• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھاشا ڈیم رائلٹی،خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان آمنے سامنے

اسلام آباد(مہتاب حیدر) دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی کے لیے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان آمنے سامنے ہیں۔ دونوں حکومتوں کا 8ایکڑ زمین پر تنازعہ ہے۔ جرگے نے اپنے فیصلے میں زمین خیبر پختونخوا کو دی تھی لیکن سرکاری دستاویزات میں یہ زمین گلگت بلتستان کی ہے۔ اس حوالے سے جب وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر کو پیغامات بھیجے تو ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تفصیلات کے مطابق، خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان کی حکومتیں 8 ایکڑ زمین کے لیے آمنے سامنے ہیں کیوں کہ اس سے اربوں ڈالرز کے دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی کا تعین ہوگا۔ بھاشا ڈیم سے بننے والی بجلی کی رائلٹی کسی ایک صوبے کو ہی ملے گی۔ اسی وجہ سے یہ تنازعہ کئی سال سے حل نہیں ہوسکا ہے۔ یہ تنازعہ تقسیم ہند کے وقت سامنے آیا تھا، جس کے بعد طرفین نے جرگہ منعقد کیا تھا اور یہ زمین خیبر پختون خوا کو دے دی گئی تھی مگر سرکاری دستاویزات میں یہ زمین گلگت بلتستان کی ہے۔ یہاں تک کے اس مقام پر قائم پوسٹ آفس اور دیگر سرکاری عمارتیں بھی گلگت بلتستان کی ملکیت ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس آٹھ ایکڑ زمین پر بھاشا ڈیم کے لیے پاور اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے، جس کی رائلٹی زمین کی ملکیت رکھنے والی حکومت کو دی جائے گی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر گزشتہ ہفتے اس حوالے سے آن لائن اجلاس منعقد کیا تھا تاکہ یہ تنازعہ ختم ہوسکے اور دیامر بھاشا ڈیم کا تعمیراتی کام شروع کیا جاسکے۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہا۔ اس نمائندے نے وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر کو پیغامات بھیجے مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل اب جرگے پر چھوڑ دینا چاہیئے تاکہ پرامن طریقے سے کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے۔ تاہم، خیبر پختون خوا حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا نے ایک رکنی کمیشن رپورٹ کے اجراء کی درخواست کی تھی تاکہ اس کی تجاویز کی روشنی میں اس تنازعے کو حل کیا جاسکے۔ کمیشن رپورٹ وزیراعظم آفس میں ہے اور اب تک وفاقی حکومت اسے منظرعام پر نہیں لائی ہے۔ جب کہ دوسری جانب گلگت بلتستان حکومت کا ماننا ہے کہ سرکاری عمارتیں اب بھی ان کی ہیں لہٰذا وہ ان کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اس زمین کو ان کی ملکیت سمجھا جانا چاہیئے۔ پلاننگ کمیشن کے اعلیٰ حکام سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایک رکنی کمیشن زمین کے معاوضے کو حتمی شکل دینے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن کمیشن نے یہ شق بھی شامل کردی تھی کہ اگر مقررہ مدت میں معاوضے کا حتمی تعین نہیں ہوسکا تو معاوضے کا پیکج دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ذمہ دار کا تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ کیوں مقررہ مدت میں اس پیکج پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ بھاشا ڈیم کے لیے زمین کا حصول 46 ارب روپے سے شروع ہوا تھا جو کہ بڑھ کر 74 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے بعد اس میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور یہ 86 ارب روپے سے بڑھتا ہوا 101 اعشاریہ 3 ارب روپے تک ہوگیا۔ حکومت نے 30 جون، 2019 تک 86 ارب روپے فراہم کیے تھے۔ جب کہ اس مقصد کے لیے رواں مالی سال میں پی ایس ڈی پی کے تحت 4 ارب روپے رکھے گئے۔ تاہم، پی سی۔1 نظرثانی کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ اب یہ رقم بڑھ کر 170 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کے لیے زمین کے حصول کی لاگت 60 ارب روپے سے بڑھ کر 170 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ابتدائی طور پر اس منصوبے کی منظوری 2008 میں دی گئی تھی، جس میں اس کی لاگت 60 اعشاریہ 051 ارب روپے لگائی گئی تھی۔ 2015 میں یہ بڑھ کر 101 اعشاریہ 372 ارب روپے ہوگئی اور اب اس کی لاگت 170 اعشاریہ 756 ارب روپے ہوچکی ہے۔
تازہ ترین