• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وادی مہران نے شوبزنس کو باصلاحیت فن کاروں سے نوازا

آر کے نیئر

وادی مہران کی ٹھنڈی سرمئی شاموں والے شہر حیدر آباد اور اس کے فن کاروں نے ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ اداکار محمد علی، مصطفٰی قریشی،عابدہ پروین سمیت ایک طویل فہرست ہے، جن کا ذکر کیے بغیر پاکستانی شوبز کی تاریخ ادھوری و نامکمل کہلائی گی۔ حیدر آباد کے فن کاروں نے اپنے فن و سر سنگیت کے رنگوں کو مزید خُوب صورت بنانے کے لیے سچائی کے ساتھ کام کیا۔ ان کا نام اور کام دُنیا بھر میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان شہرت یافتہ فن کاروں کے علاوہ ایسے بے شمار فن کار آج بھی ماضی کے اداکاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بے پناہ مشکلات کے باوجود پاکستانی چینلز پر پرفارم کرتے نظر آتے ہیں، وہ دن زیادہ دور نہیں، جب پاکستان کے نام ور فن کاروں کی فہرست میں موجود اداکاروں کے نام بھی نظر آئیں گے۔ 

حیدر آباد جسے سرمئی شاموں کی وجہ سے شہرت حاصل ہے، وہیں اسے یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ یہاں سے پاکستانی ثقافتی محاذ پر بڑے بڑے نام ابھرے، دنیا میں وادی مہران کی پہچان بنانے میں یہاں کی اجلی صبحوں ، چمکیلی سہ پہروں اور سر مئی شاموں والے اس شہر حیدر آباد نے زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح شوبز میں بھی کئی گوہر نایاب شخصیات کو جنم دیا ہے۔ جیسے نور محمد لاشاری، محمد علی، مصطفی قریشی، عابدہ پروین، شاہ نواز، حمیرا چنہ، چکوری، سلطان شیخ، خالد سلیم موٹا ، منظور مراد ،فرید نواز بلوچ، یاسر نواز، بلاول، شہناز سومرو، ایم اے راجا، یعقوب ذکریا، لیاقت ندیم، سلیم چھبیلا، عارف انصاری، سلیم جاوید ، امجد رانا ، معین جمال، مشتاق چنگیزی، وغیرہ ۔ 

پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا تعلق بھی حیدر آباد کی معروف ایڈوانی گلی چھوٹکی گٹی سے رہا۔ ادب کے شعبے میں نور الہدیٰ شاہ، عبد القادر جونیجو، حمایت علی شاعر، امر جلیل، قابل اجمیری، حسن منظر، ڈاکٹر مصطفی، ابراہیم جویو، سمیت دیگر بے شمار نام ہیں، جنہوں نے انتہائی اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق کیا۔ شاعری، موسیقی ، اسٹیج ڈرامے اور سُر سنگیت سے زندگی کے رنگوں کو مزید خُوب صورت بنانے والے ان فن کاروں کے لب و لہجے و مٹھاس نے بے راہ روی، بے یقینی اور بے چینی کے ہر دور میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر امن و محبت کو فروغ دیا اور یک جہتی کے گیت گائے۔

پاکستانی ثقافت کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں حیدر آباد کے فن کار اپنی پُوری صورت گری کے ساتھ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ آج کی زندگی اندھیروں کے نا معلوم راستوں پر آگے بڑھتی نظر آرہی ہے، مگر زندہ دلانِ حیدر آباد نے اپنی امنگوں، نئے اجالوں ، نئی خوشبوؤں اور رنگوں سے ہمیشہ روشن کیا ہے، گو کہ ان کے قلم کاروں، شاعروں، پرو ڈیوسرز ، ڈائریکٹرز اور فن کاروں کو وہ سہولیات میسر نہیں، جو ملک کے دیگر فن کاروں کو حاصل ہیں، پھر بھی فن و فن کاروں کے اس شہر سے تعلق رکھنے والے ہنر مندوں نے نا مساعد حالات و سہو لیات کے فقدان کے با وجود ثقافتی سر گرمیوں کو زندہ رکھتے ہوئے اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور کر رہے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک کے مختلف چینلز پر حیدر آباد شہر کے فن کار فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے داد وصول کرتے ہیں۔ انہیں اجاگر کرنے میں ، حیدر آباد اسٹیج کے معروف پرو ڈیوسر و ڈائریکٹر سلیم گڈو کا نام نمایاں ہے، جنہوں نے محض دو برس کے مختصر عرصے میں پچاس سے زائد ایسے کھیل پیش کیے، جن میں مقامی فن کاروں کو موقع فراہم کیا، جس سے ان فن کاروں میں اعتماد بھی پیدا ہوا ۔

 نہ جانے کیوں کمرشلی لحاظ سے حیدر آباد اسٹیج آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کی بنیادی وجہ اوپن ایئر تھیٹر کی زبوں حالی اور گرم ترین موسم میں مہران آرٹس کونسل کے ہال کا خراب اے سی بھی ہو سکتا ہے، جس کے باعث فیملیز کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے علاوہ ڈریسنگ و باتھ رومز کے دروازے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ سب اور فن کاروں کی حالت زاردیکھ کر دکھ ہوتا ہے ، دوسری جانب سلیم گڈو ہال میں موجود شائقین و فن کاروں کو اس گرم ماحول سے نجات دلانے میں سر گرداں نظر آتے ہیں ، لیکن کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکلتا۔سلیم گڈو، حیدر آباد اسٹیج کے واحد پروڈیوسر ہیں ،جن کے اسٹیج ڈراموں میں مقامی و ملک کے نامور فن کاروں کو جھرمٹ نظر آتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین