سپریم کورٹ میں کورونا ازخودنوٹس کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس عہدے کے اہل نہیں، سی اے اے چلانا آپ کے بس کی بات نہیں ،پائلٹ کو لائسنس دیتے وقت سی اے اے کے تمام کمپیوٹربند ہو گئے، ہمارے لئے شرم کامقام ہے کہ پائلٹس کے لائسنس جعلی نکلے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سماعت کے دوران اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں دنیا کی قوموں میں ہم کرپٹ ترین ملک ہیں، ہم بدنامی کی کس نہج تک جائیں گے؟ مزید بدنامی کی گنجائش نہیں، آپ نے لوگوں کی کی زندگیاں داو پر لگادیں۔
چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی رپورٹ میں سوائےآپ کی نااہلیوں کے کچھ بھی نہیں، آپ کے سارے کمپیوٹر کمپرومائز ہوگئے،لوگوں نے آپ کے کمپیوٹرز میں گھس کر خود ہی لائسنس بنالیے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے سوال کیا کہ آپ استعفی دے رہے ہیں یا ہم کارروائی کریں؟ آپ نے ایک بھی شخص کے خلاف اب تک کارروائی نہیں کی۔
ڈی جی سول ایوی ایشن نے جواب دیا کہ ذمہ داروں کو معطل کیا گیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معطل ہونے والے بھی تو تنخواہیں لے رہے ہیں، شرم کا مقام ہے، آپ کے تمام ایئر پورٹس پر کرپٹ لوگوں کا راج ہے۔
چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر پہلے ہی ایک فراڈ کا بوجھ ڈال دیا آپ نے،ایک اورمشہوری ہوگئی،
ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ فارنزک آڈٹ کے مطابق 262 لائسنس جعلی ہیں، 28 لائسنس منسوخ کرکے 189 کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے، فارنزک آڈٹ تھرڈ پارٹی سے 2010 سے 2018 تک کروایا گیا۔
چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے مکالمہ کیا کہ کیا مضبوط آدمی ہیں آپ۔ ڈی جی سول ایوی ایشن نے جواب دیا کہ انشاءاللہ میں مضبوط آدمی ہوںجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا انشاءاللہ عملی طور پر نظر نہیں آرہا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ سول ایوی ایشن کا تمام عملہ سمجھوتا کرچکا ہے، جعلی لائسنس دینے والے تمام افسران کو برطرف کریں، سول ایوی ایشن کے تمام افسران کو ان کا حصہ پہنچ رہا ہوتا ہے، جعلی لائسنس پر دسخط کرنے والے جیل جائیں گے،حکومت کی منظوری سے ایف آئی اے کو معاملہ بھجوائیں گے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حالت دگرگوں ہیں، سول ایوی ایشن کا عملہ کمپرومائزڈ ہے، کمپیوٹر سسٹم غیر محفوظ ہے، ڈی جی سول ایوی ایشن پائلٹس کے جعلی لائسنس والے معاملے پرفوری ایکشن لیں اور ایسے افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ معاملے میں ملوث ایوی ایشن حکام کے خلاف محکمانہ اور فوجداری کاروائی کی جائے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جعلی لائسنس کے بجائے مشتبہ لائسنس کا لفظ استعمال کریں۔