پانچ ہفتے کی سخت ٹریننگ کے بعد اب ایکشن کا وقت ہے۔انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان پہلا ٹیسٹ مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ گراونڈ میں شروع ہورہا ہے۔ یہ وہی میدان ہے جہاں پر پاکستان نے 2001 میں انگلینڈ کو ایک سنسنی خیز میچ کے بعد ہرایا تھا لیکن وہ ٹیسٹ میچوں میں اس گراؤنڈ پر پاکستان کی واحد فتح تھی۔ پاکستان نےمانچسٹر اب تک چھ میچ کھیلے ہیں جن میں سے اسے دو میں شکست اور ایک میں فتح حاصل ہوئی ہے جبکہ باقی تین میچ ڈرا ہوئے ہیں۔پاکستان کا دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ ساؤتھیمپٹن میںکھیلا جائے گا۔ اس میدان پر اب تک صرف چار ٹیسٹ میچ کھیلے گئے ہیں اور 13 اگست کو پاکستان کی ٹیم پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کھیلنے اس میدان پر اترے گی۔گذشتہ چار ماہ میں پہلی بار پاکستانی کرکٹرز کو اصل کرکٹ کا مزہ چکھنا ہوگا۔
ایکشن شروع ہونے سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم سے امیدیں وابستہ کر لی گئی ہیں، شائقین تین ٹیسٹ کی اس سیریز کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔انگلش سر زمین پر پاکستانی ٹیم کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔
2016اور2018میں ٹیسٹ سیریز برابر کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو سخت فائٹ دی تھی۔مصباح الحق اور سرفراز احمد اس بار کپتان نہیں ہیں لیکن د ونوں ٹیم کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں موجود ہیں۔ایشیا سے باہر ٹیسٹ میچوں میں نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ میں پاکستان کا فتح اور شکست کا تناسب سب سے بہتر یعنی صفر اعشاریہ پانچ ہے۔اس ملک میں پاکستان نے 2009 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اور 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی بھی یہیں جیت رکھی ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت اظہر علی کے پاس ہے جب کہ اس کی بیٹنگ لائن میں بابر اعظم،اسد شفیق،شان مسعود،فواد عالم ،عابد علی،محمد رضوان اور افتخار احمدجیسے بیٹسمین ہیں۔
لیکن گذشتہ سیریز کی طرح اس بار پاکستان کو جس شعبے سے بہت زیادہ امیدیں ہیں وہ بولنگ کا ہے۔نوجوان شاہین شاہ آفریدی،نسیم شاہ، تجربہ کارمحمد عباس،سہیل خان کے علاہ اسپنر یاسر شاہ اور شاداب خان انگلش ٹیم کو ٹف ٹائم دینے کے لئے تیار ہیں۔سائیڈ میچوں میں نسیم شاہ،شاہین شاہ اور محمد عباس نے جس طرح کی بولنگ کی ہے اس سے امید ہے کہ پاکستانی فاسٹ بولنگ انگلش بیٹنگ کے لئے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگی۔محمد عباس انگلینڈ میں کاونٹی کرکٹ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
عباس نےاب تک صرف 18 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں وہ 20 کی اوسط سے 75 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ چار مرتبہ میچ میں پانچ وکٹیں جبکہ ایک بار 10 وکٹیں بھی لے چکے ہیں۔بر طانیہ میں ان کی سب سے اچھی اوسط انگلینڈ اور آئرلینڈ میں ہی ہے۔ انگلینڈ میں انھوں نے دو ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں 14 کی اوسط سے 10 وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
سہیل خان نے دو سائیڈ میچوں میں پانچ پانچ وکٹیں حاصل کرکے سلیکشن کو مشکل بنادیا ہے۔سہیل خان کا سلیکشن سرپرائز ہوا اب انہوں نے اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کردیا ہے۔لیکن دونوں بار ان کی کارکردگی پہلی اننگز میں رہی۔36سال کی عمر میں انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم میں کم بیک کرنے والےفاسٹ بولر سہیل خان کا کہنا ہے کہ پریکٹس میچ سے قبل وقار یونس نے لیٹ سوئنگ کا فن سکھایا، جس کا فائدہ ہوا۔انگلینڈ میں کنڈیشنز پاکستان سے مختلف ہیں، یہاں ہر بولرکا گیند سوئنگ ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے چار روزہ پریکٹس میچ سے قبل وقار یونس سے لیٹ سوئنگ کا فن سیکھنے کی کوشش کی۔
وقار یونس ایک لیجنڈ ہیں جو بات انہیں گذشتہ چند روز سے الجھائے ہوئے تھی، وقار یونس نے وہ5 منٹ میںسکھا دی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انٹرا اسکواڈ پریکٹس میچ کی پہلی اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کیں۔ڈاربی میںانگلینڈ کے خلاف سیریز کی تیاریوں کے سلسلے میں کھیلے جانے والے پہلے چار روزہ انٹرا اسکواڈ پریکٹس میچ کی پہلی اننگز میں 5وکٹیں حاصل کرنے والے سہیل خان نے اپنی عمدہ کارکردگی کا کریڈیٹ وقار یونس کو دیتے ہوئے کہاہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ نے انہیں انگلینڈ میں لیٹ سوئنگ کے گر سکھائے ہیں۔انٹرا اسکواڈ پریکٹس میچ میں انگلش کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھانے والے سہیل خان نے اس سے قبل 2016 میں دورہ انگلینڈ کے 2 ٹیسٹ میچوں میں 25 کی اوسط سے 13 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
اس سیریز میں انہوں نے 2 مرتبہ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں بھی اپنے نام کیں۔پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان یہ ٹیسٹ سیریز 2-2 سے برابر رہی تھی۔سہیل خان نے مزید کہاکہ وہ ٹیم میں وقار یونس کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بولنگ کا فن سیکھنے کے لیے وقار یونس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ 4 سال بعد ٹیم میں واپسی پر انہیں فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2016 میں دورہ انگلینڈ میں 2 مرتبہ پانچ وکٹیں حاصل کرنے کے بعد اسی سرزمین پر ایک بار پھر اچھی بولنگ کرنے پر وہ بہت خوش ہیں۔
سہیل خان نے کہا کہ جس طرح کورونا وائرس کے وقفے کے بعد ٹیم انتظامیہ نے ایک منصوبہ بندی کے تحت کھلاڑیوں کی بتدریج کرکٹ میں واپسی کے عمل کو یقینی بنایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکواڈ میں شامل تمام کھلاڑی مصباح الحق، وقار یونس،یونس خان اور مشتاق احمدکی انگلش کنڈیشنز سے ہم آہنگی کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ سہیل خان کا کہنا ہے کہ کہا کہ نوجوان نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی باصلاحیت کھلاڑی ہیں اور وہ دونوں نوجوان فاسٹ باؤلرز کی نیٹ اور میچ میں عمدہ کارکردگی پر بہت خوش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نسیم شاہ کو 150 کی رفتار پر بولنگ کرتے دیکھنا ایک پرمسرت لمحہ ہوتاہے جبکہ شاہین شاہ آفریدی ایک بہترین بولرہیں۔
پاکستان کو دنیا کے صف اول کے بیٹسمین بابر اعظم سے ٹیسٹ سیریز میں دھماکہ خیز کارکردگی کی توقع ہے۔بابر اعظم نے گذشتہ سال ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایجبسٹن میں زندگی کی یادگار سنچری بنائی تھی۔وہی کلاس بابر اعظم کو اس سیریز میں بھی دکھانا ہوگی۔بابر اعظم نے اب تک 26 ٹیسٹ میچوں میں پانچ سنچریوں اور 13 نصف سنچریوں کی مدد سے 1850 رنز بنا رکھے ہیں۔ ان کی اوسط 45 کی ہے۔انگلینڈ میں اب تک انھوں نے سنہ 2018 کی سیریز کے دوران ایک ہی اننگز کھیلی جس میں وہ 68 رنز بنانے کے بعد زخمی ہو گئے اور بیٹنگ جاری نہ رکھ سکےتھے۔
سنہ 2016 میں ان کی اوسط 32 تھی جو اگلے برس گر کر 16 ہو گئی لیکن سنہ 2018 میں انھوں نے 56 جبکہ گذشتہ برس 68 کی اوسط سے رنز بنائے۔پاکستان کے کپتان اظہر علی نے تو سنہ 2010 کی متنازع سیریز میں انگلینڈ میں ہی ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا اور دوسری اننگز میں نصف سنچری بھی سکور کی تھی۔ ایک سنچری اور تین نصف سنچریوں کے باوجود اظہر علی کی انگلینڈ میں اوسط محظ 29 کی ہے۔
اظہر اب تک انگلینڈ میں 12 میچ کھیل چکے ہیں۔گذشتہ دو برسوں میں بھی اظہر علی کی ٹیسٹ میچوں میں پرفارمنس خاطر خواہ نہیں رہی۔ سال 2017 میں ان کی رنز بنانے کی اوسط 42 کی رہی جو ان کی موجودہ اوسط بھی ہے لیکن اگلے برس یہ گر کر 30 جبکہ گذشتہ برس صرف 21 رہی۔پاکستان کے سب سے تجربہ کار بیٹسمین اسد شفیق کے بھی انگلینڈ میں ملے جلے اعداد و شمار ہیں۔
انھوں نے اب تک یہاں ایک سنچری اور دو نصف سنچریاں بنائی ہیں۔اسد شفیق بھی اظہر علی کی طرح اس گذشتہ دہائی میں پاکستان کی بیٹنگ کا مستقل حصہ رہے ہیں تاہم ان کی کارکردگی میں گذشتہ تین سے چار سالوں کے دوران تنزلی آئی ہے۔حارث سہیل کی انگلینڈ ذاتی وجوہات کی بنا پر سفر نہ کرنے کے باعث خالی ہوئی ہے۔ بیٹنگ پوزیشن پر فواد عالم کے ٹیسٹ کرکٹ میں 11 برس بعد کم بیک کر یں گے یا نہیں یہ سوال بھی دلچسپ ہے۔مصباح اور اظہر علی کے پاس اس حوالے کم از کم تین اور متبادل بھی موجود ہیں۔ اگر وہ آلراؤنڈر کے ساتھ ٹیم میں توازن لانا چاہیں تو وہ فہیم اشرف اور شاداب خان کی خدمات لے سکتے ہیں۔الیون کا انتخاب بھی دلچسپ ہوگا۔
انگلینڈ میں بہت سارے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کے لئے بھی بڑی آزمائش ہوگی۔تین سال تک کپتانی کرنے کے بعد سرفراز احمد اب ٹیسٹ میچوں میں پہلی چوائس نہیں ہوں گے۔رضوان نے سائیڈ میچ میں دورے کی پہلی سنچری بنائی تھی۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کے لیے موجودہ صورتحال چیلنجنگ ہے کیونکہ انھوں نے ایسے وقت میں سرفراز احمد کی جگہ لی ہے جب وہ تینوں فارمیٹس میں پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے اور ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی جتوانے کے ساتھ ساتھ ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں بھی پہلے نمبر پر لے آئے تھے۔
اس کے علاوہ گذشتہ چند برسوں میں سرفراز کی فین فالوئنگ بھی بہت رہی ہے۔سرفراز احمد کو جن حالات میں ٹیم سے الگ کیا گیا ان کے لیے شائقین کی ہمدردی میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب محمد رضوان کو بھی اندازہ ہے کہ انھیں ٹیم کے نمبر ون وکٹ کیپر کے طور پر رہنے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ڈاربی میں اکستانی ٹیم کے چار روزہ پریکٹس میچ میں محمد رضوان نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے پہلی اننگز میں ناقابل شکست نصف سنچری اور دوسری اننگز میں ناقابل شکست سنچری اسکور کی ہے اور وہ ہی نمبر ایک وکٹ کیپر کے طور پر ٹیسٹ سیریز کا آغاز کریں گے۔
محمد رضوان سرفراز احمد کے ساتھ مقابلے کو ماضی میں راشد لطیف اور معین خان کی طرح دیکھتے ہیں۔نوے کی دہائی میں جس طرح راشد لطیف اور معین خان کے درمیان ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے صحت مندانہ مقابلہ رہتا تھا یہی صورتحال اس وقت میرے اور سرفراز احمد کے ساتھ ہے لیکن میں یہی کہوں گا کہ سیفی بھائی (سرفراز احمد) میرے سر کا تاج ہیں۔ہمارے دلوں میں کوئی منفی بات نہیں ہے۔ میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں۔ ان کی بھی خواہش ہے کہ ٹیم میں جگہ بنائیں اور میں بھی یہی خواہش رکھتا ہوں کہ ہم میں سے جو بھی فارم میں ہو وہ ٹیم میں کھیلے۔
رضوان کہتے ہیں کہ ’میں خود بھی سرفراز کا بہت بڑا پرستار ہوں۔ میری سوچ اس بارے میں بالکل سادہ سی ہے کہ دنیا امتحانات کی جگہ ہے اور اللہ تعالی کبھی کسی کو دے کر امتحان لیتا ہے اور کبھی کسی سے لے کر امتحان لیتا ہے۔محمد رضوان کا کہنا ہے کہ ’انگلینڈ کے دورے میں سرفراز احمد کی موجودگی سے میں خود پر کسی قسم کا دباؤ محسوس نہیں کر رہا ہوں کیونکہ جب بھی کوئی بڑی سیریز ہوتی ہے ٹیم میں دو وکٹ کیپرز ہوتے ہیں۔ میں اس دورے میں سرفراز سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ وقار یونس کو امید ہے کہ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز شروع ہونے تک ان کے بولر اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ میزبان ٹیم کو چیلنج کرسکیں۔ انگلینڈ میں پاکستانی ٹیم نے ہمیشہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ پاکستانی شائقین سے یہی کہیں گے کہ ہم سے امید نہ چھوڑیے، بھروسہ رکھیے ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔شائقین اس بار بھی پاکستانی کرکٹرز سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
عید سے فارغ ہوکر جب وہ کرکٹ میچ دیکھنے ٹی وی کے سامنے بیٹھیں گے تو انہیں اپنے کھلاڑیوں سے ایک بات پھر اچھی اور میچ وننگ کارکردگی کی توقع ہے۔ورنہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے جس طرح ایک وقت میں کئی محاذ کھولے ہوئے ہیں ۔پی سی بی مخالف لابی نے چھریاں تیز کر لی ہیں اور وقت کا انتظار کررہی ہے۔