اپوزیشن اور حکومت ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آنے کو تیار ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا نتیجہ کیا نکلا؟ آئینی اور قانونی بلز کی منظوری کا عمل کیسے مکمل ہوتا ہے، اپوزیشن کی طرف سےعوام دشمن قرار دیا گیا بجٹ کیسےبطریق احسن منظور کرایا جاتا ہے۔ انہی واقعات سے متاثر اپوزیشن حکومت کے ساتھ نیب سے چھٹکارا پانے کی خواہش میں بند کمرے میں بھی جا بیٹھی، دونوں طرف سے ’’عوامی مفاد“ میں نیب ترامیم کے مسودے بھی ذوق و شوق سے تیار کرکے پیش ہوئے مگر سب سراب تھا، محض خواب تھا۔ عدم اتفاق اور بدگمانیاں بڑھیں اور مذاکرات ایک دوسرے کو جھوٹا اور دھوکہ باز قرار دینے پر منتج ہوئے۔ ناکامی و غصے کی آگ پارلیمنٹ کے اندر پہنچی، عوام کے منتخب نمائندے عوام کی بات تو کر نہ سکے البتہ ایک دوسرے پر این آر او، تحقیر آمیز الزامات اور بدترین لفظی جنگ نے ایوان کے ماحول کو آلودہ ضرور کردیا۔ باہر نکل کر بپھری اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر حکومت کو گرانے کی دھمکی دے ڈالی۔ ملاقاتیں اور فون پر عہد وپیمان کرکے دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے چیئرمین اور صدر نے کندھے ملائے اور تھپتھپائے بھی لیکن حکومت مخالف تحریک کی قیادت ایک دوسرے پر ڈال کر چلتے بنے۔ خبر بنی کہ اپوزیشن پہلے اے پی سی بلائے گی پھر بڑی تحریک چلا کر حکمرانوں کو چلتا کرے گی۔ حقیقتِ احوال ہے کہ گزشتہ دو سال میں پی پی پی، (ن) لیگ، جے یو آئی (ف) سمیت چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا اتحاد سیاسی ایوانوں میں محض دکھاوا بن کر رہ گیا ہے اور حکومت کے خلاف انقلاب کی نئی کوششیں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور طاقتوروں کو خوش کرنے میں بازی لے جانے کی کوششوں کا حصہ نظر آتی ہیں۔
بااثر حکومتی حلقے سمجھتے ہیں کہ یہ وہی اپوزیشن ہے جس کے قائدین بغیر اجازت بولنا گوارا نہیں کرتے تو حکومت گرانے کیلئے کسی ایک نکتے یا لائحہ عمل پر آزادانہ طور پر متفق کیسے ہو سکتے ہیں۔ بظاہر اپوزیشن کے پاس عدم اعتماد لانے کی عددی صلاحیت سے محرومی اور دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے حقیقی سربراہوں کی بیماری بھی بڑے مسئلے ہیں، ایک کراچی کے محل میں اور دوسرے لندن کے پوش ایریا میں زیر علاج ہیں، ایسے میں اپنے اندر کئی گروپس میں تقسیم اپوزیشن کے لئے ایک پلیٹ فارم اور ایک نکتہ پر متحد ہونا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ سیاسی نقادوں کی رائے میں اپوزیشن موجودہ سیاسی حالات میں حکومت کے خلاف مہم جوئی کا نعرہ لگاکر اپنے لئے خود نیا چیلنج اور امتحان کھڑا کرتی ہے اور پھر خودہی اس کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے اہم ترین رہ نما تو یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی اعلیٰ قیادت فیصلہ کر چکی ہے کہ ”ارلی یا مڈٹرم الیکشن ان کی ترجیح نہیں جبکہ موجودہ تباہ کن معاشی حالات میں فوری کرسی لینا کسی صورت سودمند نہیں‘‘، تو پھر کون سی اے پی سی اور حکومت گرائو تحریک؟ حالات کو بھانپتے ہوئے اپوزیشن کی محاذ آرائی کا واحد مقصد حکومت پر دبائو برقرار رکھنا اور سیاسی منظرنامے میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہی رہ جاتا ہے، عملی اظہار کی خاطر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہلکی پھلکی موسیقی اور گھن گرج ہی اپوزیشن کی واحد حکمت عملی ہے۔ بعض نقاد اس کامیاب سیاسی حربے پر اپوزیشن کو فرینڈلی سے زیادہ حکومت کی سہولت کار اپوزیشن قرار دے رہے ہیں۔ ایک بڑا ثبوت (ن) لیگ کے اہم ترین رہنما شاہد خاقان عباسی کا انٹرویو جس میں انہوں نے اپنی جماعت کی جمہوریت کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے دعوے کا بھانڈا یہ کہہ کر پھوڑ ڈالا ہے کہ نواز شریف کے خلائی مخلوق کا بیانیہ (ن) لیگ کا بیانیہ نہیں، انہوں نے اپنے قائد اور ان کی بیٹی کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریے کے تابوت میں یہ کہہ کر آخری کیل ٹھونک دی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ سے الگ ہوکر نہیں چلا جا سکتا انہیں ساتھ لے کر چلنا ضروری ہوتا ہے۔ یہی نہیں شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کے دیرینہ ساتھی پرویز رشید پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی آئینی ترمیم پر اعتراض تھا تو وہ مستعفی ہو جاتے۔ (ن) لیگ کےکئی سینئر رہنما نجی محفلوں میں یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ شاہد خاقان کا بڑے میاں کے بیانیہ پر بڑا یوٹرن دراصل پارٹی صدر شہباز شریف کے بیانیہ کی توثیق ہے جس کےتحت انہوں نے خفیہ ملاقاتیں کیں اور ڈیل کے ذریعے اپنے سزا یافتہ بھائی کو جیل سے لندن بھجوا کر حکومت کو بھی حیران اور پریشان کردیا تھا، انہی رہنمائوں کی رائے میں اب کی بار بھی بڑے میاں پانچ سے دس سال تک واپس نہیں آئیں گے اور اب صرف شہبازی بیانیہ پر سیاست ہوگی، اس بیانیہ کی حمایت خواجہ آصف نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں کی ہےکہ حکومت گرانے کا تو ابھی کوئی فارمولا نہیں مگر ملک کو موجودہ گرداب سے نکالنے کیلئے سیاسی، عسکری، عدلیہ سمیت سب کو ایک صفحے پر ہوکر اور مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔
وطنِ عزیز میں برسوں سے امتحان کا شکار بےچارےعوام بدستور پریشان ہیں، مقتدر کرسی کا مزہ لینے اور اپوزیشن اقتدار کی خواہش اور کشمکش میں پھنسی ہے، عوام کو محض دلاسے کی خاطر سخت زبان اور حکومت ہٹاؤ تحریک کی دھمکی دے ڈالتی ہے حالانکہ اپوزیشن جانتی ہے کہ اس مہم جوئی میں دل و جان سے وہ خود راضی ہے نہ ان کے حلیف۔ حکمران مافیا کے ذریعے مافیا کے خلاف جہاد کی نئی منطق پر عمل پیرا ہیں نتیجتاً عوام کی آٹا، چینی، گھی، دالوں سمیت بنیادی اشیاء تک رسائی بھی ناممکن ہوتی جارہی ہے۔ وزیراعظم نوٹس لیتے ہیں تو چیزیں پہلے سے کئی گنا مہنگی ہوجاتی ہیں یا نایاب۔ بس تحریک اور انقلاب کے نعروں سے تبدیلی اور اقتدار کی خاطر روز نئے سیاسی پینترے بدلنے کا منظر دیکھتے رہیے کیونکہ وبائی کورونا کی طرح سیاسی کورونا کے علاج کے لئے عوامی مفاد کی ویکسین کی دستیابی تک صبر اور خود پر جبر کےسوا کوئی چارہ نہیں!