محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
منقولہ و غیر منقولہ جائیداد، اثاثوں اور بڑے خرچ کے لیے سی این آئی سی/ نیکوپ/ پاسپورٹ کو لازمی قرار دیا جائے، متعلقہ آرگنائزیشنز، شعبہ جات، ادارے بشمول یوٹیلٹی کمپنیز، بینکوں، نادرا اور آف شور ٹرانزیکشن سے متعلق معلومات حاصل کرنے والوں کو سہ ماہی بنیادوں پر ایف بی آر کو مقررہ معلومات جمع کرانی چاہئیں۔
ایف بی آر کو ود ہولڈنگ اسٹیٹمنٹ اور سرکاری سپلائی کی تفصیلات سے متعلق معلومات جمع کرنا ہوں گی ،تھرڈ پارٹی کی معلومات پر ایک ڈیٹا بیس برقرار رکھنا چاہیے۔ موجودہ ٹیکس دہندگان کا مکمل ڈیٹا جمع کیا جائے، اس کے ساتھ نئے ٹیکس پیئرز تلاش کرنے چاہئیں، ریٹرن آف انکم کی فائلنگ یقینی بنائی جائے،ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے ڈسٹری بیوٹرز کے لیے ٹرن اوور ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کی جائے
عبدالقادر میمن
صحت کا بجٹ ایک فیصد سے بھی کم ہے اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صحت کے بجٹ کو بتدریج بڑھاتے ہوئے 6فیصد تک لایا جائے، بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے پر توجہ دینا ہو گی
اگر آپ اپنے شہریوں کو پینے کیلئے صاف پانی فراہم کر دیں گے تو آپ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر قابو پا لیں گے،تمام صوبوں کے دارالحکومتوں میں کم از کم ایک وائرولوجی لیب کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ وائرل بیماریوں جیسے سوائن فلو، ڈینگی، برڈ فلو، چکن گنیا، ذیکا وائرس، کانگووائرس، کورونا وائرس اور دیگر وائرس کی فوری تشخیص کی جاسکے، ادویات کم قیمت پر آسانی سے دستیاب ہو نی چاہئیں،بجٹ میں ادویات پر ٹیکس کم کرنا ہوگا تاکہ ادویات کی قیمتیں کم ہو سکیں،پاکستان بھرمیں اس وقت موجودہ ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے زیادہ بجٹ رکھنا ہو گا،صحت کے بجٹ کا زیادہ تر حصّہ علاج کے بجائے احتیاط پر خرچ کیا جانا چاہیے
ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد
انکم ٹیکس کا دائرہ وسیع کرکے زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس وصول کیا جائے،جی ایس ٹی کی شرح کم کرکے 5 فی صد کی جائے۔
امریکا کی اکثر ریاستوں میں سیلز ٹیکس 4 فی صدہے، ٹیکس افسروں اور تمام دیگر سرکاری ملازموں کے صوابدیدی اختیارات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اس سے بدعنوانی میں کمی ہوگی،کرپشن کا خاتمہ، سستے داموں فوری انصاف کی فراہمی،امن و امان میں بہتری اور اچھی حکم رانی قائم کرنے کے لئے اہل اور ایماندار افراد کا تقرر میرٹ پر کیا جائے، تمام حکومتی قوانین اور فارم اردو زبان میں شائع کئے جائیں،لیبر قوانین ایس ایم ایز کے لئے آسان کئے جائیں۔ سیسی اور ای او بی آئی کی رجسٹریشن کی تعداد کم سے کم 25افراد پر مقرر کی جائے
ظفر اقبال
نئے سال کا بجٹ 12جون کو پیش کیا جائے گا۔ معاشی بدحالی، اہداف کے حصول میں ناکامی اور کورونا وائرس وبا کے اثر کے پیش نظر توقع کی جارہی ہے کہ بجٹ ترجیحات میں تبدیلی آئے گی، پرانی روش چھوڑ کر معاشی اصلاحات اور عوام دوست پالیسیاں اختیار کی جائے گی۔ خصوصاً صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات کی توقع ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت کا بجٹ تیار کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے فروغ اور ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے بھی نئے اقدامات کی امید روا رکھی جارہی ہے۔ ’’حکومت کی بجٹ ترجیحات کیا ہونی چاہیں‘‘ اس حوالے سے ٹیلی فونک جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالقادر میمن، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد اور اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز الائنس کے صدر ظفر اقبال نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
عبدالقادر میمن
صدر، پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن
ٹیکس نیٹ میں توسیع اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں اضافے کے حوالے سے پاکستان ٹیکس بار کے چیئرمین عبدالقادر میمن کا کہنا تھا کہ اس وقت علاقائی اور دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کم تر ہے، جس کی وجہ سے معیشت کے مختلف حصوں میں سنگین عدم مساوات پیدا ہو رہی ہے۔ جی ڈی پی میں اپنے حصے کے اعتبار سے معاشرے کے تمام طبقات اپنی آمدنی پر ٹیکس کا جائز حصہ ادا نہیں کر رہے۔ ایکٹیو ٹیکس پیئرز کی تعداد قابل ذکر حد تک کم ہے اور ٹیکس بیس میں تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قسم کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد، اثاثوں اور بڑے خرچ کے لیے سی این آئی سی/ نیکوپ/ پاسپورٹ کو لازمی قرار دیا جائے۔ متعلقہ آرگنائزیشنز، شعبہ جات، ادارے بشمول یوٹیلٹی کمپنیز، بینکوں، نادرا اور آف شور ٹرانزیکشن سے متعلق معلومات حاصل کرنے والوں کو سہ ماہی بنیادوں پر ایف بی آر کو مقررہ معلومات جمع کروانی چاہئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایف بی آر کو ود ہولڈنگ اسٹیٹمنٹ اور سرکاری سپلائی کی تفصیلات سے متعلق معلومات جمع کرنی چاہئیں اور تھرڈ پارٹی کی معلومات پر ایک ڈیٹا بیس برقرار رکھنا چاہیے۔ نیز موجودہ ٹیکس دہندگان کا مکمل ڈیٹا جمع کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی نئے ٹیکس پیئرز تلاش کرنے چاہئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 111(4) کے تحت صرف سرمایہ کاری کے لیے باقاعدہ بینکنگ چینلز کے ذریعے آنے والے غیر ملکی ترسیلاتِ زر کو چھوٹ دی جائے۔
آرڈیننس 2001ء کی شق 114کے تحت ریٹرن آف انکم کی فائلنگ یقینی بنائی جانی چاہیے۔ امکانی ٹیکس دہندگان کو کھسکنے سے بچانے کے لیے کم از کم پانچ برس کا قانونی دائرہ ٔاختیار ہونا چاہیے اور یہ علاقائی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے ڈسٹری بیوٹرز کے لیے ٹرن اوور ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کر دی جائے اور ڈسٹری بیوٹرز، ڈیلرز، سب ڈیلرز اور ری ٹیلرز کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ معیشت کی مضبوطی کیلئے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی کے حوالے سے تجویز دیتے ہوئے عبدالقادر میمن کا کہنا تھا کہ اس وقت کمپنیز پر زیادہ سے زیادہ 29فیصد انکم ٹیکس کی شرح ہے۔ اس شرح میں ہر سال ایک فیصد کے اعتبار سے کمی کی جائے اور بتدریج کمی کرتے ہوئے اسے 22فیصد کر دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کاروبار میں آسانی اور کاروبار پر آنے والی لاگت میں کمی کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس ریجیم میں تبدیلی کی جائے۔ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکسز اور ان کے ریٹس کی کیٹیگریز میں کمی سے ود ہولڈنگ ٹیکس ریجیم کو سادہ بنایا جا سکتا ہے۔ ود ہولڈنگ ایجنٹ کو طاقتور آئی آر آئی ایس کے ذریعے سہولت فراہم کی جائے اور ٹیکس پیئر کو ٹیکس کی کٹوتی بھی دکھائی جائے۔ تما ود ہولڈنگ ٹیکسز کے لیے ٹیکس کے ریٹس قانون کی ایک شق کے تحت کم کیے جانے چاہئیں اور امتیاز صرف ایکٹیو اور نان ایکٹیو ٹیکس پیئرز کی بنیاد ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں ود ہولڈنگ ایجنٹس کو ٹیکس کریڈٹ کی شکل میں ترغیبات دینی چاہئیں۔ ہر رجسٹرڈ فرد کو آئی آر آئی ایس پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے چالان دستیاب ہونے چاہئیں۔ تمام سرکاری شعبہ جات بشمول محکمہ ٔدفاع کو اپنا ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔ سیلز ٹیکس سمیت دوسرے ٹیکسز کو ٹیکس کی ودہولڈنگ کلیکشن سے الگ کر دینا چاہیے۔ انہوں نے مزید تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ہر فرد کی جائیداد سے ہونے والی آمدنی پر مجموعی کرائے کا 15فیصد یکساں ٹیکس عاید کیا جائے۔ عبدالقادر میمن نے یہ تجویز بھی دی کہ ایف بی آر کو فری ٹیکس نمبرز کی ایک الگ فہرست جاری کرنی چاہیے، جو ود ہولڈنگ ٹیکس کے جواب دہ نہ ہوں۔ اس سلسلے میں ایک ایس آر او جاری کرنا چاہیے، تاکہ ود ہولڈنگ ایجنٹس کوفیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جون 2017ء تک مینوفیکچرر کو رجسٹرڈ افراد کو 90فیصد فروخت پر ٹیکس کریڈٹ 3فیصد دستیاب تھا، اسے بحال کیا جانا چاہیے اور 5فیصد تک بڑھانا چاہیے، تاکہ معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں آسانی ہو۔ عبدالقادر میمن کا کہنا تھا کہ سیکشن 65بی کے تحت ٹیکس کریڈٹ بحال کیا جائے اور سیکشن 65ای کو فیکٹری بلڈنگ اور مینوفیکچرنگ سے متعلق انفرااسٹرکچر تک توسیع دی جائے۔ نیز آرڈیننس کی شق 65بی، 65ڈی اور 65ای کو 30جون 2025ء تک توسیع دی جائے۔ انہوں نے مزید تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ کم سے کم ٹیکس ریٹ 1.5سے 1فیصد تک کم کیا جائے۔ سیکشن 113(1) ای میں ہونے والی تبدیلیوں کو پرانی حالت میں لانا چاہیے کہ جب مجموعی نقصان کی صورت میں منہائی کی چارجنگ سے قبل کمپنیوں کو ٹرن اوور ادا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ کووڈ 19کی وجہ سے کم سے کم ٹیکس یو / ایس 113کی ادائیگی صرف 2020ء کیلئے مستثنیٰ قرار دی جائے۔ انہوں یہ تجویز بھی دی کہ اس وقت کاروبار سے ہونے والی آمدنیوں کا حساب تین ٹیکس ریجیمز سے لگایا جا رہا ہے، جن میں نارمل ٹیکس، ٹرن اوور پر کم سے کم ٹیکس اور متبادل کارپوریٹ ٹیکس شامل ہیں۔
لہٰذا کمپنیز کی صحیح ٹیکسیشن کی فراہمی کے لیے اے سی ٹی کو ختم کیا جا سکتا ہے اور اس طرح ان کمپنیز کو کیش فلو میں ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں آرڈیننس کے سیکشن 214سی کے تحت انکم ریٹرن کے انتخاب کا اختیار صرف ایف بی آر کے پاس ہونا چاہیے۔ سیکشن 122(5A) میں دی گئی دو اصطلاحات ریٹرنز کے بھیس میں ’’غلط‘‘ اور ’’ ریونیو کے نفع میں مضر‘‘ کو واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ٹیکس پیئرز ہراساں نہ ہوں۔ آرڈینینس 2001ء کے سیکشن 122(4) کے تحت تخمینہ کاری میں ترمیم کے لیے مدت دو سال تک کم کی جانی چاہیے۔ اگر کمشنر ایک مرتبہ اصل حکم نامے میں ترمیم کر دے تو اس کے پاس بار بار قوانین میں ترمیم کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس کے مشترکہ آڈٹ اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی مانیٹرنگ سے ٹیکس پیئرز کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے اور اس طرح کاروبار کی لاگت میں بھی کمی واقع ہو گی۔ متاثرہ فرد کو اس بات کا حق ہونا چاہیے کہ وہ اے ڈی آر سی کمیٹی کے فیصلے کو قبول کرے یا پھر اپنی شکایات کے حل کے لیے تمام دستیاب اپیلیٹ فورمز سے مدد طلب کرے۔ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ رقم کا 10فیصد ادا کرنے کی شرط اپیل کا فیصلہ ہونے تک ختم کی جائے اور اپیلیٹ کی سروس کی تاریخ کے 30روز کے اندر سی آئی آر (اے) آرڈر پر کوئی ریکوری نہیں ہونی چاہیے۔ سی آئی آر کی جانب سے ٹیکس پیئر کا تخمینہ منسوخ کیے جانے سے قبل قانونی طور پر ٹیکس پیئر کو کم از کم 15 روز کی مہلت دینی چاہیے اور اس سلسلے میں پہلی اپیل کا فیصلہ ہونے کے بعد کسی بھی شارٹ فال کی ریکوری نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ سیکشن148کے تحت ان تمام ٹیکس پیئرز کو استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جا سکتا ہے کہ جو پلانٹ، مشینری اور آلات درآمد کرتے ہیں، کیوں کہ یہ اثاثے صرف ایک صنعتی ضمانت کار کی جانب سے استعمال ہوں گے یا پھر متبادل کے طور پر ٹیکس کی شرح امپورٹ ویلیو کے ایک فیصد کم کر دی جائے۔ ڈبلیو ایچ ڈی کی یکساں شرح دونوں کیٹیگریز کے درآمد کنندگان پر لاگو کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں پچھلے برسوں کے ری فنڈز کی ایڈجسٹمنٹ بھی استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ خدمات فراہم کرنے والی تمام کمپنیز کو کم از کم ٹیکس ریجیم سے استثنیٰ دیا جائے اور انہیں نارمل ٹیکس ریجیم میں لایا جائے یا پھر تمام خدمات فراہم کرنے والوں کے لیے کم سے کم ٹیکس ان کے ٹرن اوور پر 3فیصد مقرر کر دیا جائے۔ اختیارات کے غلط استعمال اور ٹیکس پیئر کے حقوق کے تحفظ کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ ٹیکس آفیسر کو ایف بی آر کے ای پورٹل پر دستیاب معلومات فراہم کرنے سے روکنا چاہیے، البتہ مطلوبہ معلومات مخصوص فرد کو فراہم کی جا سکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرڈیننس 2019ء کے ذریعے گرین فیلڈ انڈسٹریز کے لیے ترغیبات کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم ان شقوں نے اس منصوبے کو غیر ضروری بنا دیا۔ جیسا کہ ایسی اراضی پر قیام کہ جو پہلے کبھی کسی تجارتی، صنعتی یا مینوفیکچرنگ کے مقصد کے لیے استعمال نہ ہوئی ہو اور ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کہ جو پہلے پاکستان میں استعمال نہ ہوا ہو۔ انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ منصوبے کو قابل عمل بنانے کے لیے ان شرائط کو ختم کیا جائے یا پھر ان میں تبدیلی لائی جائے۔ میر ی ایک تجویز یہ ہے کہ کورونا وبا میں فرنٹ لائن ڈاکٹروں کو ٹیکس کریڈٹ دیا جائے۔ جو ٹیکس دہندہ کے لئے دس فیصد اور نئےٹیکس پیئرز کے لئے پندرہ فیصد ہو۔
ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد
سیکریٹری جنرل،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن عر صہ دراز سے پاکستان کے ہیلتھ ڈیلیوری سسٹم کی زبوں حالی پر ہمیشہ آواز اٹھاتی رہی ہے اور حکمرانوں کو ہیلتھ ڈیلیوری سسٹم کی بہتری کیلئے مشورے دیتی رہی ہے لیکن افسوس کہ ہماری بات اقتدار کے ایوانوں میں کبھی نہیں سُنی گئی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ہمیشہ سے کہتی آرہی ہے کہ ہمارے ہیلتھ ڈیلیوری سسٹم کو بہترین بنانے کیلئے ہیلتھ کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ اضافہ WHO سفارشات کی روشنی میں ٹوٹل GDPکا 06 فیصد ہونا چاہیے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں صحت کا بجٹ ایک فیصد سے بھی کم ہے اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صحت کے بجٹ کو ایک دم نہ سہی لیکن بتدریج اس کو بڑھاتے ہوئے آنے والے چند سالوں میں اس کو 06فیصد تک لایا جائے تاکہ اس ملک کے ہر فرد کو صحت کی سہولیات میسر ہوں کیونکہ صحت عوام کا بنیادی حق ہے اس لئے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو صحت کی تمام تر سہولیات بہتر پہنچائیں۔
ہم یہاں یہ بھی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں صحت کے نظام کی بہتری کیلئے اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی اور پھر ان ترجیحات پر ایمانداری سے رقم خرچ کرنا ہوگی۔سب سے پہلے ہمیں اپنے بجٹ کا کم از کم 50 فیصد حصّہ احتیاط (prevention) پرخرچ کرنا ہوگا کیونکہ علاج کی بجائے ہمیں احتیاط کی طرف جا نا ہو گا۔ ہمیں بیماریوں کے پھیلائو کو روکنے پر توجہ دینا ہو گی مثلاً اگر آپ اپنے شہریوں کو پینے کیلئے صاف پانی فراہم کر دیں گے تو آپ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر قابو پا لیں گے جو آپکے کل بیماریوں کے بوجھ کا 50-60فیصد حصّہ بنتا ہے ۔ اسی طرح مچھروں کے خاتمے سے مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں یعنی ملیریا ، ڈینگی اور چکن گونیا پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں اپنے بنیادی (Basic) اور پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولیات پر زیادہ پیسے خرچ کرنا ہوں گے تاکہ مریض کا علاج بنیادی مراکز صحت اور تعلقہ ہسپتالوں میں ممکن ہو سکے ورنہ مریض چھوٹی سی چھوٹی بیماری کے علاج کیلئے بھی بڑے ہسپتالوں (ٹرچری کئیر) کا رُخ کرتا ہے لیکن اگر بنیادی مراکز صحت جدید علاج کی سہولیات سے لیس ہونگے تو مریض اپنے گھر کے قریب ہی علاج کر وایا گا جب اس کو گھر کے قریب علاج کی سہولیات میسر ہونگی تو وہ بڑے ہسپتالوں کا رُخ نہیں کریں گا۔بڑے ہسپتالوں میں صرف پیچیدہ امراض میں مبتلا مریض ہی آنے چاہییں۔ اس سے ہمارے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہو جائے گا لہذا ان بڑے ہسپتالوں کا بجٹ بھی کم ہو گا۔ اس لئے ہم اپنی بات دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو بنیادی اور پرائمری ہیلتھ پر زیادہ توجہ دینا ہو گی اور ان کے لئے زیادہ فنڈ مختص کرنا ہوں گے۔
پاکستان میں وبائی امراض اور بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں میں حالیہ برسوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس ملک میںایک بھی مکمل وائرولوجی لیب نہیں ہے صرف نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں ایک وائرولوجی لیب کا شعبہ قائم ہے۔ اس پس منظر میں تمام صوبوں کے دارالحکومتوں میں کم از کم ایک وائرولوجی لیب کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ وائرل بیماریوں جیسے سوائن فلو، ڈینگی، برڈ فلو، چکن گنیا، ذیکا وائرس، کانگووائرس ، کورونا وائرس اور دیگر وائرس کی فوری تشخیص کی جاسکے۔ ان لیبارٹریوں کے قیام کیلئے اس بجٹ میں رقوم مختص کی جانی چاہییں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں دوائوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کے پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے دوائوں کی قیمتوں کا تعین ہمارے ہاں کوئی طریقہ کار واضع نہیں کیا گیا ۔کوئی معیار ی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ ایک ہی قسم کی دوا 20روپے میں بھی مل جاتی ہے اور اُسی قسم کی دوسری دوا 100روپے میں بھی فروخت ہو رہی ہوتی ہے ۔مزید ستم یہ ہے کہ ادویات کی قیمتیں بڑھانے کیلئے مارکیٹ سے ادویات غائب کر دی جاتی ہیں اور اُن کی مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ انسانی زندگی بچانے والی ضروری ادویا ت بھی غائب کر دی جاتی ہیں جبکہ اس قسم کی ادویات کم قیمت پر آسانی سے دستیاب ہو نی چاہیے۔ اس بجٹ میں ادویات پر ٹیکس کم کرنا چاہیے تاکہ ادویات کی قیمتیں کم ہو سکیں۔
پاکستان بھرمیں اس وقت موجود ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کیلئے ہمیں زیادہ بجٹ رکھنا ہو گا۔ ان ہسپتالوں میں سیوریج کا نظام ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے ہمیں ہسپتالوں میں صاف پانی کی فراہمی کو یقنی بنانا ہو گا ۔عام آدمی کیلئے ادویا ت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دیگر طبی سہولیات کی فراہمی کو بھی یقنی بنانا ہو گا ۔ہمیں اپنے ہسپتال اس قابل بنانا ہو نگے کہ تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز سیاستدان اور بیوروکریٹ اپنا اور اپنے گھر والوں کا علاج انہی ہسپتالوں میں کرا سکیں بلکہ باہر کے ملک میں علاج کروانے پر پابندی عائد کر دینی چاہیے تاکہ مقتدر لوگ سرکاری ہسپتالوں کو اس قابل بنائیں کہ یہاں ہر قسم کا علاج ممکن ہو اور عوام و خواص یہی سے اپنا علاج کر وا سکیں ۔
پاکستان کو بہت سے ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے جس سے انسانی زندگی اور صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے، ان ماحولیاتی مسائل میں آلودہ پانی، زمینی آلودگی، پانی کی کمی، گلوبل وارمنگ کے اثرات، فضائی آلودگی، صوتی آلودگی اور قدرتی آفات شامل ہیں۔ حالیہ گلوبل انوائرمنٹل پرفارمنس انڈیکس (ای پی آئی) رینکنگ میں پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں فضائی آلودگی میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔ایک اور ماحولیاتی مسئلہ کچرا جمع کرنا اور اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کا ہے۔ ہمارے اسپتال، فیکٹریاں اور میونسپل کارپوریشن ہزاروں ٹن کچرا روزانہ کی بنیاد پر سمندر ، دریا اور جھیلوں میں ڈال رہے ہیں جو آبی مخلوق اور ان لوگوں کے لئے انتہائی خطرناک ہے جن کا سارا دارومدار پانی کے ان ذخائر پر ہے۔حکومت کو اب اس مسئلے پر سنجیدہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اور اس کے حل کیلئے بجٹ میں زیادہ پیسے مختص کرنے چاہییں۔پاکستان میں ہر 10 میں سے 4 بچے جو 5 سال سے کم عمر ہیں ناقص غذائیت کا شکار ہیں جس کے باعث عمر کے حساب سے ان کا وزن کم ہوتا ہے جبکہ 17.7فیصد بچے غذائی قلت کے باعث عمر کے حساب سے اُن کے قد میں کمی رہ جاتی ہے لہذا بچوں کی صحت اور غذائیت پر ہمیں توجہ دینی ہو گی۔پاکستان اس وقت دنیا کا چھٹا گنجان آباد ملک ہے اس کی آبادی 219 ملین افراد سے زائد پر مشتمل ہے۔ اس کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 فیصد سالانہ ہے اگرآبادی کو اسی رفتار سے بڑھنے دیا گیا تو 2050ء میں پاکستان کی آبادی 400 ملین سے تجاوز کرجائے گی۔ ملک پر اتنے افراد کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کا اضافی بوجھ پڑے گا جیسے ان افراد کی غذائی ضرورت ، صحت، تعلیم اور گھر کی سہولت کی فراہمی وغیرہ۔ بدقسمتی سے ہمارے منصوبہ بندی کرنے والے افراد اورادارے اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دے رہے جس کے مستقبل میں بہت بھیانک نتائج پوری قوم کو برداشت کرنا پڑیں گے۔
لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ آبادی پر قابو پانے کیلئے ہم بہبودہ آبادی پروگرام پر توجہ دیں اور اچھے نتائج کے حصول کیلئے بجٹ میں اس پروگرام کیلئے زیادہ فنڈز مختص کریں ۔اس وقت پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی کرونا وائرس جیسی مہلک وباء کا سامنا ہے۔ پچھلے تین چار ماہ سے پاکستان اس وباء کا شکا ر ہے۔ اس وباء کے پھیلائو سے ہمارے نظام صحت کی ابتر صورتحال مزید کھل کر سامنے آگئی ہے ۔ اس وقت ہمیں وینٹی لیٹرز ، تربیت یافتہ عملے اور ڈاکٹرز کی کمی کا سامنا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارا سارا نظام صحت کرونا سے متاثرہ مریضوں پر لگا ہوا ہے اور اس صورتحال میں غیر کرونا مریض یا دوسرے لفظوں میں کرونا سے ہٹ کر عام مریض بُری طرح نظر انداز ہو رہے ہیں ہم صیح معنوں میں کرونا اور نان کرونا مریضوں کو مینج نہیں کر پا رہے اس وقت حکومت نے تقریباً تمام تر کاروبار کھول دیئے ہیں اور لوگ کہیں بھی SOPsپر عمل کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اس لئے اب کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد 61,227 اور کرونا سے مرنے والوں کی تعداد 1260 تک جا پہنچی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کو لینے سے منع کیا جا رہا ہے ۔ ایم ایس میو ہسپتال لاہور کے مطابق اس وقت ہسپتال میں وینٹی لیٹرز کی کمی ہو رہی ہے ۔لہذا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں صحت کا بجٹWHO کی سفارشات کے مطابق مختص کیا جائے اورہمارے صحت کے بجٹ کا زیادہ تر حصّہ علاج کے بجائے احتیاط پر خرچ کیا جانا چاہیے۔
ظفر اقبال
صدر ، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز الائنس
پاکستان میں 100 میں سے 96 ادارے SMES کے ہوتے ہیں جن کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے ۔ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ کام کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان اداروں کو حکومتی اداروں کی طرف سے کوئی تعاون، سرپرستی یا رہنمائی اور مدد نہیں ملتی۔ ان کو اپنے وجود کی بقا کے لئے بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ساری دنیا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری، صنعتی، تجارتی ادارے ہر ملک میں معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی اور Engine of Econjomy ہوتے ہیں۔ ان کو فروغ دیئے بغیر کسی بھی ملک میں اقتصادی اور صنعتی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک مثلاً امریکہ، کینیڈا، یورپ کے ممالک، جاپان، کوریا، ترکی، ملائشیا، آسٹریلیا وغیرہ ہر ملک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے Small & Medium Enterprisesکو فروغ دیا اور دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوگئے۔
پاکستان میں SMES کی Value Addition 38% ہے، GDP میں ان کا حصہ 40% ہے۔ ایکسپورٹ کی مصنوعات میں 35فی صد اور غیرزراعتی شعبہ کے بعد روزگار مہیا کرنے میں 90 فی صد حصہ ہوتا ہے۔ SMES کو کم سرمایہ کاری، مہنگی بجلی، گیس، پانی ، خراب امن عامہ، مشکل اور مہنگا انصاف، کمزور ٹیکنالوجی اور کام کرنے والے افراد کی کم تعلیمی صلاحیت، Low Value Addition اور بین الاقوامی ایکسپورٹ مارکیٹ کے بارے میں معلومات نہ ہونا اور بنیادی ڈھانچہ کمزور ہونے کے سبب ادارے کی ترقی میں مشکلات درپیش رہتی ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کی مثال ہے وہاں گھڑیاں بنانے کی انڈسٹری Cottage Industry سے شروع ہوکر میڈیم انٹرپرائز بن گئی اور دنیا کی سب سے مشہور اور مہنگی ترین گھڑیاں وہاں بنائی جاتی ہیں جن کو دنیا کے ہر ملک میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ انڈسٹری سوئٹزرلینڈ کی، اقتصادی ترقی اور شہرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے ہماری SMES کو حوصلہ افزا ماحول مہیا کیا جائے اور اسکی راہ میں تمام مشکلات اور رکاوٹیں دور کردی جائیں وہ فروغ پا کر میڈیم انٹرپرائز بن جاتا ہے اور ہر میڈیم انٹرپرائز ترقی کرکے کامیابی سے Large Enterpriseبن جاتا ہے۔ اس طرح ملک کی معیشت اور صنعت کو ترقی کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری ختم یا بہت کم ہوجاتی ہے اور حکومت کو ملک کی اقتصادی ترقی کی وجہ سے Taxes میں وصولی بڑھ جاتی ہے جس سے وہ ملک اور قوم کو بہتر بنیادی سہولتیں مہیا کرسکتی ہے۔یہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں Small Enterprises کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے کسی بھی حکومت نے ان کی مدد نہیں کی اور وہ اپنے کاروبار کو بہت مشکلات کی وجہ سے اپنی بقا کے لئے سخت جدوجہد کرتے ہیں۔
بے شمار ادارے نقصانات برداشت نہیں کرسکتے اور وہ دیوالیہ ہوکر کام بند کردیتے ہیں۔ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ نچلے درجہ کے ہونے کی وجہ سے ان کے مالکان کی اعلیٰ حکام، صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیروں تک پہنچ اور تعلقات نہیں ہوتے، اپنی مشکلات کے حل کے لئے ان سے کسی قسم کا تعاون یا مدد حاصل نہیں کرسکتے جبکہ Large and Mega Industries کے مالکان کے اعلیٰ حکام سے بہت قریبی دوستانہ تعلقات ہونے کی وجہ سے ان سے متعلق شعبوں اور اپنے اداروں کی راہ میں رکاوٹیں دور کرانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
پاکستان میں جتنے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور اور نائب صدور منتخب ہوتے ہیں وہ بہت امیر، ارب پتی ہوتے ہیں ان کا تعلق بھی Large and Mega Industries سے ہوتا ہے اور وہ صرف اپنے اداروں کا اور ان ہی شعبوں کی مشکلات ختم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اور کوئی بھی Small & Medium Enterprises کے معاملات اور ان کی مشکلات ختم کرنے کے لئے پرخلوص کوششیں نہیں کرتا۔ حکومت کو Small & Medium Enterprises کے لئے ہر صوبے میں ان کے لئے الگ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری قائم کرنے چاہیں اور اس میں صرف SMES سے متعلق حضرات کو ان کے عہدوں کے لئے اہل بنایا جائے۔ ہمارے ملک میں SMES کو مالی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ کمرشل بنک اسمال انٹراپرائزز کو قرضہ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور قرض لینے کے لئے ان کا بینکنگ نظام پیچدہ و مشکل ہے۔ کئی بنک جو حکومت نے Small Enterprises کو قرض دینے کے لئے قائم کئے تھے وہ ناکام ہوکر بند ہوگئے۔
حکومت کو انڈسٹریل پارک تعمیر کرنے چاہیں جن میں تمام بنیادی سہولتیں عمارات، بجلی، پانی، گیس ، فون ، انٹرنیٹ کی سہولیات سستے داموں SMES کو مہیا کرنی چاہیں۔SAMEA کے وفود کی گورنر اسٹیٹ بنک سے ملاقاتیں ہوئیں اور گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے SMES کے لئےPrudential Rules Regulationsترتیب کرائے۔ لیکن اس میں Colateral کی شرط کی وجہ سے اسمال انٹرپرائز کے لئے بنکوں سے قرض حاصل کرنا مشکل ہے۔ اس شرط کو ختم ہونے سے SMES کو قرض حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔ بنیادی سہولتوں بجلی، گیس، پٹرول، پانی کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے اور ان کے نرخ کم کئے جائیں تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے اور صنعتیں فروغ پاسکیں، روزمرہ کی اشیاء کے دام کم ہوسکیں۔انکم ٹیکس کا دائرہ وسیع کرکے زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس وصول کیا جائے۔GST یا VAT کی شرح کم کرکے 5 یا 6 فی صد کی جائے۔ (امریکہ کی اکثر ریاستوں میں سیلز ٹیکس 4 فی صدہے)۔رجسٹرڈ ٹیکس ادا کرنیو الوں سے Witholding Tax کی وصولی کا سلسلہ ختم کیا جائے تاکہ صنعتی اور تجارتی اداروں کے لئے آسانی مہیا ہوسکے، پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کو Tax Collectionاور Tax Reporting کا کام بھی سونپ دیا گیا ہے جو بہت زیادتی کا باعث ہے۔ٹیکس افسروں اور تمام دیگر سرکاری ملازموں کے صوابدیدی اختیارات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اس سے بدعنوانی میں کمی ہوگی۔Fishries کی صنعت اور اسکی ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے بجٹ میں ترغیبات اور سہولتیں مہیا کی جائیں تاکہ عوام کو Sea Food سستے داموں مل سکے اور اسکی ایکسپورٹ بھی بڑھ سکے۔Circular Debt کا حجم اب 450بلین روپے تک ہوگیا ہے، اسکو فوراً ختم کیا جائے۔کرپشن کا خاتمہ، سستے داموں فوری انصاف کی فراہمی، Law & Orderمیں بہتری اور Good Governanceقائم کرنے کے لئے اہل اور ایماندار افراد کا تقرر میرٹ پر کیا جائے۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی ہدایت پر منی لانڈرنگ کے حوالہ سے زرمبادلہ کی ترسیل پر سخت پابندیاں لگ رہی ہیں اس سے زرمبادلہ ملک میں لانے اور لیجانے سے اس میں مشکلات اور کمی واقع ہوگی۔ Foreign Exchange پاکستان میں لانے میں مشکلات پیدا نہ کی جائیں اور اسکو آسان بنایا جائے۔بنک کی شرح سود 5 فی صد سے کم کی جائے۔تمام حکومتی قوانین اور فارم اردو زبان میں شائع کئے جائیں۔12 لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی تک محدود آمدنی کے اشخاص اور ادارے (NGOs, AOPS) کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ کیا جائے۔Withholding Tax، Indenting Companies اورExport Companies پر بطور فائنل ٹیکس اچھی اسکیم ہے اسکو جاری رکھا جائے اور جہاں دوسرے اسی قسم کے سیکٹر ہیں ان پر بھی لاگو کیا جائے۔لیبر قوانین SMESکے لئے آسان کئے جائیں۔ SESSI اور EOBI کی رجسٹریشن کی تعداد کم سے کم 25افراد پر مقرر کی جائے۔SMES کی Defination کو متعین کیا جائے۔Multicipity and Complexity of Institutions کو ختم کیا جائے۔ ہمارے ملک میں بہت بڑی تعداد میں مختلف حکومتی ادارے قائم ہیں SMES کو ان سے deal کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایک چھوٹا ادارہ جس میں 5 یا 6 افراد کام کرتے ہیں ان کا اس سے deal کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ SMES میں زیادہ تر افراد کم تعلیم یافتہ اور نا تجربہ کار ہوتے ہیں۔ بہت سے افراد کو انگریزی اور Computer سے ناواقفیت ہونے کی وجہ سے اتنے اداروں سے deal کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ SAMEA کے وفود نے مختلف اہم افسران جن میں گورنر، وزیر شامل ہیں ان سے گزارش کی کہ تمام اداروں کے قوانین انگریزی کی بجائے اردو جو پاکستان کی قومی زبان ہے اس میں شائع ہونی چاہیں۔ صدر جنرل مشرف نے اپنے دور میں کہا تھا کہ وہ Multiplicity & Complexity of Govt Institutions اور ان کی تعداد کم کریں گے لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوسکا تاکہ SMES کے افراد اپنا وقت اپنے اداروں کو ترقی کے لئے دے سکیں اور ان کی توانائی حکومتی اداروں سے نمٹنے میں ضائع نہ کریں۔ حکومتی اداروں میں ایک دفعہ رجسٹر ہونے کے بعد اس سے نکلنا بہت مشکل بنایا گیا ہے۔ SMES کے لئے Exit کا سادہ اور آسان طریقہ کار ہر حکومتی ادارے میں ہونا چاہئے۔
73 سال کا عرصہ ہوگیا ہے آج تک ہمارے ملک میں SMES کے بارے میں صحیح تشریح نہیں ہوسکی۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ Medium Enterprises اور Small Enterprises یا Micro Enterprises اور میڈیم انٹراپرائز میں کتنے افراد کام کرتے ہوں تو وہ کس Category میں شمار ہوں گے۔ SMES میں کام کرنے والے افراد کو بزنس کو فروغ دینے اور ایکسپورٹ Value additionکے بارے میں ضروری معلومات مہیا کی جائیں۔
پاکستان میں SMES جن شعبوں میں ترقی دے سکتے ہیں ان میں فشریز، IT، مواصلات، چمڑے کی صنعت، ٹیکسٹائل، گارمنٹس، قالین سازی، انجینئرنگ اشیاء، بجلی کے پنکھے، اٹوموبائل کے پارٹس، ڈیری اور پولٹری فارم، Gems اور جیولری، آلات جراحی، باغبانی، اسپورٹس کا سامان، فرنیچر، تعمیراتی سامان، سیمنٹ ، ٹورازم ہیں۔