جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ جو الیکشن ہوا وہ بھی ڈھونگ، حکومت بنی وہ بھی ڈھونگ، بجٹ بنا وہ بھی ڈھونگ ہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ یہ کہتے تھے کہ ہم چوروں کو پکڑیں گے، چور مل نہیں رہےتھے، اب تو چور مل گئے، چور کابینہ میں ہیں جلدی سے پکڑو چوروں کو، احتساب کا نعرہ لگانے والے اب وزراء کے خلاف کارروائی کریں۔
انہوں نے کہا کہ وہ دانشور جو پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتے تھے آج معافیاں مانگ رہے ہیں، آج وزراء کہہ رہے ہیں کہ 5 سے 6 ماہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہے کہ نئی سال کے لیے محصولات کا ہدف گزشتہ سال سے کم رکھا گیا، 50 سال میں پہلی بار ٹیکس گروتھ ریٹ منفی میں گیا ہے، براہِ راست سرمایہ کاری میں 50 فیصد کمی آئی ہے، نہ ملک کے اندر عوام اور نہ اوورسیز پاکستانیوں کو اس حکومت پر اعتماد ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب کے سامنے آ رہا ہے کہ ہم نے جو پہلے دن مؤقف اختیار کیا تھا وہ ٹھیک تھا، جنہوں نے ان کی پروجیکشن میں سالوں لگائے وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کو ووٹ دینا غلط تھا۔
سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ کہتے ہیں کہ احتساب ہوگا، کیسا احتساب، ایسے احتساب پر تو ان کو شرم آنی چاہیے، خیبر پختون خوا میں جب دیکھا کہ ان کے وزراء اور حکومت شکنجے میں آ رہی ہے تو اپنے وزراء کو بچانے کے لیے احتساب کمیشن ختم کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ احتساب اپنا اعتما کھو بیٹھا ہے، ہم تو پہلے ہی اس احتساب کے قائل نہیں تھے، بڑی جماعتیں اس قانون کو رکھنا چاہتی تھیں، آج وہ بھی پشیمان ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ غیر متنازع معاملات کو متنازع بنایا جا رہا ہے، 18 ویں ترمیم وہ ایوان کی متفقہ ترمیم ہے جسے آج متنازع بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کو متنازع بنایا جا رہا ہے، آئین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حصے کو کم نہیں کیا جانا چاہیئے، یہاں دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ صوبے کے حصے کو کم کیا جائے۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ تاثر دے رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، نہیں سمجھتا کہ یہ عوام کا مطالبہ پورا کر رہے ہیں، نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے معیشت ڈوب گئی، پاکستان کو موجودہ حکمرانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ، بی آر ٹی اور بلین ٹری منصوبوں پر کیوں عدالتوں سے اسٹے لیتے ہیں، کورونا وائرس کی وباء کی وجہ سے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا، یک جہتی کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیئے:۔
مشاورت سے کیے گئے فیصلے کا احترام ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پورے فاٹا میں لینڈ ریکارڈ ہے ہی نہیں، آج وہاں پٹواری ہی نہیں لوگ لڑ رہے ہیں، آپ نے صوبے میں ضم کر دیا، پرانا قانون ختم ہو چکا اور نیا نظام موجود ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ زمین سے متعلق ریکارڈ موجود نہیں ہے، قبائل ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں، موجودہ حکومت نے فاٹا کے عوام کو در بدر کر دیا ہے۔
سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ فاٹا میں پولیس اور انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے، فاٹا میں قوانین نہ ہونے سے جھگڑے شروع ہو گئے ہیں، ہمیں بلدیاتی الیکشن نہیں جنرل الیکشن چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت کی تباہی ریاست کے وجود کے لیے خطرہ ہے، 2 افسران کے بیٹھنے سے جنوبی پنجاب کی محرومی ختم نہیں ہو گی۔
مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بھی کہنا ہے کہ تقریروں سے پیٹ نہیں بھرتا، وزیرِ اعظم کبھی مائنس ون تو کبھی خود کو آخری آپشن کہتے ہیں۔