• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پی سی بی غیر ضروری کاموں میں الجھ کر مسائل بڑھا رہی ہے

ویسے پاکستان میں کرکٹ کو چلانے والوں کو داد دینا پڑے گی کہ پاکستان میں کرکٹ نہیں ہورہی،پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ پہنچ کر ابھی وارم اپ ہورہی ہے۔کرکٹرز کے ایکشن میں آنے سے قبل فیلڈ کے باہر محاذ گرم ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے انگلینڈ کے دورے کے لئے یونس خان کو بیٹنگ کوچ بنایا ہے۔یونس خان کو یہ ذمے داریاں مصباح الحق پر بوجھ کو کم کرنے کے لئے دی گئی ہیں۔لیکن یونس خان کے بارے میںپاکستان کے سابق بیٹنگ کوچ زمبابوے کے سابق بیٹسمین گرانٹ فلاور نے ذمے داریاں چھوڑتے ہی زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔گرانٹ نے الزام لگایاہے کہ ایک بار کسی بات پر اختلاف کے بعد یونس خان نے میری گردن پر چاقورکھ دیا۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے اس وقت ٹیم انتظامیہ کے ایک رکن نے واقعے کی تصدیق کی ہے۔

گرانٹ فلاور نے کہا کہ برسبین ٹیسٹ میچ میں ناشتے کے وقت کے یونس خان کو بیٹنگ پر مشورہ دے رہا تھا ۔ گرانٹ فلاور نے کہا کہ یونس خان میرا مشورہ لینے نہیںچارہے تھے تو انہوں نے میرے گلے پر چھری رکھ دی ۔گرانٹ فلاور نے کہا کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر بھی ناشتے کے وقت بیٹھے تھے تو انہوں کو مداخلت کرنے معاملہ حل کرایا ، گرانٹ فلاور کا کہان ہہے کہ ان کے لئے یہ بہت عجیب تھا ، لیکن یہ سب کچھ ڈیوٹی کا حصہ تھا۔2014 سے 2019 تک پاکستان ٹیم کے بیٹنگ کوچ رہنے والے زمبابوے کے سابق بیٹسمین گرانٹ فلاور نے یہ انکشاف کیا کہ یونس خان کو سکھانا بہت مشکل کام تھا ان کا کیرئیر شاندار ہے۔ 

حالانکہ میرا کیرئیر اعداد وشمار کے حوالے سے ان کے قریب بھی نہیں وہ پاکستان کے سب سےزیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین ہیں ۔ لیکن انہوں نے میرے مشورے کو اچھے انداز میں نہ لیا اور چاقو میرے گلے پر لے آئے ۔مکی آرتھر نے مداخلت کی ، یہ سب کوچنگ کا حصہ ہے لیکن یہ سب مشکل بھی بنا دیتا ہے ، میں نے پھر بھی انجوائے کیا ۔ احمد شہزاد کے بارے میں گرانٹ فلاور نے کہا کہ وہ دلچسپ شخص ہے ، وہ بیٹنگ میں مہارت رکھتا ہے لیکن وہ باغی ہے گرانٹ فلاور کا معاہدہ گزشتہ برس ورلڈ کپ کے بعدپاکستان ٹیم کے ساتھ ختم ہوا اور اب وہ سری لنکا ٹیم کے کوچنگ اسٹاف میں شامل ہیں ۔ جبکہ یونس دورہ انگلینڈ کے لئے پاکستان ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں ۔پاکستان ٹیم نے 2016۔17 میں تین ٹیسٹ اور پانچ ون ڈے میچز کی سیریز کے لیئے آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا ۔

گرانٹ فلاور اب سری لنکا کے ساتھ ہیں لیکن یونس خان کے بارے میں ان کے ریمارکس سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ساکھ خراب ہوئی ہے اور انگلینڈ کے دورے پر یونس خان کے حوالے سے اس الزام کا میڈیا پیچھا کرتا رہے گا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے اس وقت ووسٹر انگلینڈ میں ہے جہاں وہ قرنطینہ میں رہتے ہوئے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے ترتیب دئیےگئے پروٹوکول کے مطابق پریکٹس شروع کر چکی ہے۔پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے کپتان بابر عظم تسلیم کرتے ہیں کہ جب پاکستانی ٹیم انگلینڈ پہنچی تو کھلاڑیوں کے ذہنوں میں یہ تفکرات موجود تھے کہ کرکٹ سے تین ماہ کی دوری ان پر کیا اثر دکھائے گی؟

لیکن صرف دو دن کی پریکٹس کے بعد کھلاڑی پہلے کی طرح نارمل دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فٹنس صحیح ہے اور وہ پریکٹس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ہر کھلاڑی کی طرح ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بہترین کارکردگی دکھائیں تاکہ ان کا نام بھی دنیا کے سرفہرست کھلاڑیوں میں شامل ہو سکے۔ وہ ایسی پرفارمنس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں جو ٹیم کے کام آئے اور جس سے ٹیم کو جیتنے میں مدد مل سکے۔ پاکستانی ٹیم کی انگلینڈ میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس نے اپنے گذشتہ دونوں دوروں میں ٹیسٹ سیریز برابر کی ہے۔ 2016 میں اس نے ٹیسٹ سیریز دو دو سے برابر کی تھی جبکہ 2018 میں ٹیسٹ سیریز ایک ایک سے برابر رہی تھی۔اس کے علاوہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں بھی اس کی کارکردگی اچھی رہی، ان تمام عوامل اور کھلاڑیوں کی موجودہ صورتحال دیکھ کر وہ بہت زیادہ پرُامید ہیں کہ ٹیم اچھا کرے گی کیونکہ تمام کھلاڑی جیتنا چاہتے ہیں۔

بابراعظم چار سال میں چوتھی مرتبہ انگلینڈ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ میں ڈیوک بال سے کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ ڈیوک بال انگلش کنڈیشنز سے مطابقت رکھتا ہے۔ جب آپ انگلینڈ کی بولنگ کے خلاف انھی کی کنڈیشنز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ کے حوصلے میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ میں یہ اعتماد پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر آپ انگلینڈ میں اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں تو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ انگلینڈ میں ہونے والی کرکٹ میں موسم کا عمل دخل نمایاں ہوتا ہے اور ٹیم کی پریکٹس میں مصباح الحق اور یونس خان اسی نکتے کو اجاگر کر کے کھلاڑیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ بدلتے موسم میں کس طرح بیٹنگ کی جاتی ہے۔

بابراعظم اپنے کپتان اظہر علی کی طرح یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے بولر انگلینڈ کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ کو جلد آؤٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بابراعظم کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے ٹاپ آرڈر بیٹسمین اس وقت زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے ہیں لہذا اگر ہمارے بولر انہیں جلد آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ان کی ٹیم دباؤ میں آ جائے گی۔انگلینڈ کا بولنگ اٹیک اچھا ہے لیکن پاکستان کے پاس بھی شاہین شاہ آفریدی، محمد عباس اور نسیم شاہ پر مشتمل موثر بولنگ اٹیک ہے۔ محمد عباس کو انگلش کنڈیشنز کا تجربہ ہے۔براعظم کا کہنا ہے کہ میرا مواز نہ ویرات کوہلی کی بجائے پاکستان کے سابق کھلاڑیوں سے کیا جائے۔ پاکستان نے بہت سے عظیم بیٹسمین پیدا کیے ہیں، اور انہیں خوشی ہوگی کہ اگر ان کا موازنہ محمد یوسف، یونس خان، انضمام الحق اور جاوید میانداد جیسے کھلاڑیوں سے کیا جائے۔

انگلینڈ میں ٹرپل سنچری بنانے کی کوشش کروں گا۔انگلینڈ میں صورتحال مشکل اور مختلف ہے لیکن ہم جیتنا چاہتے ہیں ۔جمعرات کوقومی ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم نے بھارتی کپتان ویرات کوہلی کے ساتھ موازنے سے متعلق سوال پر بابراعظم نے کہا کہ ان کا موازنہ پاکستان کے سابق کھلاڑیوں سے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ بابراعظم نے واضح کیا کہ قومی ٹیم انگلش کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔ تمام کھلاڑی 3 ماہ بعد گراؤنڈ واپسی پر بہت خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ٹیسٹ سیریز میں بہترین انفرادی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں گے۔ ٹی ٹونٹی سیریز جیت کر پاکستان کو دوبارہ ٹاپ رینک ٹیم بنانا ہدف ہے۔بابراعظم نے کہا ہے کہ تمام کھلاڑیوں کا کروناٹیسٹ یہاں بھی منفی آیا ہے، پچھلے دو دن سے ہم پریکٹس کررہے ہیں۔ 

تمام تر توجہ ٹیسٹ سیریز پر مرکوز ہے اور پھر ٹی20کا سوچیں گے، خوشی کی بات ہے تمام کھلاڑی فٹ ہیں، کھلاڑیوں نے بیٹنگ اور بولنگ کی ٹریننگ بھی کی۔کھلاڑی گیمز کھیلتے ہیں اور اکٹھے بیٹھتے ہیں، ہوٹل سے باہر نہیں جاسکتے،ب یہاں ڈیوک کابال استعمال ہوتا ہے جو کنڈیشن کو سوٹ کرتی ہے، ہر کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹاپ نمبرز میں شامل ہوں۔بابر اعظم نے کہا کہ اہداف ہمیشہ اچھے رکھے ہیں، پچھلے 2تین سیریز کے لیے ٹیم میں تبدیلیاں کی گئیں، کھلاڑیوں کی تبدیلی کی وجہ سے نتائج مختلف رہے، کوشش یہی ہے کہ انگلینڈ میں سیریز جیتیں اور ٹرینڈسیٹ کریں۔ تمام تر توجہ ٹیسٹ سیریز پر مرکوز ہے اور پھر ٹی20کا سوچیں گے، انفرادی پرفارمنس ہر کھلاڑی کے لیے اہمیت رکھتی ہے، کپتان ہونے کی وجہ سے ٹیم کا سوچنا پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے انگلینڈ میں دو سیریز برابر کی ہیں اور ہم اعتماد کے ساتھ یہاں آئے ہیں مجھے امید ہے کہ ٹیم اچھا کھیلے گے، یہاں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے ہم اچھے انداز میں ٹریننگ کر رہے ہیں۔اُن کا کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم کا بولنگ اٹیک بھی اچھا ہے عباس کو یہاں کھیلنے کا تجربہ ہے ، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی ردھم میں ہیں انگلینڈ کو ٹف ٹائم دیں گے۔بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز انگلینڈ سیریز سے فائدہ ہوگا انہیں کھیلتا دیکھ کر نئی پلئینگ کنڈیشنز کا اندازہ ہو گا، یونس خان اور مصباح الحق کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، یونس خان اور مصباح الحق مل کر پلان بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرا موازنہ پاکستان کھلاڑیوں کے ساتھ کریں گے تو اچھا لگے گا، ہمارے بھی بہت بڑے بڑے لیجنڈ ہیں ان سے موازنہ کیاجائے تو اچھا لگےگا ۔بابر اعظم نے کہا ہے کہ لارڈز میں کھیلنے میں مزہ آتا ہے لیکن حالات ایسے ہیں کہ بس کرکٹ شروع ہونی چاہیے ۔

سرفراز احمد جب پاکستان کے کپتان تھے تو بابر اعظم ان کے سب سے قریب تھے۔پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم میں پہلا انتخاب وکٹ کیپرمحمد رضوان ہی ہیں،سرفراز احمد نہیں ۔ محمد رضوان کو پورا موقع ملنا چاہیے وہ پہلی چوائس ہیں ،پاکستان میں محمد رضوان فٹ ہوگئے ہیں اور وہ انگلینڈ آ رہے ہیں انہیں ترجیح دیں گے۔۔ طویل طرز کی کرکٹ کے لیے پاکستان کے فرسٹ چوائس وکٹ کیپر محمد رضوان ہیں،وہ محمد رضوان کو پورا موقع دینے کے حق میں ہیں اور نوجوان وکٹ کیپر نے آسٹریلیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔سرفراز احمد سے بہت کچھ سیکھا میں ان کے ساتھ نائب کپتان تھا۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں سرفراز احمد اور ٹیم انتظامیہ بھی ایک ہی صفحے پر تھے ایسا نہیں ہوتا کہ الگ الگ ہوں ، بابر اعظم ،میں اور منجمنٹ سب ایک پیج پر ہیں اور مل کر فیصلے ہوتے ہیں ۔پہلےکی پہلے بھی ان سے رائے لی جاتی رہی ہے اب بھی ان سے صلاح مشورے کروں گا۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کی بھرپور تیاری کررہی ہے۔ایسے میں پی سی بی حکام کلب کرکٹ کے نئے آئین کا بھر پور انداز میں دفاع کررہے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے بورڈ آف گورنرز نے اجلاس میں کرکٹ کلبوں کے لیے ماڈل آئین اور کلب کے الحاق اور آپریشنل قواعد کی منظوری دی۔پی سی بی دعوی کررہا ہے کہ یہ ماڈل آئین پی سی بی کے آئین برائے 2019 اور ماڈل دستور برائے کرکٹ اور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز سے مکمل موافقت رکھتا ہے۔یہ ازسر نو تشکیل کردہ ڈومیسٹک کرکٹ اسٹرکچر میں نچلی اور اوپر کی سطح تک کے لیے باقاعدہ فریم ورک کو حتمی شکل دینے میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

جبکہ ملک کے بڑے بڑے آرگنائزر اور کلب کرکٹ کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے آرگنائزرز نے اس آئین کو مسترد کردیا ہے۔پاکستان ٹیم جب انگلینڈ میں ٹیسٹ کھیلنے اترے گی اس وقت پانی کی گہرائی کا علم ہوگا لیکن اس وقت کے حقائق یہی ہیں کہ پی سی بی انتظامیہ غیر ضروری کاموں میں الجھ کر مسائل بڑھا رہی ہے انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ عام لوگوں کو کرکٹ کی سیاست سے نہیں ٹیم کی کارکردگی سے دلچسپی ہے اگر ٹیم نے اچھا کردیا تو سب ٹھیک ہے ورنہ دما دم مست قلندر ہوگا؟

تازہ ترین
تازہ ترین