موسم کا اثر انسانی زندگی اور مزاجوں کے ساتھ ساتھ پرند و چرند پر بھی ہوتا ہے۔ موسم اچھا ہو تو ہر چیز پر مسکراہٹ کھل اٹھتی ہے پرندے چہچہانے لگتے ہیں۔ بہار آتی ہے تو کوئل کوکتی ہے۔ چمن میں تتلیاں رقص کرتی ہیں اور بھونرے گنگناتے ہیں۔ موسم متوالا ہو تو شاعرانہ ہی ہو جاتا ہے اور موسم کے حوالے سے گیت لکھے اور گائے جاتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں بہار اور برسات کے حوالے سے گیت کاروں نے بڑے خوبصورت گیت لکھے ہیں۔ یہ گیت اکثر برطانیہ کے مقامی ایشین ریڈیو نشر کرتے ہیں۔ ایک ایسا ہی پرانا اور خوبصورت گیت کسی ریڈیو سٹیشن سے نشرہو ا ہے۔
آئے موسم رنگیلے سہانے
تو چھٹی لے کر آجا بالما
ادھرلندن میں یہ گیت فضاؤں میں بکھر رہا ہے تو ادھر برفانی ہواؤں اور سرد موسموں کی قہر بانیوں نے جنوبی انگلستان کے متعدد علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ناردن آئر لینڈ اور سکاٹ لینڈ کے ہزاروں مکان بھی پانی اور بجلی کی فراہمی سے محروم ہوگئے۔موسم اگر ایسا ظلم ڈھائے تو بالما چھٹی تو کیا استعفٰیٰ دے کر آجائے۔ ان دنوں تو لندن میں بھی ہم نے مارچ کے آخری ہفتہ میں ایک دن برف پڑتے دیکھی ۔ انٹرنیٹ پر لوگوں نے بھی موسم کی اس بے وقف کی انگڑائی کی تصویر کے عکس کو چسپاں کرتے ہوئے لکھا۔”الٰہی یہ کیا ماجرا ہوگیا“۔ اب اس بات کا جواب تو اللہ میاں ہی دے سکتے ہیں۔ پاکستانی گلوکار احمد رشدی کا ایک مشہور گیت شاید آپ کو یاد ہو۔
اے ابر کرم آج اتنا برس
اتنا برس کہ وہ جانہ سکیں
کراچی اور لاہور کی شدید گرمی میں یہ گیت خنک اور فرحت بخش احساس کے ساتھ سماعتوں میں گھلتا تھا لیکن انگلستان کی دھوپ سے محروم گیلے گیلے موسموں میں ہر دل جو پیار کرے گا۔ وہ یہ گانا گائے گا۔
اے ابر کرم ذرا تھم کے برس
اور نہ ہی برس تو اچھا ہے
مگر فطرت اورموسم کا اپنا موڈ ہوتا ہے۔ شکرہے یہ دونوں چیزیں انسان کے اختیار سے باہر ہیں اور انسان ان کے زیر اختیار ہے۔ یہ اگر بے قابو ہو جائیں تو حضرت انسان کے سارے منصوبے اور احتیاطیں درہم برہم ہوکر وہ جاتی ہیں۔ اس لئے سیانے ہمیشہ ہواؤں کا رخ دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور جیالے موسم کے اشارے دیکھ کرسفر کے ارادے کرتے ہیں۔
برطانیہ کے موسم کے غیر متوقع انداز دیکھ کر ہمیں پاکستان کے سیاسی موسم کا بھی خیال آرہا ہے۔”کلائمٹ چینج“ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اور دنیا کے غیر متوقع موسموں کا سبب بھی ہے۔ شاید سیاسی آب و ہوا کی تبدیلی بھی ایک خوشگوار غیر متوقع موسم کو پاکستان میں لے آئے۔ یہ خیال ہمیں اس لئے بھی آرہا ہے کہ توقع اور امکانات سے آگے خوابوں اور آرزؤں کی سرحد ہوتی ہے جہاں آپ بغیر کسی ویزے اور پاسپورٹ کے داخل ہو جاتے ہیں۔ گو کہ وہاں حالات بحر منجمد شمالی کی برف کی طرح سخت ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ بدلتی ہوئی آب و ہوا میں یہ برف پگھل ہی جائے۔ لیجئے صاحب ! ابھی ہمارا کالم ختم نہیں ہوا کہ موسم کا ایک اور گیت سن رائز ریڈیو بجا رہا ہے۔
آج موسم بڑا بے ایمان ہے
آنے والا کوئی طوفان ہے
گیت کے بول جس طوفان کی طرف اشارہ کررہے ہیں وہ امیدوں، ولولوں اور تمناؤں کا طوفان ہے۔ اور کون نہیں چاہتا کہ اس طوفان میں غوطہ کھائے اورساحل مراد پائے۔ آج کے سیاسی موسم میں پاکستان کا ہر شہری نئی امیدوں، نئے ولولوں اورنئے ارمانوں کے طوفانوں میں بہنا چاہتا ہے لیکن ڈوبنا ہر گز نہیں چاہتا…سیاسی موسم کے اشارے ہمارے سیاستدان اپنے صوابدید اور بصیرت کے مطابق سمجھ ہی لیتے ہیں۔ موسم کا اشارہ یدکھ کر پرویز مشرف نے ارادہ سفر باندھا اور آخر کار کراچی پہنچ ہی گئے تو ادھرآصف زرداری کے کانوں تک بھی موسم کا یہ گیت پہنچا کہ :
آج موسم بڑا بے ایمان ہے
آنے والا کوئی طوفان ہے
آصف رداری جو اڑتی چڑیا کے پر گنتے ہی نہیں کاٹ بھی دیتے ہیں بھلا کیسے نہ موسم کے اس اشارہ کو سمجھتے اپنے پرنس بلاول کے ساتھ انہوں نے بھی رخت سفر باندھا اور پاکستان سے باہر کا رخ کیا۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ نئی رتوں کا اشارہ پاکستان کا سیاسی موسم دے ہی چکا ہے اب پرانے موسموں کی قہربانیوں کو بھول کر نئی رتوں کی مہربانیوں پر نظر رکھنے کے دن آرہے ہیں۔
نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں
قریب ان کے آنے کے دن آرہے ہیں
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آرہے ہیں
خدا خیر کرے اب جو بھی دن آئیں اچھا سندیسہ لے کر آئیں۔ امن و خوشحالی کی نوید لے کر آئیں۔ کراچی کی گلیوں سے لے کر پشاور کے بازاروں تک سوات کے سبزازاروں سے لے کر پختونخوا اور بلوچستان کی شاہراہوں تک زندگی اپنا تمام تر شادابیوں کے ساتھ وطن کے گوشے گوشے میں رقصاں ہو۔ فضاؤں میں امن کے گیت بکھریں اور ان گیتوں کے خوش لمس مہک سے ہوائیں معطر ہو جائی … (آمین)
سبز موسم کی خبر لے کر ہوا آئی ہو
کام پت جھڑکے اسیروں کی دعا آئی ہو