• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اثاثہ جات کی تفصیل میں ابہام اور تضادات




وزیراعظم عمران خان مشیروں اور معاونین خصوصی کے جاری کردہ اثاثہ جات کی تفصیل میں ابہام اور تضادات پائے جاتے ہیں۔

وزیراعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی طرف سے حکومت کو جمع کرائے گئے اثاثہ جات کی تفصیل میں ان کی طرف سے حکومت پاکستان کو ادا کیے گئے ٹیکسوں کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

اکثر کی طرف سے اپنے اثاثوں کی مالیت کو مارکیٹ قیمت سے کہیں کم ظاہر کیا گیا ہے، ان اثاثہ جات کی تفصیل میں کئی بڑے تضادات بھی پائے جاتے ہیں۔

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی طرف سے جاری اثاثہ جات میں ابہام اور تضادات پائے جاتے ہیں۔

مشیر خزانہ نے اپنے نام زمین کی مد میں 20 ایم اور اہلیہ کے نام 103 ایم لکھا ہے، یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ’ایم‘ مربع ہے یا کچھ اور ہے۔

عبدالحفیظ شیخ نے اپنی مرسڈیز ای سیریز کی گاڑی کا ماڈل نہیں لکھا اور اس کی قیمت صرف 5 ملین ظاہر کی ہے۔

پاکستانی مشیر خزانہ کے 7 غیر ملکی اکاؤنٹس میں 134 کروڑ 75 لاکھ روپے مالیت کے مساوی ڈالرز و درہم ہیں جبکہ ان کے 2 پاکستانی بنکوں میں صرف اور صرف 25 ہزار روپے ہیں۔

عبدالحفیظ شیخ کی طرف سے ٹیکس کی مد میں جمع کرائے گئے کسی ایک دھیلے کا ذکر نہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات میں ان کے بچوں کے اثاثہ جات کا ذکر موجود نہیں۔

اہلیہ کے نام صرف31 لاکھ کے شیئرز کا ذکر ہے جبکہ انہوں نے سال 2016ء ماڈل کی ٹیوٹا پراڈو زیڈ ایکس کی قیمت صرف 30 لاکھ روپے لکھی ہے جو مارکیٹ میں کم و بیش 3 کروڑ روپے ملکیت کی حامل ہے۔

عاصم باجوہ کے اثاثوں میں گلبرگ گرین میں 5 کنال کا گھر، ڈی ایچ اے کراچی، ڈی ایچ اے اسلام آباد میں رہائشی پلاٹ، ڈی ایچ اے لاہور میں کمرشل پلاٹ جبکہ رحیم یار خان اور بہاولپور میں زرعی اراضی بھی شامل ہے۔

معاون خصوصی شہباز گل نے گلبرگ گرین میں 39 لاکھ روپے کا رہائشی پلاٹ اور 3 کروڑ 60 ہزار روپے مالیت کے فارم ہاوس کا ذکر کیا ہے تاہم اسکی خریداری کے لیے آمدن کا زرائع نہیں لکھا، ان کے مجموعی اثاثہ جات 11 کروڑ 85لاکھ 90ہزار سے زائد ہیں، انہوں نے بھی اپنے ذرائع آمدن اور ٹیکسوں کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔

بابر اعوان نے اپنے اثاثہ جات میں بیٹے کے نام اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں 2 پلاٹوں کی قیمت بالترتیب 21 لاکھ اور 29لاکھ درج کی ہے، تاہم پلاٹوں کا سائز نہیں لکھا۔ یاد رہے کہ اس سیکٹر میں پانچ مرلے کے پلاٹ کی قیمت کم و بیش 90 لاکھ روپے ہے، بابر اعوان نے اپنی ٹیکسوں اور آمدن کی تفصیلات کا ذکر بھی نہیں کیا۔

ثانیہ نشتر کے پاس صرف پانچ لاکھ روپے کی جیولری ہے، ان کے شوہر کے 4 مختلف اکاؤنٹس میں کم و بیش 1 کروڑ 81 لاکھ روپے ہیں جبکہ ان پر 30 لاکھ روپے کا قرض بھی واجب الادا ہے۔

تانیہ شاہد اندروس کے پاکستان میں کوئی غیرمنقولہ اثاثہ جات سرے سے موجود ہی نہیں، تاہم ان کے پاس 82 لاکھ روپے کی پاکستان میں ایک ٹیوٹا گاڑی ہے جس کا ماڈل اور دیگر تفصیلات لکھنا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا، ان کے پاس 50 تولے سونا، امریکہ اور برطانیہ میں پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹس الگ سے ہیں، انہوں نے اپنے شوہر کے اثاثہ جات کی تفصیل بھی لکھی ہے۔

زلفی بخاری جو سیک ویلے لمیٹڈ نامی ایک کمپنی کے بھی مالک ہیں جس کی ملکیت برطانیہ میں دو اپارٹمنٹ بھی ہیں نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں ایک فلیٹ کے مالک ہیں جو بینک کے ساتھ مارگیج کی گئی ہے، زلفی بخاری برطانیہ میں چار قیمتی گاڑیوں اور پاکستان میں ایک لینڈ کروزر کے بھی مالک ہیں۔

وزیراعظم کے مشیران و معاونین کی طرف سے جمع کرائے گئے اثاثہ جات میں آمدن کے ذرائعے لکھے گئے ہیں نہ ٹیکسوں کی تفصیلات ہیں بلکہ بعض نے تو اپنے اہل خانہ کے ملکیتی اثاثوں کا ذکر بھی نہیں کیا۔

تازہ ترین