جنوب ایشیائی ادب کی تخلیق کے منظر نامے پر موجودہ دور میں سب سے مقبول نام ’’محسن حامد‘‘ کا ہے۔ وہ 1971 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بچپن امریکا میں گزرا، جہاں ان کے والد ایک امریکی جامعہ سے بطور پروفیسر وابستہ تھے۔ کچھ برسوں کے لیے واپس لاہور آئے، بنیادی تعلیم یہیں حاصل کی، دوبارہ مزید تعلیم کے لیے پہلے امریکا اور پھر برطانیہ گئے۔ امریکا میں ان کو ایسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، جو ناول نگاری کی دنیا میں بڑا نام ہیں، وہ’’جوائس کیرول اوٹس‘‘ اور’’ٹونی مارسین‘‘ ہیں، جن کی وجہ سے محسن حامد ناول نگاری کی طرف راغب ہوئے، بلکہ اپنے پہلے ناول کا خاکہ بھی انہی اساتذہ کی زیر تربیت ایک ورکشاپ میں لکھا، اس پر مزید کام کرتے رہے اور اپنے اندر کے ناول نگار کو دریافت کرلیا۔ 1997 میں برطانیہ سے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرلینے کے بعد ایک نجی ادارے میں ملازمت کرنے لگے، جہاں آدھا ہفتہ کمپنی کا کام کرتے، باقی ماندہ وقت لکھنے پڑھنے پر صرف کرتے۔ اس طرح پڑھائی، ملازمت اور گھرداری کے ساتھ ساتھ پہلا ناول ’’مائوتھ سموک‘‘ مکمل کیا، وہ 2000 میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس طرح محسن حامد بہت تیزی سے عالمی سطح پر تخلیق ہونے والے انگریزی ادب کے اُفق پر نمایاں ہونے لگے۔ پاکستان، امریکا اور برطانیہ میں کام بھی کرتے اور رہائش بھی اختیار کرتے ہیں۔
اپنی شریک حیات زہرہ اور بیٹی دینا کے ہمراہ خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ پاکستان تشریف لائے تو راقم نے ان سے مکالمہ کیا اور مغربی قارئین ادب، امریکی سینما، برطانوی ادبی منظرنامہ اور دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا، اردو زبان میں یہ ان کا پہلا اور تفصیلی مکالمہ تھا۔ محسن حامد اب تک پانچ ناول لکھ چکے ہیں، ان کا آخری ناول’’ایگزیٹ ویسٹ‘‘ 2017 میں شائع ہوا، امریکا کے سابق صدر’’بارک اوباما‘‘ نے اسے اپنا پسندیدہ ناول قرار دیا۔ ان کے تمام ناولوں کو مغربی قارئین اور ناقدین کی طرف سے مثبت ردعمل موصول ہوتا رہا ہے۔ برطانیہ کے معروف ادبی ایوارڈ’’بکر پرائز‘‘ کے لیے دو مرتبہ یہ نامزد بھی ہوچکے ہیں، بطور پاکستانی ادیب، دومرتبہ نامزد ہونے کا اعزاز صرف انہی کے پاس ہے۔
2018 میں حکومت پاکستان نے بھی ان کو ستارۂ امتیاز دیا۔ ان کے مقبول ترین ناول’’دی ریلکٹینٹ فنڈامینٹلسٹ‘‘ کو بے حد پذیرائی ملی۔ بھارتی نژاد امریکی فلم ساز ’’میرا نائر‘‘ نے اس ناول پر فلم بنائی، دونوں کو یکساں مقبولیت حاصل ہوئی، امریکا میں گیارہ ستمبر کوجڑواں عمارتوں پر جہازوں کے حملوں نے جس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کا امیج متاثر کیا، یہ ناول اسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ بی بی سی نے 100 ایسے ناولوں کی فہرست مرتب کی، جنہوں نے قارئین کی سوچ پر اپنے اثرات مرتب کیے، یہ ناول بھی ان میں سے ایک تھا۔
’’دی ریلکٹینٹ فنڈامینٹلسٹ‘‘ 2007 میں شائع ہوا۔ اس سے ایک برس پہلے اس ناول کا خلاصہ مختصر کہانی کے طور پر پیرس بک ریویو میں بھی شائع ہوا، اس کے علاوہ امریکی و برطانوی اخبارات میں ادبی چارٹ میں سر فہرست رہا۔ اس ناول میں کہانی بیان کرنے کے لیے فریم اسٹوری کی تکنیک استعمال کی گئی ہے، جس کے مطابق، کہانی کے اندر ایک کہانی سنائی جاتی ہے۔ یہ کہانی ایک چنگیزی نامی لڑکے کی ہے، جس کا تعلق لاہور سے ہے، وہ امریکا میں کامیاب کیرئیر بنانے کے بعد تیزی سے ترقی کر رہا ہوتا ہے۔اس کی زندگی معمول کے مطابق گزررہی ہوتی ہے،جب اچانک نائن الیون کاواقعہ ہوتاہے۔ اس کے بعد بطور مسلمان اور پاکستانی اس کے ساتھ امریکا میں جس طرح امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، یہ ناول اسی کتھا کو بیان کرتا ہے ۔
حیرت انگیز لیکن مثبت طور پر اس ساری صورتحال کو ایک پاکستانی ناول نگار محسن حامد نے تو قلم بند کیا ہی لیکن اس پر فلم بنانے کا فیصلہ ایک انڈین فلم ساز نے کیا، اس سے امریکا میںموجود دونوں کی برادرانہ کمیونٹی مراسم کا بھی پتہ چلتاہے اور یہ اندازہ ہوتاہے، جنوب ایشیائی ہونے کی شناخت کے ناطے مشکل وقت میں دونوں ایک ساتھ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ فلم اسی کی ایک روشن مثال ہے۔ اس پر اور ایک مثبت بات، اس فلم کو ایک امریکی فلم ساز ادارے نے پروڈیوس کیا اوراسے ’’دوہافلم انسٹی ٹیوٹ،قطر‘‘ کا مالی تعاون بھی حاصل تھا۔ سچی بات ہے کہ فلم ساز نے ناول کے پلاٹ کے ساتھ انصاف بھی کیا۔
معروف بھارتی شاعر جاوید اختر نے بھی ایک منظر نامے کی تقریر کو خوب ادبی انداز میں لکھا ہے، جس نے فلم کے اختتام کو پُر اثر بنا دیا۔ اس فلم کو ہالی ووڈ کے بہترین اداکاروں کے ساتھ مل کر بنایا گیا اور یہ ایک عمدہ ہالی ووڈ فلم ثابت ہوئی۔ اس میں جن فنکاروں نے اداکاری کی، ان میں سرفہرست پاکستانی نژاد برطانوی اداکار رضوان احمد اور امریکی اداکارہ کیٹ ہڈسن شامل تھیں، دیگر بڑے اور اہم امریکی اداکاروں میں لیوشریبر، کیفیرشٹرلینڈ تھے۔ انڈین اداکاروں میں اوم پوری، شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ کے صاحب زادے عماد شاہ اور عدیل حسین تھے، پاکستانی اداکاروں میں میشا شفیع اور سونیا جہاں شامل تھیں۔ا س فلم کا اسکرپٹ لکھنے میں محسن حامد تو شریک تھے ہی لیکن ان کے ساتھ’’ایمی بوگھانی‘‘ اور’’تویک اوزا‘‘ بھی شریکِ عمل تھے۔
فلم کی موسیقی معروف مغربی موسیقار’’میچل اینڈریوس‘‘ نے دی، جبکہ معروف پاکستانی قوال برادر جوڑی فرید ایاز اور ابومحمد کی قوالی ’’کنگنا‘‘ بھی فلم کا حصہ تھی۔ یوں تو امریکی موسیقار نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دی، لیکن کچھ روایتی پاکستانی انداز موسیقی بھی شامل کیا گیا۔ معروف مغربی موسیقار پیٹر گیبرئیل نے بھی ایک گیت کی دھن مرتب کی۔ امیر خسرو کا بھی ایک کلام شامل موسیقی رکھا گیا، جس میں فیض صاحب کے پنجابی کلام کو شامل کر کے عاطف اسلم نے خوب خوب گایا۔ان کے علاوہ استاد نصیرالدین سامی، زہرا خان، علی سیٹھی، ایمی رے ، میشا شفیع نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ یہی وجہ ہے، اس فلم کو باکس آفس پر اسے شاندار کامیابی ملی۔ امریکا، پاکستان، انڈیا، یورپی ممالک سمیت مشرق وسطیٰ کے بھی کئی ممالک میں اس کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔