دنیا میں خوارک کی پیداوار، پینے کے صاف پانی، زندگی کی بنیادی سہولتوں اور صحت عامہ کے وسائل میں کمی ہورہی ہے اور آبادی بڑھ رہی ہے جس سے غریبوں کےکنبے مزید زیربار ہورہے ہیں اورمعاشرتی اورسماجی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ اس حوالے سے بیش تر رپورٹس میں پاکستان کا نام بھی آتا رہا ہے جہاں آبادی میں اضافے کا اوسط زیادہ ہے اور وسائل میں کمی ہوتی جارہی ہے۔
ترقی پذیر ممالک کےعوام بے حسی، مایوسی اور افراتفری کا شکار ہورہے ہیں، وہ کسی بھی علمی، سائنسی اور منطقی دلیل کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ معاشی پسماندگی، ذہنی ناآسودگی اور سوک سینس کے فقدان نے انہیں مزید غربت اور مسائل میں الجھادیا ہے جس سے نکلنے کا واحد راستہ معیاری تعلیم، آگہی کا فروغ اور مکالمے کی روایت ہے، مگرایسا کیسے ہو؟ یہ سوال اپنی جگہ اٹکا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کے جانب سے جاری ہونے والی تمام رپورٹس، جائزوںاورپریس ریلیز میں موجودہ زمینی حالات، موسمی تغیرات اور وبائی امراض کے پھیلائو پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ عالمی ادارہ ماحولیات کاکہنا ہے کہ باوجود بین الاقوامی معاہدوں،بشمول پیرس میں ہونے والے 195ممالک کے سربراہوں کے اجلاس میںطےپانےوالےمعاہدےکے نتائج کچھ نہیں ہیں۔ موسمی تغیرات اور تبدیلیوں کی وجہ سے سمندرکی سطح، گلوبل وارمنگ، وبائی امراض، خشک سالی ،سیلابوں اور سمندری طوفانوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔دنیا کاہر ملک آلودگی میں اضافہ کررہا ہے، مگر چین، امریکا، بھارت، برازیل زیادہ آلودگی پھیلانے کے مرتکب پائے گئے۔ چین کی نجی کمپنیاں قدرتی ایندھن کے بے دریغ استعمال میں سب سے آگے ہیں۔صنعتی اداروں کا آلودہ پانی صاف کرکے اس کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے بجائے سمندر کی نذر کردیا جاتا ہے ۔
کاروں میں کئی گنا اضافہ چین کی ترقی کا کمال سہی مگر کاربن کی مقدار میں جس سے تیزی اضافہ ہورہا ہے اس سے فضا آلودہ ہورہی ہے۔ کاروں کے کارخانے پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کاروں کی تیاری پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئےہیں۔ ممالک اور ملٹی نیشنل اداروں کے مابین جدید سے جدید کاریں بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور جدید انداز کی تشہیر کے ذریعے لوگوں کو دیوانہ بنایا ہو ہے۔ جبکہ جرمنی، ہالینڈ، سوئیڈن، ناروے، جاپان اور جنوبی کوریا کی بیشتر معروف کاریں بنانے والی کمپنیاں متبادل توانائی سے چلنے والی کاریں تیار کرنے پر کام کررہی ہیں جو سولر انرجی اور بجلی کی بڑی بیٹریوں سے چل سکتی ہیں۔
دوسری طرف ایک عجیب اور پے چیدہ اہم مسئلہ ۔ اس وقت دنیا میں سب سے بڑے تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر روس کے پاس ہیں ۔ پھر سعودی عرب ہے جو تیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ایران، قطر، ونیزویلا، کویت و خلجی ریاستیں جن کا تیل کی فروخت پر گزارا ہے وہ پریشان ہیں کہ تیل کی سب سے زیادہ کھپت کرنے اور تیل خریدنے والا ملک امریکا اب خود تیل پیدا کررہا ہے اس کے پاس تیل کے دنیا کے دوسرے نمبر کے بڑے ذخائر ہیں۔ ایسے میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں اور پیداوار میں کمی کی جارہی ہے۔ اس میں بھی شدید مسابقت جاری ہے، جس کا حالیہ ثبوت روس اور سعودی عرب کا تیل پر تنازع ہے۔ روس اوپیک کی شرائط تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہے تو دوسری طرف سعودی عرب روس کی شرائط تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ جدید ترقی یافتہ ممالک سے ری کنڈیشنڈ کاریں کم ترقی یافتہ ممالک کو فروخت کی جارہی ہیں۔ اس طرح پرانی کاروں کی جگہ ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کو جدید ترین کاریں فروخت کر رہے ہیں ۔ ترقی پذیر ممالک میں پرانی کاروں کا اژدھام ہوگیا ہے اور تیل کی کھپت بھی بڑھ گئی ہے۔ یہ تضاد ہے تجارت کا،گلوبل معیشت کا۔ایک کانفع اوردوسرے کا نقصان۔مگریہاںنفع کاریں بنانے اور تیل فروخت کرنے والوں کا ہے اور نقصان اس کرہ ارض کا ہورہا ہے جس کی فضاآلودہ ہورہی ہے۔ موسمی تغیرات میں اضافہ ہورہا ہے اور آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔
ٹریفک کا اژدھام صرف دھواں، کثافت آلودگی ہی نہیں پھیلاتا بلکہ بے ہنگم آوازوں کی آلودگی بھی پھیلاتا ہے۔ ہم شور کی آلودگی پر کم توجہ دیتے ہیں جبکہ یہ بہت خطرناک ہے۔ سڑک پر ٹریفک کا شور، ہارنز کی بے ہنگم آوازیں، مشینوں سے، تیز موسیقی سے، دیگر کام کاج سے پیدا ہونے والا شور ہماری سماعت، ہمارے ذہن اور اعصاب پر شدید منفی اثرات مرتب کرتاہے۔ شہروں میں آبادلوگوں کی بہت بڑی اکثریت ذہنی اور اعصابی دبائو اوراور طرح طرح کے امراض کاشکار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے عوام ویسے بھی بہت سے مہلک امراض ، وائرس اور سماجی مسائل کا شکار ہیں۔ ان ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں اضافے کا ہے جس پر نہ حکومتوں کی توجہ ہے ،نہ معاشرے کی اور نہ اشرافیہ کو پروا ہے۔
دیہی عوام تو اس س مسئلے کو مسئلہ ہی نہیں تصور کرتے۔ تعلیم کی کمی، آگہی کا فقدان اور بعض مذہبی توہمات نے عوام کو بے حس بنا دیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کےعوام بے حسی، مایوسی اور افراتفری کا شکار ہورہے ہیں، وہ کسی بھی علمی، سائنسی اور منطقی دلیل کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ معاشی پسماندگی، ذہنی ناآسودگی اور سوک سینس کے فقدان نے انہیں مزید غربت اور مسائل میں الجھادیا ہے جس سے نکلنے کا واحد راستہ معیاری تعلیم، آگہی کا فروغ اور مکالمے کی روایت ہے۔ مگرایسا کیسے ہو؟ یہ سوال اپنی جگہ اٹکا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیات کی درستی، آلودگی میں کمی ، معاشروں میں سماجی استحکام لانے کے پروگرام میں اولین ترجیحات یہ ہیں: غربت اور بھوک کا خاتمہ، صحت عامہ کو بہتر بنانا، معیاری تعلیم عام کرنا، عورتوں کو مساوی حقوق دلانا، پینے کا صاف پانی فراہم کرنا، آلودگی سے پاک معاشروں کے لیے قدرتی ایندھن کی جگہ متبادل توانائی کا استعمال عام کرنا، صنعتی ترقی میں جدت لانا، معاشی ناہم واری دور کرنا، انصاف اور عوامی حقوق کی جدوجہد جاری رکھنا وار معاشروں سے پسماندگی دور کرنا۔ اقوان متحدہ کے ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ مسائل حل کرنے کے لیے واحد راستہ عوامی جدوجہد کاہے۔ مگر عوامی جدوجہد کے بجائے، یعنی سڑکوں پر آئے بغیر بھی عوام ابلاغ کے جدید ذرائع استعمال کرکے اپنی بات آگے بڑھا سکتے ہیں، جیسے موبائل فون، انٹرنیٹ، فیس بک، یوٹیوب ،واٹس اپ،ٹوئٹر وغیرہ۔ گزشتہ دنوں یہ کام تیس سے زائد ممالک کے اسکولوں کے ننھے بچوں نے انجام دیاجن کے مسلسل مظاہروں نے بہت اثر دکھایا۔
اس طرح کی ترکیبیں ضروری ہیں۔ عوام کو اس سےفائدہ ہوگا، کیونکہ مسئلہ چھوٹا نہیں ہے ۔ پورے کرہ اراض اور اس پر موجود تمام اقسام کی حیات کا ہے جس میں سرفہرست انسان خود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قدرتی ماحول میں تبدیلیاں مہینوں یا برسوں میں نہیں رونما ہوتیںبلکہ یہ عشروںاور صدیوں میں سامنے آتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے کی حالیہ کانفرنس میں پانچ سو سے زائد ماہرین ماحولیات ، ارضیات اور جغرافیہ داں شریک ہوئے جنہوں نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اب تک کی تمام کوششوں اور رپورٹس کے باوجود عملی اقدامات کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ زمین کے درجہ حرارت میں بہ تدریج اضافہ ہورہا ہے، سمندر کی سطح بھی بہ تدریج بڑھ رہی ہے، گرین لینڈ، ہمالیائی خطے اور انٹارکٹیکا کے علاقوں میں برف کے بڑے بڑے گلیشیئرز پگھل کر سمندروں میں شامل ہورہے ہیں۔دریائوں کا پانی کم ہورہا ہے جس کی وجہ سے ڈیلٹا کے علاقوں میں سمندر کا پانی داخل ہورہا ہے جس سے ڈیلٹا کے علاقوں کی زراعت اور معاشرت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
اس کی وجہ سے ان علاقوں میں مختلف وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ صنعتی،کیمیائی اورتیزابی فضلہ درست طور پر ٹھکانے لگانے کے بجائے انہیں سمندر، جھیلوں اور نہروں میں بہایا جارہا ہے جس کے شدید منفی اثرات رونما ہورہے ہیں۔ اس پانی سے بیش تر علاقوں میں کھیتوں اور سبزیوں کے فارمز کو سیراب کیاجارہا ہے۔اس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ماہرین نے باربار حکومتوں اور ذمہ دار صنعتکار حلقوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ قیمتی انسانی جانوں سے نہ کھیلیں۔ مگر تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ماہرین ماحولیات اور اسکالرز کو مختلف ممالک کے سربراہوں سے شکوہ ہے کہ ان کی جانب سے آلودگی میں کمی لانے اور ماحولیات میں سدھار پیدا کرنے کے لیے ضروری اقدام اٹھانے کی باتیں تو کی جاتی ہیںمگر عملی طور پر جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام، کا رٹیل اور اجارہ داری کے نظام نے کارپوریشنز کے ذریعہ اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ دنیا کے ساڑھے سات ارب انسانوں کے مسائل اور مصائب میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔
دنیا کو ایسی کمرشل مارکیٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے جس میں ہر شئے پیسے سے ملتی ہے۔ گلوبلائزیشن کے نام پر زیادہ استحصال ہورہا ہے، یہاں تک کہ لوگوں کو پانی خرید کر پینے پرمجبور کیا جارہا ہے۔ ہر اہم شئے پراجارہ داری قائم ہوگئ ہے۔ جگہ جگہ ہر چیز پر ایک طاقت ور اور منظم مافیا کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز اجارہ داری قائم کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عوام چکاچوند روشنیوں کے صحر میں پیسہ گنوارہے ہیں۔بہ تدریج چھوٹا سرمایہ دار، بیوپاری اور دکان دار مٹتا جارہا ہے۔
دنیا بھر میں تعمیراتی ادارے متحد ہوگئے ہیں،انہوں نے اپنے اشتراک سے ملکوں کی افسر شاہی کو کرپشن کے ذریعے اپنے ساتھ ملالیا ہے۔ کالے دھن والے، ٹیکس چرانے والے اور ناجائز ذرایع سے دولت کمانے والے اس طرح کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرکے مافیا کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ زمین، سمندر، پینے کے پانی ،اناج منڈیوں، کھانے پینے کی مختلف اشیاء،ا دویہ اور دواخانوں تک پرمافیا چھائی ہوئی ہے۔دیانت دار سیاست داں، جج، انتظامی افسر، استاداور عام شہری گومگوکا شکارہیں۔
یورپ کے ماہرین تعلیم نے پیرس یونیورسٹی میں منعقدہ حالیہ اجلاس میں شکوہ کیا کہ ترقی پذیر ممالک سے یہاں آکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی نمایاں اکثریت اپنے مضامین میں بہت کم زور ہوتی ہے۔ان میں سے بیش تر کو اپنے مکمل نصاب کی بھی آگہی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تعلیم پر بھی بدعنوان افرادکا قبضہ ہوتا جارہا ہے جو بوٹی مافیاکہلاتی ہے۔ طلبا کی بڑی تعداد شارٹ کٹ کی عادی ہوگئی ہے، اکثر جامعات میں اساتذہ فوٹو کاپی نوٹس کے ذریعےطلبا کو تعلیم دیتے ہیں۔ جامعات پرانے نصاب کی کتابیں پڑھارہی ہیں۔ درحقیقت ان ملکوں میں پرائمری اور ہائی اسکولوں میں معیاری تعلیم نہیں دی جارہی ہے۔
سمندر پر مافیا کا قبضہ اس طرح بتایا جاتا ہے کہ بیش تر ممالک ، جہاں سمندر کے ساحل ہیں، ان کی آبادی کا ایک نمایاں حصہ سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی روزی کماتا ہےجو اب پریشان ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس مچھلیاں پکڑنے کے روایتی جال اور دیگرروایتی سامان ہے جس سے وہ برسوں سے اپنے علاقوں میں مچھلیاں پکڑتے آئے ہیں،مگر بتایا جاتا ہے کہ وہاں ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیوں کے بڑے بڑے جدید ٹرالرز آتے ہیں جن کے پاس تمام جدید اور خود کارطریقوں سے کام کرنے والا سامان اور ماہر ہوتے ہیں جو کم وقت میں زیادہ بڑے حصے سے مچھلیاں پکڑلیتے جن کا وزن ٹنوں کے حساب سے ہوتاہے۔ ایسےمیں غریب ممالک کے مچھیرے مزید غریب اور بے روزگار ہوتے جارہے ہیں،لیکن مافیان اپنا کام کررہی ہے۔ دنیا کے ممتاز ماہرین ماحولیات نے، جن میں جان جوبر اور الڈولیپوٹ شامل ہیں، اپنی حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بتایاہے کہ امریکا میںڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے وہاں ایک مضبوط لابی سامنے آئی ہے جس نے اعلان کردیا ہے کہ گلوبل وارمنگ محض ایک کہانی ہے جو بعض سائنس دانوں نے پھیلائی ہے اور دنیا کو ڈرایا ہوا ہے۔
اس لابی کو امریکاکے معروف اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی بھی حمایت حاصل ہے۔ دراصل صدر ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی میں موجود ایک بڑی لابی جس کے پاس تیل کی کمپنیاں،قدرتی کوئلے کی کانیں اور موٹر کاربنانے والی کمپنیاں ہیں،گلوبل وارمنگ سے انکار کرکے اور ایک نیا نظریہ تیار کرکے عوام کو یہ باور کرارہے ہیں کہ آئے روز امریکا میں سمندری طوفان آتے رہتےہیں ، دنیامیں برفانی طوفانوں اور برف باری کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے جس سے کئی کئی روزتک شہروں اور متاثرہ علاقوں میں زندگی مفلوج ہوجاتی ہے، سڑکیں بند ہوجاتی ہیں ،ٹرین کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بعض شہروں میں بجلی کا نظام تک اب تر ہوجاتا ہے،ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دنیا برفانی دور میں داخل ہورہی ہے ۔اس لابی کے بہ قول رہی بات موسمی تبدیلیوں کی تو جب سے زمین وجود میں آئی ہے اس پر موسم تبدیل ہوتے رہے ہیں، کبھی یہ آگ کا گولا تھی، آگ کے سمندر ابلتے تھے، پھر صدیوں بعد زمین ٹھنڈی ہوئی تو برف جمنے لگی اور یہ برف سے ڈھک گئی۔ پھر رفتہ رفتہ صدیوں بعد برف پگھل کر پانی ب گئی تو سمندر بن گئے، پہاڑ ابھرآئے اور زندگی پیدا ہوئی۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین پھر برف کی دنیابننے جارہی ہے اور ایک وقت آئے گا جب زمین پوری طرح برف سے ڈھک جائے گی اور سمندر جم جائیں گے۔
اس لابی کی برفانی تھیوری کو عالمی رہنمائوں اور ہزاروں ماہرین نے مسترد کردیا ہے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں اس لیے وہ اپنے بڑے کاروباری دوستوں اور حلقوں کی حمایت میں پیرس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اس سے الگ ہوئے ہیں، وہ امریکا کا تیل ، کوئلہ اور قدرتی گیس زیادہ سے زیادہ استعمال اور فروخت کرنا چاہتے ہیں چناں چہ وہ قدرتی ایندھن کے استعمال کی روک تھام کے کسی بھی معاہدہ میں نہ شریک ہیں اور نہ اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے حالیہ واقعہ سب پرعیاں ہے۔ امریکی صدر نے کرونا وائرس کے بارے میں اپنی تقریر میں کہاکہ یہ کوئی خطرناک وائرس نہیں ہے بلکہ محض فلو کی طرح کا وائرس ہے، اس کے لیے گھر میں بند ہونے کی ضرور ت نہیں ہے، آپ سب کام کریں۔پھر جب یہ وبا پھیل گئی اور ایک کے بعد دوسرے شہر سے بری خبریں ملنے لگیں تو صدر ٹرمپ بوکھلاگئے اور حسب عادت کبھی چین اور کبھی نریندر مودی پر غصہ نکالنے لگے۔
امریکا کی ماحولیاتی پالیسی کا چین، بھارت، برازیل اور دیگر ممالک بھی فائدہ اٹھارہے ہیں اور قدرتی کوئلہ اور ڈیزل خوب استعمال کررہے ہیں ۔یوںآلودگی کی روک تھام کے طریقوں پر عمل نہیں کیا جارہا ہے جس سے ماہرین کو مزید تشویش ہے۔ سائنس دان، ماہرین ماحولیات و ارضیات باربار افریقی اور بعض ایشیائی ممالک کو خبردار کررہے ہیں کہ وہ آبادی میں روک تھام کے لیے بامقصد اقدام اٹھائیںکیوں کہ آبادی میں اضافے کی رفتار بھی کرہ ارض کے قدرتی ماحول پر شدید طورسےاثر انداز ہورہی ہے۔
دنیا میں خوارک کی پیداوار، پینے کے صاف پانی، زندگی کی بنیادی سہولتوں اور صحت عامہ کے وسائل میں کمی ہورہی ہے اور آبادی بڑھ رہی ہے جس سے غریبوں کےکنبے مزید زیربار ہورہے ہیں اورمعاشرتی اورسماجی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ اس حوالے سے بیش تر رپورٹس میں پاکستان کا نام بھی آتا رہا ہے جہاں آبادی میں اضافے کا اوسط زیادہ ہے اور وسائل میں کمی ہوتی جارہی ہے۔مثلا پینے کا صاف پانی کم یاب ہورہا ہے، عوام کو پانی خریدکر پینا پڑتا ہے۔ غریب اس سے محروم ہیں۔ یہ صرف حکومتوں کی کوتاہی ہے۔ دنیا میں سمندر کا پانی صاف کرکے استعمال کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں دنیا کے بڑے بڑے گلیشئر ز ہیں،ہماری سرزمین پر پانچ دریا بہتے ہیں۔ ہر سال بارشیں ہوتی ہیں، سیلابی ریلے آتے ہیں جو تباہی مچاکر سمندر میں گرجاتے ہیں۔لیکن حکومتوں نے چھوٹے ڈیم، مصنوعی جھیلیں تعمیر نہیں کیں۔ اگر چولستان میں مصنوعی جھیل بنالی جائے توایک بڑا علاقہ سیراب ہوسکتا ہے اور پانی کی قلت میں کمی آسکتی ہے۔ چھوٹے ڈیم تعمیر کرنے کا سلسلہ دنیا میں عام ہورہا ہے اوربڑے ڈیم بنانے کا نظریہ مسترد کردیا گیا ہے۔ اس لیے پاکستان میں، جس کی آبادی بڑھ رہی ہے، چھوٹے ڈیمز بنانا ضروری ہے۔ایک عرصے سے پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ طوفانی بارشوں سے سیلاب آرہے ہیں۔ یہ سب پر عیاں ہے، مگر ڈیمز بنانے میں نادیدہ قوتیں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ آئندہ برسوں میں قوموں کے لیے پانی بہت اہم مسئلہ بن جائے گا۔
عالمی ماحولیات اور موسمی تغیرات کے حوالے سے ہم یہ سچائی جھٹلا نہیں سکتے کہ فطرت کے توازن میں انسان جوبگاڑپیدا کرتا رہا ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔ انسان نے زرگری، طمع، حرص و ہوس اور طاقت کے نشے میں معاشرے ہی نہیں اجاڑے بلکہ فطری نظام کوبھی شدید نقصان پہنچایاہے۔اب ترقی یافتہ ا قوام مسابقت کی دوڑ میں مزید بگاڑ پیدا کررہی ہیں جن کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ انسان دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے آج ترقی کی کئی منزلیں طے کرلی ہیں اور اب تسخیر کائنات کے مشن کی تکمیل کررہا ہے۔ مگر کیا کرہ ارض پراس نے ایسا کوئی ایک گوشہ قائم کیا ہے جو ماحول دوست ہو اور ہر طرح کی آلودگی اور وائرل بیماریوں سے پاک ہو؟ نہیں، تمام دنیا آلودہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے نے گزشتہ سال بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ گزشتہ برس شمالی امریکا میں آنے والا سمندری طوفان سینڈی بحراوقیانوس میں دو ڈگری درجہ حرارت بڑھ جانے کی وجہ سے آیا تھا۔ اس حوالے سے دنیا کے بیش تر سائنس داں جو سمندری ماحولیات پر تحقیق کرتے آرہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ دنیا میں ہر تیس برس کے بعد موسمی تبدیلیاںرونما ہوتی رہی ہیں، مگر اس بار گزشتہ دو ہائیوں سے سمندری ماحولیات میں جو تبدیلیاں ہورہی ہیں وہ معمول سے ہٹ کر ہیں ۔مثلاً حالیہ سمندری تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بحرہند کے وسطی حصہ میں لہروں میں بڑی ہلچل ریکارڈ کی جارہی ہے۔ پروفیسر پال کنچ، جو کینیڈا کی یونیورسٹی میں سمندری ماحولیات پر تحقیق کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سمندر آگےچل کر دنیا کے لیے بڑے خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سمندروں کی سطح میں بہ تدریج تبدیلی ہورہی ہے۔ خیال ہے کہ اب سے اسّی سال بعد یعنی 2100میں سطح سمندر آٹھ فٹ بڑھ جائے گی اور سن 2300میں 50فٹ تک بلند ہوجائے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بحرہند کے وسط میں اٹھنے والی لہریں مستقبل قریب میں بڑی تباہی کا پتا دے رہی ہیں جس سے بحر ہند کے تمام ساحلی شہروں اور جزائر کو شدید خطرہ ہے۔ بحرہند کی بڑھتی ہوئی سطح سے ماہرین زیادہ پریشان ہیں۔ اس سمندر کا پھیلائو زیادہ ہے جو قطب جنوبی سے بھی وابستہ ہے اور قطب جنوبی کے برفانی خطے میں پگھلنے والے گلیشیرز اس پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ بحراوقیانوس ،جو شمالی اور جنوبی دو حصو ں میں ہے، اس میں ہونے والی تبدیلیوں سے امریکا اور اس کے قرب و جوار کے جزائر مثاثر ہوسکتے ہیں۔ اس سمندری سطح کی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی ماہرین کی ایک لابی نے صدر ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے گلوبل وارمنگ کو گلوبل کولنگ سے تشبیہ دی ہے اور وہ تاحال اس نظریے پر قائم ہیں۔حالاں کہ گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات ایک حقیقت ہیںجن سے نظر نہیں چرائی جاسکتی۔