن ہی نہیں رہتا۔ ان گزرے پانچ برسوں میں ووٹ کے ذریعہ مسلسل پُر امن تبدیلی کے بابرکت قومی سفر کو معصومیت، جہالت یا منصوبہ بندی سے ختم کرنے کی کوششوں پر واقعتا ایک تاریخ ساز وائٹ پیپر مرتب کیا جا سکتا ہے۔ ان تینوں راہوں کے مسافروں میں چند ایک نے تو کسی بھی انتہاء کو چھونے سے گریز نہیں کیا۔ حب الوطنی اور عوام دوستی کے بے محل اطلاق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں ”اجتماعی قبروں“ کی ضرورت کو حالات کا منطقی انجام قرار دیتے رہے۔ یہاں تک کہا گیا ”اس ملک میں عوام کے پاس کئی کروڑ ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ان کو اچھی طرح استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ ملک میں آبادی کا صرف دو فیصد حصہ دفاع اور قانون نافذ کرنے میں مصروف ہے۔ اگر حالات اسی طرح بگڑتے رہے اور عوام بھوکے ننگے خود کشیاں کرتے کرتے قوت صبر برداشت کھو بیٹھے تو یہ پندرہ بیس لاکھ مسلح افراد ایک سو اٹھارہ ملین یعنی 18 کروڑ عوام کے غیظ و غضب کا شکار ہو جائیں گے اور یہ شان و شوکت اور عیاشیاں و قتل و غارت گری سب نیست و نابود ہو جائیں گے۔ حکمرانوں کا بھی وہی حال ہو گا۔ ان کے گلوں میں لوہے کی زنجیریں ہوں گی جس طرح عراق کے حکمرانوں کے ساتھ کیا گیا تھا اور جیپ سے باندھ کر شہر کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ ہی حکمرانوں، نہ ہی دفاعی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نہ ہی عدلیہ کو اس گمان میں رہنا چاہئے کہ وہ عوام کے غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان تمام اداروں نے عوام کو کچھ نہیں دیا اور نہ ہی ان کی تکالیف کا ازالہ کیا۔ سب ہی نے انہیں مایوس کیا ہے۔ میں نے اسی خطرے کے پیش نظر اجتماعی قبر کی بات کی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ وقت آ گیا تو پھر اجتماعی قبروں ہی کی ضرورت پیش آئے گی اور عین ممکن ہے کہ ان کی لاشیں ابو لہب کی طرح پڑی سڑتی رہیں۔“ اتنے خونیں انتہاء پسندانہ طرز فکر نے میرے ایک بے حد صاحب نظر دوست کالم نگار کو شاید واقعی خوف زدہ کر دیا تھا۔ وہ یہاں تک کہنے پر مجبور ہو گیا: ”ہمارے حکمران طبقے اور عالمی برادری دونوں ہی مجبور ہو کر اسی طرز کا کوئی راستہ ڈھونڈیں گے۔ فوج کا ڈنڈا اب چلایا نہیں جا سکتا۔ آزمودہ راستہ یہی ہے کہ عقل سے پیدل اور خواہشوں سے مغلوب کسی شریف آدمی کو ڈھونڈ کر ہیرو بنایا جائے۔ اس کے گرد ہر طرح کی رومانویت کے جالے بنے جائیں۔ ان میں مذہب کی شدت پسندی سموئی جائے اور پھر جارحانہ قوم پرستی کا جنون پیدا کیا جائے اور تمام ذرائع استعمال کر کے اسے حکمران بنایا جائے اور پھر ظلم و جبر کا ایسا بازار گرم کیا جائے کہ دو تین عشروں تک کوئی سر اٹھانے کا حوصلہ نہ کر سکے۔ ایسا بندہ شاید ڈھونڈ لیا گیا ہے اور پاکستان میں جارحانہ قوم پرستی کی سب سے بڑی علامت نامور ایٹمی سائنس دان کو اس کی سرپرستی کے لئے مامور کر دیا گیا ہے“ میرے دوست کے ذہنی اندیشوں میں اجتماعی قبروں کی اس بے برکت اور تاریک خواہش سے خوف کی سرسراہٹیں کس حد تک لرزاں و ترساں تھیں ان کا اظہار آج بھی مجھے متوحش کر دیتا ہے۔ اس نے لکھا ”میں تو چشم تصور سے خفیہ جگہوں میں رکھی میزوں پر دھرے وہ کاغذات بھی دیکھ رہا ہوں جن پر پھانسیوں اور کال کوٹھڑیوں کے عنوانات کے نیچے نام لکھے جا رہے ہیں۔“
جو لوگ قوم کے جمہوری سفر کے تسلسل اور ذاتی سطح پر کسی ایک شخص یا جماعت سے نفرت کی بنا پر ”اجتماعی قبروں“ کی خونی وادیاں تک آباد کرنے کی امیدیں سامنے لانے سے ذرا بھر نہیں ہچکچائے ان کے مقابلے میں وہ بیچارے سیاسی یا صحافتی یتیم تو کوئی اوقات نہیں رکھتے جن کے نزدیک پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر میں ”جون“ تک ایک ”دھیلا“ بھی باقی نہیں رہے گا، فرار ہونے والوں کو پکڑا نہ گیا تو پاکستان (نعوذ باللہ) ختم ہو جائے گا۔ نعوذ باللہ میں نے کہا ہے ان حضرات کا یہ قطعی درد سر نہیں، ظاہر ہے جن کا باوا آدم شکست و ریخت سے دوچار ایک ملک کے عوام کی طاقت کو صرف بندوق کی گولی کے لئے استعمال کرنے کا قائل ہو، پُر امن اور صبر آزما آئینی سفر کی تبدیلی اس کے برگشتہ اور حواس باختہ مزاج کو راس ہی نہیں آ سکتی، اس کے ان شاگردوں کے زر مبادلہ وغیرہ کے انکشافات کی ان ذہنی آوارگیوں کی کیا حیثیت ہے؟ جنرل (ر) پرویز مشرف کی واپسی سے اس جمہوریت دشمنی اور آئینی صبر کو تاخت و تاراج کرنے کے اس تباہ کار ”کاروبار“ میں ایک بار پھر چکا چوند پیدا ہوئی ہے۔ جنرل صاحب کے بارے میں مختلف سنسنی خیز پیش گوئیوں سے قومی انتخابات کے التواء کی آرزوئیں پالی جا رہی ہیں، شاید اس بار ان سب کے مقدر میں خاک بسر ہونا اور قوم کے مقدر میں ووٹ کے بیلٹ بکس تک پہنچنا تحریر کر دیا گیا ہے۔ جنرل کی تقدیر کیا پلٹا کھاتی ہے؟ انہیں ٹکٹ دینے کے لئے امیدوار بھی ملتے ہیں یا نہیں؟ خود انہیں اسمبلی تک پہنچنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں؟ ابھی اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ ان تمام زمینی حقائق کے باوجود اپنی خُو کے عین مطابق دور ازکار پیش گوئیاں جاری ہیں اور تان پانچ برس سے کم از کم اب تک اس جملے پر ٹوٹتی ہے ”انتخابات کسی بھی وقت ملتوی ہو سکتے ہیں، یہ ہو سکتا ہے، وہ ہو سکتا ہے اور بہت سے وغیرہ وغیرہ“!قدرت پاکستانیوں کو 64 برس میں پہلی بار پُر امن آئینی طریق کار، ووٹ کی وساطت سے، اپنے حکمران منتخب کرنے کا موقع دیتی دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق مسلمانوں کا سواداعظم کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتا، ہمیں پاکستانیوں کے عوامی شعور پر کوئی شبہ نہیں پھر بھی ہر شخص اور ہر شعبہ زندگی کو خلوص نیت اور تدبر کے ساتھ ملک کے ان عام انتخابات میں رہنمائی اور تعلیم کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کم از کم نگران حکومتوں کے کامیاب قیام کے بعد اپنے طرز فکر اور طرز عمل کو ذاتی احتساب کی کسوٹی پر پرکھنا ہو گا۔ ساری بہاریں، سارے رنگ اور ساری رونقیں پاکستان کے دم سے ہیں۔ پاکستان تازہ دم اور توانا ہے، اس کی معیشت دم نہیں توڑ رہی شدید تھکاوٹ اور درماندگی کی حالت میں ہے، ریاست کا انفراسٹرکچر بے پناہ طاقتور اور منظم ہے، ہم میں سے ہر ایک کو پاکستان کے خوف کو قوت میں بدلنا ہے، اس میں میڈیا کا حصہ شاید سب سے زیادہ اور سب سے موثر ہو سکتا ہے۔ کیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنے ضمیر کی عدالت میں جائزہ لینے پر آمادہ ہے؟ یہ جائزہ کہ ہم پاکستان میں آئینی جمہوری پارلیمانی نظام کے تسلسل اور استحکام کے بنیادی تقاضے نبھا رہے ہیں یا پامال کر رہے ہیں؟