• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کے حساب دانِ اثاثہ جات کے مطابق شہباز شریف دس عدد بھینسوں کے مالک و مختار بھی ہیں۔ کہتے ہیں یہ پہلے وزیراعظم ہائوس میں رہا کرتی تھیں۔ بیچاریوں کو عمران خان نے وہاں سے نکال دیا۔ سنا ہے بولی میں خریدنے والوں سے شہباز شریف نے خرید لیں۔

آخر تعلقِ خاطر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ویسے وہ غالب کی طرح یہ تو کہہ سکتی ہیں۔ ’’گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئی تو ہیں‘‘۔ مجھے راولپنڈی کا حسن لطیف یاد آ رہا ہے جس نے اپنے لیڈر کی محبت میں ساڑھے تین لاکھ کی ایک بھینس خرید لی تھی۔ اُس کے متعلق کسی نے کہا تھا ’’یہ نواز شریف کو بہت پسند تھی‘‘۔

بھینس ہوتی تو بڑی ملنسار ہے، عاجزی اور درویشی سے بھری ہوئی۔ کاہل قطعاً نہیں، ہر وقت جگالی کرتی رہتی ہے۔ عقل میں اتنی بڑی، لوگ مثال دیتے ہیں ’عقل بڑی کہ بھینس‘۔ یہ محاورہ ایک پیدائشی نابینا نے بنایا تھا، اس نے دراصل بھینس کو ٹٹول کر دیکھا تھا۔ بہرحال بھینسوں کے عشاق یہی کہتے ہیں کہ وہ جسامت میں عقل سے بڑی ہوتی ہے۔

قدرت نے اُسے کالی رنگت عطا کی ہے۔ (شاید نظرِ بد سے محفوظ رہنے کے لئے) کچھ بھوری بھی ہوتی ہیں مگر ان کی علیحدہ کمیونٹی ہے۔ بھینس کا رنگ چاہے کالا ہو یا خاکی، کیچڑ اور پانی خاص طور پر گندے پانی سے اسے رغبتِ خاص ہے۔ وہ جب جوہڑ میں اترتی ہے تو دیکھنے والی ہوتی ہے۔ ایسی شان ایسی آن بان کہ ملکہ حسن بھی شرما جائے۔

بیشک بھینس سے زیادہ بھلا مانس کوئی جانور نہیں۔ سراپا مسکینی و تابعداری، یعنی ’’سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘ کی کیفیتِ دلنواز سے بھری ہوئی۔ برسوں ادائے بے نیازانہ کے ساتھ اپنے کھونٹے پر جمی رہتی ہے۔ شاعروں نے کہیں کہیں تنک کر اسے معشوق سے بھی تشبیہ دی ہے۔

وہ فقط وضع کشتہ ہیں نہیں قید کچھ اور

بھینس کو گون پہنا دیجئے عاشق ہو جائیں

ابن انشا نے کہا تھا ’’چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے جو موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، لوگ صرف اس کے آگے بین بجاتے ہیں‘‘۔ میوزک کا شوق شہباز شریف کو بھی ہے۔ اُن کی آواز بھی بڑی اچھی ہے۔

ان کی گائی ہوئی حبیب جالب کی نظمیں تو موبائل کی رنگ ٹونز بنی پھرتی ہیں۔ معروف موسیقار افضل عاجز کا خیال ہے کہ وہ سیاستدان نہ ہوتے تو بہت مشہور گلوکار ہوتے۔

بھینسوں کے ساتھ شہباز شریف کی محبت مجھے بہت بھلی لگی ہے۔ سوچتا ہوں وہ صبح سویرے اٹھتے ہی بھینسوں کے باڑے میں جاتے ہوں گے تو کتنے اچھے لگتے ہوں گے۔ ایک ایک بھینس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوں گے، پوچھتے ہوں گے۔ دودھ کا تو وہ خاص طور پر حساب رکھتے ہوں گے کیونکہ انہوں نے فرمایا ہے کہ میں اِنہی بھینسوں کا دودھ بیچ کر اپنے اخراجات پورے کرتا ہوں۔ ضرور کرتے ہوں  گے۔

کہتے ہیں کہ اُن کے اخراجات بہت ہی کم ہیں بلکہ ہیں ہی نہیں۔ بس ایک کار میں پٹرول ڈلواتے ہیں وہ بھی عمران خان نے سستا کر دیا ہے۔ بیشک کاروں کی تعداد خاصی ہے مگر وہ ان کے استعمال میں تھوڑی ہیں۔ کھانا بھی کچھ زیادہ نہیں کھاتے۔ بڑھاپے میں کھانا کہاں کھایا جاتا ہے۔

کپڑے بھی زیادہ مہنگے نہیں پہنتے، بلکہ ایک سوٹ کئی کئی ہفتے پہن لیتے ہیں یعنی لانڈری کا بل کچھ زیادہ نہیں بنتا۔ بیمار بھی ہیں بیچارے۔ علاج معالجے پر کافی خرچ آ جاتا ہے۔ پہلے تو وزیراعلیٰ تھے تو یہ خرچ حکومتِ پنجاب کیا کرتی تھی۔ اب مسئلہ ہے۔ دوائیاں مہنگی ہو چکی ہیں۔ کارکنانِ نون لیگ سے درخواست ہے کہ وہ دوائیوں کی ذمہ داری قبول کر لیں تاکہ بھینسوں پر دبائو زیادہ نہ بڑھے۔

شہباز شریف جاتی امرا کے جس کمرے میں رہتے ہیں وہاں کا فرنیچر بھی کوئی بیس پچیس سالہ پرانا ہے، اسے بدلنے کی ضرورت ہے مگر بھینسوں کے دودھ سے نیا فرنیچر خریدنا ممکن نہیں، تاہم یہ بات مخیر حضرات کے سوچنے کی ہے۔ ہاں! ایک خرچہ اور بھی ہے، وہ دو گھروں کے اخراجات ہیں، پہلے وہ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز پورا کر لیتے تھے مگر سلمان شہباز نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی اور حمزہ شہباز ہے تو وطن میں مگر مقیم جیل میں ہے۔ یقیناً اب ان دو گھروں کے اخراجات بھی یہی بھینسیں پورا کرتی ہوں گی۔

ایک خرچہ اور بھی بڑا اہم ہے وہ برطانیہ آنے اور جانے کا ایئر فیئر ہے۔ وہ بہت بڑا خرچہ ہے کیونکہ موصوف کرتے بھی تو فرسٹ کلاس میں سفر ہیں۔ جب حکومت تھی تو خیر کوئی نہ کوئی بندوبست ہو جاتا تھا اب اس کا بوجھ بھی بھینسیں برداشت کر رہی ہیں۔ کبھی کبھار ایسے مہمان بھی آ جاتے ہیں جو کمبخت کھانا کھائے بغیر جانے کا نام نہیں لیتے۔

اُن کے لئے کھانا بازار سے منگوانا پڑ جاتا ہے۔ یہ خرچہ بھی یقیناً ان کے دماغ پر دبائو ڈالتا ہوگا اور انہیں چیف منسٹری یاد آتی ہوگی جس پر تونسہ کے ایک بلوچ نے قبضہ کر لیا ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ جاتی امرا سے آج کل سرائیکی کے اس مشہور گیت کی اکثر گنگناہٹ سنائی دیتی ہے ’’بلوچا ظالما‘‘

شہباز شریف نے کچھ ملازمین کو تنخواہیں بھی دینا ہوتی ہیں۔ مجھے درست تعداد معلوم نہیں اندازہ ہے، ایک باروچی ہوگا، ایک صفائی والا، ایک چپراسی، ایک فون آپریٹر بھی۔

شاید سیکرٹری کے فرائض بھی وہی سرانجام دیتا ہو۔ ان کی تنخواہیں بھی ذہن پر دبائو ڈالتی ہوں گی مگر ان کے بغیر گزارا بھی تو ممکن نہیں۔ کوئی کارکن اگر ازراہِ ہمدردی یہ دبائو کم کرانے کا خواہشمند ہو تو رابطہ کرے۔

قصہ شروع ہوا تھا بھینس کے دودھ کی آمدن سے، جی چاہتا ہے شہباز شریف کی طلسماتی بھینسوں جیسی دو چار بھینسیں اپنے باڑے میں ہوتیں، ہم بھی کسی ہیر کے بیلے میں رانجھے کی طرح مُرلی بجاتے ہوئے بھینسیں چراتے ہوئے گاتے ’’رانجھے مجھیاں چرائیاں‘‘ ہیر تو خیر کھیڑوں کی ہی تھی، انہوں نے لے ہی جانی تھی۔ کورونا کے خوف نے کسی شبِ وصال کو میرے آنگن میں تھوڑا آنے دینا تھا۔

تازہ ترین