آج کے جدید دور میں دنیا بھر میں خواتین ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ چاہے سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا تعمیرات ہو یا طب و جراحت، خواتین مصروف کار ملیں گی۔ اب تو یہ فوجی خدمات انجام دینے کے علاوہ جہاز بھی اڑا رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں پاکستان میں ایک خاتون ترقی کرکے لیفٹننٹ جنرل سرجن کے عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی حقوق نسواں کی تنظیمیں عظیم الشان تقریبات کا انعقاد کرکے خواتین کے لیے مردوں کے مساوی حقوق کی بات کرتی ہیں لیکن یہ سب تقریبات کی حد تک یاذرائع ابلاغ میں اپنی تشہیراور ’’ فنڈ ریزنگ ‘‘ کے لیے ہوتا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں خواتین پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں ان کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
خواتین کا اغوا، اجتماعی زیادتی، جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل، زندہ جلائے جانے کےواقعات ، تیزاب پھینکنے یا چولہا پھٹنے سے ہلاکت جیسے واقعات عام ہیں۔ کاروکاری کا الزام لگا کراندرون سندھ میں خواتین کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینا عام سی بات بن چکی ہے۔ خواتین کے حقوق کی نفی، ونی، کم عمری میں شادی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، پنچایت میں عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات کو افسوس ناک ہی کہا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں نصف سے زائد آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر یہاں کی خواتین آج بھی معاشرتی رسوم و رواج کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ، گھریلو تشدد یا تیزاب پھینک کرجلانے، خواتین کو اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی فرسودہ رسومات کے تحت انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر واقعات تو ایسے ہیں جو کہ رپورٹ ہی نہیں ہوتے جب کہ ظلم و تشدد کانشانہ بننے والی خواتین خاموشی کے ساتھ خود پر مظالم سہتی رہتی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران خواتین پر تشدد اور زیادتیوں کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں قانون سازی کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے بھی خواتین پر تشدد، زیادتی، سیاہ کاری کم عمری میں شادی سمیت دیگر واقعات کی روک تھام اور خواتین کو فوری تحفظ پہنچانے کے لئےریجن، ڈویژن، ضلعی سطح پر وومن پروٹیکشن سیل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے ریجنل پولیس آفس میں وومن پروٹیکشن سیل قائم کیا گیا ہےجوریجن کے آٹھ اضلاع سے خواتین کی جانب سے آنے والی شکایات اور خواتین کے ساتھ زیادتی کی صورت میں فوری حرکت میں آتا ہے اور متاثرہ خواتین کو تحفظ کی فراہمی کے ساتھ ذمہ داران کے خلاف بھی کاروائی کی جاتی ہے۔
لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب بھی خواتین کے ساتھ زیادتی یا قتل سمیت دیگر واقعات رونما ہوتے ہیں اور ان واقعات کے سامنے آنے پر پولیس بھی فوری حرکت میں آتی ہے ملزمان کے خلاف کارروائی یقینی بناتی ہے اس حوالے سے سکھر پولیس کی کارکردگی کافی تسلی بخش ہے اور پولیس کے بروقت ایکشن لینے سے سکھر ضلع میں جو واقعہ سامنے آتا ہے اس کا ملزم بھی جلد از جلد حوالات میں پہنچادیا جاتا ہے۔
رواں سال سکھر میں خواتین پر ظلم و ستم کے 3 واقعات پیش آئے، جن میں 2 خواتین کو قتل کردیا گیا اور تیسری کو استری سے جھلسا دیا گیا۔پہلا واقعہ صالح پٹ میں پیش آیا جہاں بیٹے نے بہنوں کے رشتے میں رضا مندی شامل نہ ہونے پر ماں کو موت کی آغوش میں دھکیل دیا۔ روہڑی میں اولاد نہ ہونے کی پاداش میں شوہر نے بیوی کو استری سے جھلسادیا۔ ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں کی جانب سے نوٹس لینےاور ملزمان کی گرفتاری کے احکامات پر پولیس نے تینوں واقعات میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کرلیا۔ آج پولیس ماضی کے مقابلے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہی ہے اور اب ملزمان کا زیادہ عرصہ پولیس کی گرفت سےباہر رہنا مشکل ہی نہیں نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔
سکھر اور گرد و نواح کے علاقوں میں جو واقعات سامنے آئے اس میں نواحی علاقے صالح پٹ میں لطیف ڈنو نامی شخص نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی کہ میری بھتیجی مسمات گلزار جو کہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتی تھی، اس نے اپنی بیٹیوں کے رشتے طے کئے، جس پر اس کا بیٹا رضا مند نہیں تھا۔بیٹا قمر الدین اپنی والدہ کو بہنوں کے رشتے کرنے سے منع کررہا تھا مگر اس کی والدہ اس کی بات نہیں مان رہی تھی، جس پر بیٹے نے مشتعل ہوکر فائرنگ کرکے اپنی والدہ کو قتل کردیا۔ اطلاع ملنےپر پولیس نے جائے واردات پر پہنچ کر ملزم کو گرفتارکرکے اس کے قبضے سے آلہ قتل بھی برآمد کرلیا۔
ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بہنوں کے رشتوں پر مداخلت اور ناپسندیدگی کی وجہ سے ماں کو قتل کیا۔ پولیس کی جانب سے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے مزید قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔ ایک اور واقعہ سکھر کے نواحی علاقے اروڑ میں پیش آیا جہاں متعلقہ تھانہ میں ایک فریادی ،وقار احمد نے رپورٹ درج کرائی ہے کہ میری 40 سالہ بہن نجمہ کی 10سال قبل گلزار سے شادی ہوئی، جس سے اس کی ایک بیٹی ہے، بہن شکایت کرتی تھیں کہ شوہر اسے تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور اکثر گھر سے باہر ہی رہتا ہے، ہم نے متعدد بار اپنے بہنوئی کو سمجھایا مگر وہ کہتا تھا کہ میں دوسری شادی کروں گا۔ ایک دن ہمیں معلوم ہوا کہ چند لوگ بہن کے گھر میں گھس کر اسے تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں، جب ہم وہاں پہنچے تو ملزمان کے ہاتھوں میں پستول، سریہ، ڈنڈے تھے، ملزمان نے بتایا کہ ہمیں اس کے شوہر نے کہا ہے کہ بیوی کو قتل کردو تاکہ میں دوسری شادی کرلوں۔ پولیس نے ملزمان آصف، کاشف، رزاق، پیرل، بشیر اور رسول کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
تیسرے واقعہ میں شوہر نے اولاد نہ ہونے پر مشتعل ہوکر اپنی بیوی کو گرم استری سے جھلسادیا۔ تھانہ روہڑی میں مسمات نسرین نے رپورٹ درج کرائی کہ میرا شوہر شبیر اولاد نہ ہونے اور دوسری شادی کی اجازت نہ دینے پر مجھے تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ وقوعے والے روز اس نے اپنی بہن کلثوم کے ساتھ مل کر مجھے گرم استری سے جلایا ہے۔پولیس نے ملزم کر گرفتار کرلیا جس نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ اولاد نہ ہونے پر اس نے بہن کے ساتھ مل کر بیوی کو استری سے جلایا، خاتون کو روہڑی اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں اسے طبی امداد فراہم کررنے کے بعد اس کے والدین کے گھر بھیج دیا گیا۔
اس طرح کے واقعات حقوق نسواں کےنام پر سرگرم تنظیموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ یہ تنظیمیں خواتین کے عالمی دن سمیت سال میں 2 سے 3 بار اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار، ورکشاپ اور پروگرام تو منعقد کرتی ہیں لیکن وہ علاقے جہاں پر فرسودہ رسومات کے تحت خواتین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہاں پر یہ تنظیمیں کام کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیں۔
یہی وجہ ہے کہ پسماندہ اور دیہی علاقوں میں آج بھی خواتین کو ان کے ناکردہ گناہوں پر زندگی سے محروم کردینے اوران پر تشدد سمیت دیگر واقعات سامنے آتے ہیں ۔ ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں کے مطابق خواتین پر تشدد اور انہیں قتل کئے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لئے پولیس ہر ممکن اقدامات کررہی ہے اور ان کے تحفظ کے لیے ویمن پروٹیکشن سیل بھی قائم کیا گیا ہے۔ خواتین کی شکایت پر پولیس فوری طور پر متحرک ہوتی ہے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرتی ہے۔
شہری و عوامی حلقوں نے سکھر ریجن میں ویمن پروٹیکشن سیل کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جاہلانہ رسوم و رواج کے خاتمے، انہیں مردوں کے مساوی حقوق کی فراہمی کےلیے حکومت منظور کردہ قوانین پر سختی سے عمل کرائے۔ان حلقوں نے خواتین پر تشدد اور مظالم کی روک تھام کے لئے پولیس کے کردار کو سراہا اورصوبائی حکومت اور آئی جی سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام اضلاع کے ساتھ تعلقہ سطح پر بھی نہ صرف ویمن پروٹیکشن سیل کے علاوہ سندھ کے تمام اضلاع میں ویمن پولیس اسٹیشن کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔