• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ بحث جاری ہے کہ ملکی مسائل کا حل موجودہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں ہے یا ایسے نظامِ حکومت میں کہ جہاں صدر براہِ راست منتخب ہو اور ممبرانِ قومی اسمبلی اُسے بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں لیکن پیر کے روز سینیٹ میں صدارتی نظام کے نفاذ کی گونج پر اپوزیشن سیخ پا ہو گئی۔ اِسی ضمن میں گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے 18ویں ترمیم کو نظرثانی کے قابل اور قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کو ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔ اِس حوالے سے جب حکومتی اتحادی سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے سینیٹ میں آئینی ترمیمی بل پیش کیا تو اپوزیشن نے یہ تحریک کثرت رائے سے مسترد کر دی۔ پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ ہمیں صدارتی نظامِ حکومت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ حالات خرابیٔ بسیار کی طرف چلے گئے اور ہمیں یحییٰ خان کی صورت میں ایک اور آمر مل گیا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں صدارتی نظامِ حکومت رائج ہے آج اُن ممالک کا حال سب کے سامنے ہے۔ امریکہ جیسا سپر پاور ملک دونوں ایوان ہونے کے باوجود اپنے صدارتی نظامِ حکومت کی وجہ سے ٹرمپ کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ بھارت جو دنیا بھر میں خود کو سیکولر جمہوریت کے طور پر متعارف کرواتا ہے آج وہاں سیکولر جمہوریت دم توڑ چکی ہے اور پاور مودی جیسے انتہا پسند کے ہاتھ میں ہے جو کسی اور کی نہیں سنتا اور اِس پاور کو مذہبی شدت پسندی کے فروغ کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے پارلیمانی نظام پر کامیابی کے ساتھ عمل پیرا ہے اور اس نظام کو عدم استحکام کا بہانہ بنا کر مصنوعی طور پر صدارتی نظام سے بدلنے کا بظاہر کوئی ایک بھی درست جواز موجود نہیں ہے۔ ہر گزرتے دِن کیساتھ جمہوریت کے اندر موجود خامیاں بھی دور ہو جاتی ہیں لہٰذا صدارتی نظام کے بجائے تمام سیاسی حلقوں کو پارلیمانی نظام کو مزید بہتر بنانا چاہئے۔

تازہ ترین