دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ 1948سے 2016 تک مائنس ون کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔دلچسپ بات ہے کہ یہ معاملہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ریاست کے تینوں ستونوں کے سربراہوں کےساتھ درپیش رہاہے اور پسند ناپسند سمیت مختلف وجوہات کی بنیاد پر انہیں مائنس ون کےنام پر مائنس کیا جاتا رہاہے جبکہ چوتھا ستون زیر عتاب رہاہےتاہم اس مرتبہ اس فارمولےکانفاذ میڈیا پربھی کرنےکےلئے حق وسچ کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں ملک کےبڑے میڈیا ہاؤس کےایڈیٹر انچیف کوبےبنیادالزام پرپابند سلاسل کرکےان سمیت پورے ادارے کو’’مائنس ون‘‘کی بھینٹ چڑھانے کی سازش ہورہی ہےجویقیناًکبھی کامیاب نہیں ہوگی ۔
سنجیدہ اور تلخ پہلو ہےکہ مائنس کی صلیب پرچڑھنے سے پہلے تو کئی وزرائے اعظم کو صفائی کاُموقع بھی نہیںدیاجاتا رہا کہ آخر ’’مائنس ون ‘‘ ہی کیوں؟ ۔موجودہ حالات پر حکمرانوں سے ہمدردی نہیں مگر دکھ سےکہنا پڑتا ہے ایک مرتبہ پھرمحض دوسالہ حکومت کاسربراہ ’’مائنس ون‘‘کے نشانہ پر دکھائی دیتا ہے۔
اہم بات یہ بھی ہےکہ اب کی بار موجودہ وزیراعظم نے اپوزیشن کی دل کی بات زبان پر آنے سے پہلے ہی اس معاملے پرازخود کھل کر اظہار کرکے ناقدین کو حیران کردیا،قائد ایوان کا پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو للکار کے کہنا ”مائنس ہو بھی جاؤں تو اپوزیشن کی جان نہیں چھوٹے گی “ ساتھ ہی اپنوں کی طرف اشارہ کرکے دو وزراء کی اقتدار کا ہما سر پر بٹھانے کی شدید خواہش پر بھی پانی پھیر دیا۔
کورونا اور معاشی تباہی سے دوچار عوام کتنے بدقسمت ہیںکہ حکومت تو ناکام ہوئی سو ہوئی اب کی بار تو اپوزیشن بھی ناکام ہوچکی ہے کیونکہ وہ ان کےسب کچھ لٹنے پر ڈھارس بندھانے تو دور کی بات نوحہ کناں تک نہیں۔سخت معاشی واقتصادی بحرانوں ،بدترین غربت ، تباہ کن بیڈگورننس ، خوفناک اسکینڈلز ، وزیروں مشیروں کی سطح کی روز نت نئی کرپشن کی کہانیوں اور نظام چلانےکی عدم صلاحیت کے قصوں سے بھی اپوزیشن کےکان پر جوںتک نہیں رینگی آج بھی محض روایتی سخت مذمتی بیانات اور چند منٹ کےشور شرابے سےعوامی تسلی و تشفی کا سامان کرنےمیں مصروف ہے ۔کوئی مانے نہ مانے لیکن حقیقت اس کےسوا کچھ نہیںکہ اپوزیشن اپنا حقیقی کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوناچاہتی۔
زبان کھولیں تو ماضی کی کردہ ناکردہ غلطیوں پر نیب کی پکڑاور پھران کی نظروں میں گر جانے کا خوف دل پر بہت بھاری ہے۔ تو پھر “مائنس ون “کا خواب تو عبث ہی ٹھہرا۔عوام کی آنکھوں میں محض دھول جھونکے کیلئے ایک اور اے پی سی کی سخت دھمکی بھی اپوزیشن کی کارکردگی میںایک اور صفر کا ہی اضافہ کرےگی ۔
راقم نے اعلیٰ حکومتی ذرائع کےحوالے سے دعویٰ کیاتھا کہ اس تباہ کن صورت حال پر مہر تصدیق ثبت کپتان نے خود “بڑوں” کی مرضی سےایک وفاقی وزیر کےغیرملکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو کے ذریعے کرائی جس کا مقصد ناقابل کنٹرول وزیروں اور مشیروں کو وارننگ دینا تھا مگر چھ ماہ کا گریس پریڈ دے کر انہیں مزید کھل کھیلنےکا موقع دے دیا گیا جبکہ کپتان کے لئے ممکنہ خطرہ بننے اور کپتان بننے کے خواہش مندوں کو بھی ایکسپوز کردیا گیا، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنے سوا کوئی چوائس نہ ہونے کا دعویٰ کرکے کہانی ہی ختم کرنے کی کوشش کر ڈالی۔
بااثر حلقوں کے مطابق یہ دعویٰ بہت حد تک درست بھی ہے کیونکہ اس کو بھی مائنس کردیا تو پھر پلس کا آپشن تلاش کرنا مشکل ہوجائے گا۔ انہی ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کورونا کی آمد سے پہلے مائنس ون فارمولے پر سنجیدگی آرہی تھی لیکن کورونا کی تباہی، خطے کے بدلتے حالات بالخصوص مقبوضہ کشمیر کی نازک صورت حال، چین بھارت مسلح فوجی تصادم، امریکہ افغان طالبان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ اور ترکی سمیت کچھ دیگر اہم معاملات سمیت مائنس ون پر کپتان کے اپنے”سخت ردعمل “نےساری اسکیم ہی بدلنے پر مجبور کردیا اور اس فارمولے پر عمل درآمد معطل کرنا پڑا۔
جس کے بعد حالات کی نزاکت کے تناظر میں تمام معاملات پرگرفت لیتے ہوئےفیصلہ کیا گیا کہ موجودہ نظام کو چلنے دیا جائے، تاہم مکمل تباہی سے بچانے کے ہنگامی اقدامات فوری کئے جائیں جس پر اپوزیشن بھی آن بورڈ اور آمادہ ہے۔
دیگر آپشنز پربھی کام شروع کردیا گیا ہے جس میں اہم صوبائی اور وفاقی سطح کی تبدیلیاں کی جائیں گی، آغاز گورنر خیبر پختونخوا کی اہم تبدیلی کی صورت میں کردیا گیا ہے۔
ملک کی درجن بھر سےزائد اتھارٹیز میں سے زیادہ تر میں حاضر سروس یاریٹائرڈ افسران کے تقرر کا مقصد بھی معاملات کو ٹھیک کرنے کا عندیہ ہے اور کچھ مزید اہم اداروں کی سربراہی بھی جلد مضبوط افسران کے سپرد کی جارہی ہے۔ ناقدین کی رائے میں موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے کی ایک آخری بڑی کاوش کےطور پر پسندیدہ اینکرز اور کالم نویسوں کو حکومت کابینڈ بجائے رکھنے کا ٹاسک بھی دیا گیا ہے۔
تاکہ مائنس ون کے بغیر ہی موجودہ جمہوری دور کی باقی مدت مکمل کی جاسکے تاہم اگر نظام آئندہ چھ ماہ یا سال کے اندر ڈیلیوری کےقابل نہ ہوسکا تو پھر مائنس ون نہیں بلکہ موجودہ سسٹم کے مائنس ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا جو پھر شاید کسی کو بھی راس نہیں آئے گا۔