سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع، معدنی وسائل سے مالا مال ضلع، گھوٹکی خاصا ٹیکس جنریٹ کرنے والا ضلع ہے۔ یہاں ملکی سطح پر یوریا کھاد کی ضروریات پوری کرنے والے دو بڑے صنعتی یونٹس کے علاوہ پاور پلانٹس اور گیس کی کمپنیز بھی ہیں۔ اس زرخیز صنعتی علاقے میں ڈہرکی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تاریخی اہمیت کا حامل سندھ کا سب سے بڑا مندر، ’’رہڑکی سچو سترام دھام مندر‘‘ بھی واقع ہے۔
دوسو سال قدیم اس مندر کے پہلے گدّی نشیں سائیں کھوتا رام مقرر ہوئے۔ ان کے بعد سچو سترام داس دوسرے گدّی نشین بنے، تاہم ان کی کوئی اولاد نہ ہونے کے باعث معروف راگی، بھگت کنور رام کو گدّی نشینی سونپ دی گئی۔ بھگت کنور رام اپنی سریلی آواز کی وجہ سے اقلیتی برادری میں بہت پسند کیے جاتے تھے۔
وہ ہندوئوں کے علاوہ مسلمانوں میں بھی خاصے مقبول تھے۔ انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردینے والے بھگت کنور کو اقلیتی برادری نے بھگتی کا لقب دیا، لیکن 1939ء میں ہندو مسلم فساد کے باعث خاندان سمیت بھارت ہجرت کرگئے، جس کے بعدگدّی نشینی کا تسلسل موقوف ہوگیا۔ پھر کئی سال بعد سچو سترام داس کے پوتے، چندر رام کو گدّی نشینی دی گئی۔
ان کے بعد بالترتیب بھگوان داس، سائیں کنہیا لعل اس مسند پر فائز ہوئے۔ آج کل ’’سچو سترام دھام مندر‘‘ کی گدّی نشینی سائیں سادھ رام کے پاس ہے۔ 75ایکڑ پر مشتمل سندھ کے اس سب سے بڑے مندر کے سہ منزلہ ہاسٹل میں بیک وقت تین ہزار افراد کے لیے رہائش کی سہولت موجود ہے۔
یہاں ہر سال 10سے 12اپریل تک سچو سترام داس اور بھگت کنور رام کا جنم دن دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ جب کہ 23سے 25اکتوبر تک ایک بڑا میلہ بھی منعقد ہوتا ہے۔ جس میں گردو نواح سے بیس ہزار سے زائد ہندو یاتری شرکت کرتے ہیں۔ اس موقعے پر خصوصی پوجا پاٹ ہوتی ہے۔ پھر ہولی اور دیوالی کے علاوہ ہر ماہ چاند رات کی پہلی جمعرات کو سائی وسپت بھی منائی جاتی ہے۔ اس دوران 50غریب نادار لڑکیوں کی مفت شادیوں کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ نیز، مندر کے وسیع لنگر خانے میں روزانہ لنگر کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
حکومتِ پاکستان کے اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پرانے سے نئے مندر تک کے طویل سفر کو سہل بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے یہاں چھبیس کروڑ روپے کی لاگت سے ایک اوور ہیڈ برج تعمیر کیا ہے۔ تعمیر و مرمت کے کاموں میں یاتریوں کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کے ساتھ حکومتِ سندھ کے منیارٹی فنڈز کا بھی اہم کردار ہے۔ منیارٹی افیئرسندھ کی جانب سے مختص فنڈز سے نہ صرف ضلع گھوٹکی بلکہ سندھ بھر کی اقلیتی عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے منیارٹی افیئر سندھ کے ڈپٹی ڈائریکٹر، ذوالفقار شاہ کا کہنا ہے کہ ’’ایم این اے ترقیاتی فنڈز میں مندروں کی تعمیر و آرائش کے لیے رقم مختص کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ملنگ بابا مندر کے لیے 23لاکھ، حیات پتافی شدانی دربار میں پنچایت ہال اور شمشان گھاٹ کے لیے 80لاکھ روپے مختص کیے گئے، جب کہ حال ہی میں سچو سترام دھام برانچ گھوٹکی میں نامعلوم افراد کی مندر میں توڑ پھوڑ کے بعد حکومتِ سندھ کی جانب سے اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کے لیے خصوصی طور پر50لاکھ روپے مہیّا کیے گئے۔‘‘
1973ء کے آئین كی رو سے ملک میں اقلیتوں كو ہر قسم كا تحفظ حاصل ہے اور تمام شہری قانون كی نظر میں برابر تصور کیے جاتے ہیں۔ ریاست نہ صرف اقلیتوں كے جائز حقوق اور مفادات كا تحفظ كرتی ہے، بلکہ انہیں وفاق اور صوبوں کی ملازمتوں میں بھی مناسب نمائندگی دی جاتی ہے، پھر صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں كے لیے اضافی نشستیں بھی مختص كی گئی ہیں- غرض یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں کو بھرپور حقوق کے ساتھ مندروں میں مذہبی رسومات کی بھی کھلی آزادی حاصل ہے۔
اس حوالے سے ایس ایس ڈی دھام مندر کے منتظم اعلیٰ، اشوک نے بتایا کہ ’’ہندوئوں کی مذہبی رسومات مسلمان بھی دیکھنے آتے ہیں اور میڈیا کو بھی مکمل کوریج کی اجازت ہوتی ہے۔‘‘ جب کہ اس ضمن میں حافظ ملّت ویلفیئر کے چیئرمین، میاں عبدالمالک کا کہنا ہے کہ ’’مندروں کا کوئی مخالف نہیں ہے۔ یہاں ہر قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذاہب کی پیروی کی مکمل اجازت ہے۔ مگر حکومت کو چاہیے، اقلیت اور اکثریت کو برابر سمجھے۔ اقلیت کی خاطر اکثریت کو مایوس کرنا بھی عدل و انصاف نہیں۔ حکومت جس طرح مندروں کے لیے فنڈز مختص کرتی ہے، اسی طرح اسے مساجد اور مدارس کے لیے بھی پیکیجز فراہم کرنے چاہئیں۔‘‘