ضلع شکارپورمیں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بتدریج اضافہ پایا گیا ہے۔یہاں تک کہ ملک کےدیگر شہروں سے اغوا ہونے والوں کو بھی شکارپور کی تحصیلوں سے ملحقہ کچے کے علاقوں سے بازیاب کرایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کے علاقے چکرہ گوٹھ کے رہائشی ٹرانسپورٹر غلام مصطفیٰ کوریجو کو کورنگی سے اغوا کیا گیا جسے ایک ماہ بعدخانپورمیں کچے کے علاقے سےبازیاب کرایا گیا۔ اس کے علاوہ بھی اغوا برائے تاوان کےکئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی روک تھام کے لئےپولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اب تو ڈاکوؤں نے اغوا کی وارداتوں کے لیے جدید موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا ہے۔ڈاکو اور اغوا کار، موبائل فون پر نسوانی آواز کا سہارا لیتے ہوئے لوگوں کوجال میں پھانس کر انہیں کچے کے علاقے میں بلا کر یرغمال بنانے کے بعد ان کے ورثا ءسے تاوان کی بھاری رقم طلب کرتے ہیں۔ ضلع شکارپور کی حدود سے اغوا ہونے والے تین نوجوانوں کو پولیس تاحال بازیاب کرانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔جن میں سے ایک ڈھائی ماہ قبل ضلع سانگھڑ کے علاقے شہداد پورکارہائشی22سالہ نوجوان کریم بخش لاکھو ولد سائیں بخش لاکھو نسوانی آواز کے جھانسے میں آکرخانپور میں کچے کے علاقے میں جاپہنچا۔
مغوی نوجوان کے ورثاء کے مطابق انہوں نے اعلیٰ پولیس افسران سے مغوی نوجوان کی بازیابی کے لئے درخواست کی لیکن خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں نے رابطہ کرکےمغوی کی رہائی کے لئے پچاس لاکھ روپے تاوان طلب کیاہے۔ اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ شکارپور پولیس نےنوجوان کی بازیابی کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔۔
اغوا کی ہی ایک اور واردات میں نسوانی آواز کے جھانسے میں پھنس کر ایک اور23سالہ نوجوان محمد وریام ولد غلام حسین شرخانپورمیں تھانہ ناپر کوٹ کی حدود سے اغواکرلیا۔ وریام کے بھائی بشیر احمد شرنےجنگ کو بتایا کہ اپنے مرشد سے ملنے کے بہانے وہ گھر سے نکلا تھا کہ اسے اغوا کرلیا گیا ہے۔اغوا کاروں نے ہم سے رابطہ کرکے تاوان کے طور پرتیس لاکھ روپے کی ادائیگی کامطالبہ کیا ہے۔عدم ادائیگی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
اغوا کی ایک اور واردات میں ایک ماہ قبل تھانہ رُستم کی حدود میں شکارپور رستم روڈ پر گاؤں بورڑی سے رستم کی طرف جانے والےموٹرسائیکل سوار28سالہ نوجوان یار محمد سیٹھار کو نامعلوم مسلح افراد اسلحے کے زور پر اغوا کرکے لے گئے۔نوجوان کے گھر نہ پہنچنے پر ورثاء کی جانب سے علاقے کی پولیس کو اطلاع دی گئی۔پولیس کی جانب سے عدم توجہی کا مظاہرہ کرنے پر مغوی نوجوان کے ورثاء مختلف گاڑیوں میں سوار ہوکرگاؤں بورڑی سےشکارپور پہنچے۔ جہاں شہر کے رستم چوک سے پولیس ہیڈ کوارٹر ایس ایس پی آفس تک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔جہاں احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دھرنا دیا گیا۔ ایس ایچ او تھانہ نیو فوجداری نے مظاہرین کو مغوی کی بازیابی کی یقین دہانی کراتے ہوئے دھرنا ختم کرایا۔بعد ازاں مظاہرین نے شکارپور پریس کلب پہنچ احتجاجی مظاہرہ کیا۔
اس سلسلے میں مغوی کے بھائی گل حسن سیٹھار کا کہنا تھاکہ ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مغوی نوجوان بھینسوں کےایک باڑے پر گوالے کی حیثیت سے محنت مزدوری کرکے اپنی گزر بسر کرتا ہے۔ڈاکووؤں کی جانب سے مغوی کی رہائی کے لئے تاوان کے طور پر بارہ لاکھ روپے کی رقم مانگی گئی ہے ۔تین ہفتےگزر جانے کے باوجود پولیس کی جانب سے صرف جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہیں۔کچھ عرصے قبل شکارپور میں بڑھتے ہوئے جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنے والوں کا گھیرا تنگ کرنے کے لئے پولیس کی جانب سےکومبنگ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا گیاتھا۔اس سلسلے میں سابق ایس ایس پی شکارپوررضوان احمد خان کی ہدایات پر جرائم پیشہ افراد کے خلاف تھانہ نیوفوجداری،تھانہ لکھی در اور تھانہ اسٹورٹ گنج کی پولیس نفری سمیت 15مددگار کی جانب سے مشترکہ کاروائی کرتے ہوئےشہر کے مختلف مقامات پر چھاپے مارکرڈیڑھ سو کے قریب مشتبہ افراد کو گرفتارکیا گیاتھا۔
ضلع شکارپور خصوصاً تحصیل خانپور کے علاقوں گڑھی تیغو،کوٹ شاہو،ناپر کوٹ اور محمودآباغ سمیت ملحقہ کچے کے علاقوں میں ڈکیتی اور اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے خلاف پولیس کی جانب سے سخت گیر آپریشن کرنے کا فیصلہ بھی آخری مراحل میں داخل ہوچکا تھاکہ سابق آئی جی سندھ سید کلیم امام سمیت ایس ایس پی شکارپور رضوان احمد خان کا تبادلہ ہونے کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔خانپورکے کچے سمیت دیگرعلاقوں میں پولیس کی جانب سے کئی بار آپریشن کیا جا چکا ہے لیکن ناقص حکمتِ عملی اور پولیس کے اندر کالی بھیڑوں کی کی جانب سےمخبری پر پولیس کے کئی جوان آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی گولیاں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ان میں ڈی ایس پی خانپور راؤ شفیع اللہ،ایس ایچ او لکھی غلام شاہ غلام مصطفیٰ میرانی اور اے ایس آئی ذوالفقار پنہورسمیت کئی پولیس اہلکارشامل ہیں۔ سابق ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمدنے س ان وارداتوں کے بااثرسہولت کاروںکے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی لیکن اس کی پاداش میں ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ ایس ایس پی ڈاکٹررضوان احمد نے اپنی تعیناتی کے دوران پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کیاجس کی پہلی قسط میں پچاس پولیس اہلکاروں کو ضلع بدر کردیا گیاتھا۔
ذرائع کے مطابق شکارپور کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے پاس پولیس کے روایتی، فرسودہ اور بوسیدہ ہتھیاروں کے مقابلے میں جدید ترین اسلحہ ہے جن میںاینٹی ایئر کرافٹ گنیں اور راکٹ لانچرز تک شامل ہیں جس کی وجہ سے پولیس کو ہر تبہ ہ ناکامی ہربار مقابلے میں ناکام ہوکر لوٹ آتی ہے۔ اس پرمزید ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ سندھ بھر میں پولیس کے اندر موجود کالی بھیڑیں جرائم پیشہ عناصرسے رابطے میں رہنے کے باعث پولیس کی کارروائیوں کی انہیں پہلے سے ہی بھنک پڑجاتی ہےاور وہ وہاں سے فرار ہوجاتے ہیں ۔ اس صورت حال پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہےورنہ خدشہ ہے پورا شکار شہر اغواکاروں کے ہاتھوں یرغمال بن جائے گا۔