• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستر برسوں کے دوران پاکستان کی صوبائی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی کی کوئی سنجیدہ حکومتی کاوش نہیں ملتی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاصلے بڑھتے رہے ،تجارت ہوتی رہی، نعرے لگتے رہے مگر عوام کا عوام سے رابطہ قائم نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں صوبوں تک سکڑ کر رہ گئی ہیں۔

پیپلز پارٹی اور نون لیگ، جو کبھی عملی طور پر وفاقی جماعتیں تھیں اب سندھ اور پنجاب کی پارٹیاں بن چکی ہیں اور دیگر صوبوں میں انہیںبرائے نام نمائندگی حاصل ہے۔مرکزی حیثیت لئے ضروری تھا کہ دورسے بیٹھ کر معاملات کاجا ئزہ لینے کی بجائے نظر انداز علاقوں کا دورہ کیا جائے اور روٹھے ہوئے لوگوں کے پاس جا کرگلے شکوے سنے جائیں اور رابطے استوار کئے جائیں۔مگر مصروف حکومتوں کو اس بڑے مقصد کی طرف نگاہ کرنے کی فرصت نہ ملی۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تعیناتی کے عوامل میں سب سے بڑی نیک نیتی یہ تھی کہ وہ چونکہ بلوچ سردار ہیں اور بلوچوں میں سردار کی خصوصی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لئے بلوچستان ،جس کے عوام اور سیاستدان جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کے غلط رویوں کی وجہ سے کافی دل برداشتہ ہو چکے تھے۔

دیگر صوبوں خصوصا پنجاب سے انکو بے پناہ شکایات تھیں کیونکہ مختلف اداروں اور بیوروکریسی میں پنجاب کی اکثریت ہوتی ہے۔ اس لئے وہ تمام مسائل کی ذمہ دار پنجاب کی اشرافیہ کو قرار دیتے ہیں۔

اس نفرت، دوری اور بے گانگی کو ختم کرنے کے لئے بلوچ وزیر اعلیٰ کا تقرر دوراندیشی پر مبنی تھا۔ جس کا واضح طور پر مثبت اثر ہوا۔ میرے کئی بلوچ ادیب و شاعر، فنکار دوست جو پہلے پنجاب کے بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔

عثمان بزدار کے آنے کے بعد ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ انہیں پنجابی قوم کی یہ ادا بھی پسند آئی کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود پنجاب کے لوگوں نے وفاقی حکومت کے مقرر کردہ وزیراعلیٰ کو قبول کیا۔ کبھی ان کے خلاف کوئی جلوس نکلا نہ انہیں بلوچ ہونے کی وجہ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ یہ خاموش پیغام ِمحبت دیر پا اثر کا حامل ہے۔

پنجاب اگر افراد کی وجہ سے بڑا صوبہ ہے تو بلوچستان رقبے کے حوالے سے عظیم ہے۔ وزیر اعلیٰ دونوں بڑے صوبوں کے درمیان ٹوٹے ہوئے رابطے کا جوڑ ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کی دعوت پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے پچھلے سال ستمبر میں لاہور کا دو روزہ دورہ کیا۔ جس میں انہوں نے مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقات کی۔ بلوچستان صوبائی حکومت کے مختلف محکموں کے وزراء کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بزدار حکومت کو شرفِ میزبانی بخشنا بہت خوش آئند تھا۔

مطلب یہ کہ صرف حکومت نہیں بلکہ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں، تنظیموں، طلبا اور عوام کے لئے عثمان بزدار نے پنجاب کے دروازے کھول کر بھروسے اور اعتماد کی ایک نئی کہانی کا آغاز کیا ہے۔ اعتماد کی بحالی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں دورہ کوئٹہ کے دوران وزیر ِ اعلیٰ پنجاب نے گورنر بلوچستان امان اللہ خاں یاسین زئی اور وزیر صحت نصیب اللہ مری سے ملاقات کی۔

رواں برس جنوری میں تربت کا دورہ کیا اور وزیر اعلیٰ جام کمال کی ہمراہی میں میرانی ڈیم، گوادر اور دیگر علاقہ جات کے دوروں کے دوران حکومتی ارکان اور عوام کی طرف بے پناہ محبت کا مظاہرہ اس بات کا شاہد تھا کہ محبت اور عزت کا یہ سلسلہ یک طرفہ نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی خلوص نیت اور دل سے کی جانیوالی ہم آہنگی کی کوششوں نے بلوچستان کے لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل کی ہے اور وہ فاصلے مٹتے جا رہے ہیں جو نظر نہیں آتے مگرکئی سالوں سے خطرناک حد تک بڑھتے جا رہے تھے اور جن کی روک تھام پر کسی کی نظر نہیں تھی۔

پاکستان رنگا رنگ ثقافتوں کا ملک ہے۔ فنکار بےلوث اور درویش لوگ ہوتے ہیں۔ یہ فن کے ذریعے خیر کا پیغام پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو ایک مرکز پر جمع کرتے ہیں۔محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب کے زیر سایہ کام کرنے والے تمام اداروں نے گزشتہ دو سالوں کے دوران تمام صوبوں کے فنکاروں کو لاہور میں دعوت دی جہاں اہلِ لاہور کی کثیر تعداد نے ان رنگا رنگ سرگرمیوں میں شرکت کر کے فنکاروں کو خراج تحسین پیش کیا اور باہمی روابط کو مضبوط کیا۔شنید ہے کہ کچھ ایسے اقدامات زیرِ غور ہیں جو مستقبل میں بڑے نتائج کے حامل ہوں گے۔ تونسہ سے لورالائی دوریہ سٹرک کی تعمیر معاشی ترقی کے نئے امکانات کا آغاز ثابت ہو گی۔

ڈیرہ غازی خاں میں رود کوہی سے متاثرہ علاقوں میں مرحلہ وار تیرہ چھوٹے ڈیم بنائے جائیں گے جن سے نہ صرف کوہ سلیمان کے باسی مستفید ہوں گے بلکہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے مکین بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ کوہ سلیمان کے سرحدی علاقوں سے بلوچستان کے مریضوں کی ڈیرہ غازی خاںمنتقلی کے لئے ریسکیو 1122شروع کی جائے گی۔ اسکے علاوہ دونوں صوبوں کو ملانے والے علاقوں کے قریب کئی منصوبے شروع کئے جا رہے ہیںجن کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔

بلوچستان اور پنجاب کے درمیان غلط فہمیوں کے ازالے کا مقصد ریاست کے استحکام کے مترادف ہے۔ جس میں عثمان بزدار کی کاوشیں یقینا قابلِ تحسین ہیں۔پنجاب ایثار اور محبتوں کی سرزمین ہے۔ کچھ لوگوں نے اسکا تاثر معدو م کر کے پورے پنجاب کو کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے لوگوں کو درست تصویر دکھانے کی ضرورت تھی جسکا آغاز ہو چکا۔

تازہ ترین