ہم سب نے کورونا، مہنگا آٹا، چینی، کراچی نالوں کا کچرا،ذخیرہ اندوزی اور اپنی بدعادتوں پربہت کچھ لکھ لیا ۔ کچھ عرصہ قبل جب میں نے صبیحہ خانم کی وفات کی خبر پڑھی تو اس وقت سے میرے اندروہ سب یادیں کلبلا رہی تھیں جوانکی زندگی میں خوشیاں سنتوش بھائی کے ساتھ رہیں اور انکے اچانک ہارٹ فیل ہونے کے بعد صبیحہ جو گھر کی ملکہ بنی ہوئی تھیں، پہلی بیگم کی حکومت کے ماتحت ایسے گئیں کہ نہ گھر رہا اور نہ کمانے والا ۔ صبیحہ نے اپنی بیٹی کی شادی ولی صاحب( فلم والے) کے بیٹے ظفر (جو ہمارا دفتر کا کولیگ تھا) انکے بیٹے سے کردی تھی ۔ ولی صاحب کی بیگم راگنی تھیں، وہی راگنی جسکی آنکھوں کی تعریف پورا برصغیر کرتا تھا ۔ وہ اس بیوگی کے عالم میں ایک درزن رکھ کر لوگوں کے کپڑے سلوا کردیتی رہیں اور یوں روزمرہ کی زندگی خاموشی سے گزار تی رہیں۔ اب نچلے گھر میں راگنی اور اوپر کے گھر میں صبیحہ کی بیوہ بیٹی اور صبیحہ رہنے لگیں۔ کچھ عرصہ بعد امریکہ جانے کا پروگرام بنایا۔ بیٹا ابھی باقاعدہ سیٹل نہیں ہوا تھا ۔ حالات دیکھ کر واپس آگئیں۔ یہ منظر نہ مجھے کبھی بھولتا ہے اور مجھے رلاتا بھی بہت ہے۔ صبیحہ بھابھی نے اسٹیج پر کام کرنا شروع کردیا ۔ رکشہ میں آتی تھیں اور ڈرامے کے بعد رکشے میں ہی واپس جاتی تھیں۔ اتنی بڑی ایکٹریس کی ڈرامے کے ذریعے بھی معقول آمدنی نہیں تھی ۔ پھر کسی اور ذریعہ سے روٹی روزی کا بندوبست نہیں ہوسکتا تھا۔ آخرکو بچے سیٹل ہوگئے اور وہ امریکہ چلی گئیں۔ جہاں گزشتہ دنوں انکا انتقال ہوا۔ ایک دوسطری خبر آئی۔ زندگی آگے بڑھ گئی۔
صبیحہ ،بالو کی بیٹی تھیں اور بیٹی کو سارے ہنر سکھائے تھے۔ صبیحہ کا قد چھوٹا تھا اور جسم بھی شروع ہی سے بھاری تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود، 25برس تک فلم میں راج کیا ۔ ویسے چاہتیں توفلموں میں ماں کا کردار اچھی طرح ادا کرسکتی تھیں جیسا کہ فلمسٹار بہار، آج تک ، اردو اور پنجابی، دونوں طرح کی فلموں میں ادا کررہی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بیٹے فرمانبردارہیں اور گھربسا ہوا ہے۔ شمیم آرا، غضب کی اداکارہ تھی ۔ فالج کے ہاتھوں بستر پکڑ لیا اور کبھی لندن، کبھی پاکستان رہ کر ، زندگی کو الوداع کہا۔ نیر سلطانہ درپن کے اچانک فوت ہوجانے کے بعد، صبر کرنے والی بی بی ، جیسے رول وہ فلموں میں کرتی تھی ، زندگی میں بھی ایسی ہی صبر والی تھی ۔ اللہ کو اسکا صبر پسند تھا ۔ خاموشی سے اسے بلالیا۔
باجی جیسی فلمیں بنانے والا سلمان اپنے باقی خاندان کی طرح خوبصورت تھا ۔ مارشل لاآیا۔ پبجابی فلموں کا دور شروع ہوا ۔ اردو فلمیں ڈبوں میں چلی گئیں، سلمان اپنا ہنر لپیٹ کر کراچی چلاگیا۔ زریں سے دوری کیا بڑھی۔ بیٹے اور بیٹی نے بھی اپنی اپنی زندگی الگ کرلی ۔ سلمان جیتا ہے مگر اور بہت سے مایوس لوگوں کی طرح ۔امان اللہ اسٹیج پہ جب نیا نیا آیا تو ایسے تیزمرچ لگے فقرے بولتا تھا ۔ آرٹس کونسل کے بورڈ میں، میں بھی تھی ۔ جب کوئی اسکرپٹ آتا جس میں امان اللہ کا کردار ہوتا تو وہ بیس میخمے خالی چھوڑ دیئے جاتے تھے کہ وہ بے ساختہ بولتا تھا مارشل لا میں بھی وہ سنبھل سنبھل کر بولتا تھا کہ کہیں روزی نہ چلی جائے۔ بدنصیب کورونا نے اسٹیج کے سارے اداکاروں کی روزی بند کروادی ۔ وہ ٹیلی وژن پر آنے لگا مگر مرجھایا ہوا۔ ان تما م لوگوں کے بچے نکمے ہوتے ہیں۔ریشماں جب تک صحت مند رہی ۔پورے خاندان کو پالتی رہی کینسر کے دوران،اسنے اپنی بہو کو گانا سکھایا۔ساتھ بیٹھتی پروگرام ختم ہونے سے پہلے، صرف ایک تان لگاتی، سارا مجمع کھڑا ہوجاتا اوررونے لگتا۔ شوکت خانم میں بھی علاج کروایا مگر کئی سال ایک تان لگاکر ، مجمع میں موجود امیر زادوں سے تمغے میں رقم وصول کرتی رہی اور یوں دوائیوں کا خرچہ برداشت کرتی رہی ۔
نورجہاں توآخری سال میں کراچی اسپتال میں رہیں۔ کسی دن ٹیلی وژن پر مشاعرہ ہوتا اور اسمیں ، میں، فراز اور افتخار نہ ہوتے تو تڑپ کرفون کرتی، فوراً پوچھتی خیر تو ہے۔ آخری عمر میں بچوں کی طرح شاعری بھی کرنے لگیں۔ ہر ہفتے کی شام فون کرکے اپنا حال بتاتیں اور بہت سی باتیں کرتیں۔ نازیہ چھوٹی بیٹی ہر وقت انکے کمرے میں ہوتی اور پینٹنگز بناتی رہتی۔ نورجہاں، منٹو کے الفاظ میں’’ نورجہاں ،سرور جہاں‘‘۔ گئی تو بچیوں نے خاموشی سے کراچی ہی میں دفنا دیا۔ لاہور والے روتے رہے کہ یہ تو لاہور کا اثاثہ تھیں۔ بس خاموشی سے کراچی میں ،اسطرح پڑی ہیں جیسے رانی فلمسٹار کو بیٹی نے فوراً دفنا دیاتھا۔
مردوں میں مہدی حسن نے دوشادیاں کیں اور16بچے پیدا کیے ۔ حکومت نے بہت مدد کی ۔ مگر چاہے اسد امانت علی ہو کہ مہدی حسن اور تو اور اب شوکت، حامد علی خاں، اسد اور چھوٹے کے بچوں نے بھی اپنے بینڈ بنالیے ہیں۔ کورونا نے انکی روزی بھی ختم کردی ۔ پاکستان میں جو ہزاروں مزدور خلیجی ممالک سے خالی ہاتھ آرہے ہیں۔ ان سب لوگوں کو کیا سی۔ پیک اور بھاشا ڈیم مالی پناہ دے سکیں گے۔