یوں تو1857ء سے انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد شروع ہوچکی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کانگریس کی وجہ سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اختلافات بھی بڑھتے گئے ۔ سرسید احمد خان جیسے رہنما جو ہندو مسلم اتحاد کے حامی و داعی تھے وہ بھی ہندو اور مسلم اتحاد کی بجائے دونوں کو علیحدہ علیحدہ قوم کہنے پر مجبور ہوگئے۔ مسلمان اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہی ان کی منزل ہے۔
برصغیر میں تاجِ برطانیہ کی جانب سے1936ء تا 1937ء عوام کو اقتدار سونپنے کے پہلے مرحلے میں جو عام انتخابات ہوئے ان میں آل انڈیا مسلم لیگ کو کامیابی نہ مل سکی۔ ہندوستان کے11صوبوںمیں سے کسی ایک میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہوا، جس کے بعدبرصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کمزور پڑنے لگا، ایسے میں مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے پست ہوگئے تھے۔
اپنےحوصلے مجتمع کرکے آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں21مارچ 1940ء کو اجلاس منعقد کیا۔22مارچ کو نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا، اس کے بعد قائد اعظم ؒنے فی البدیہہ تقریر کی اور اس دن کی کارروائی اختتام کوپہنچی۔ اس تاریخی دن جب مسلمانانِ ہند نئے ملک کےحصول کی خاطر منٹو پارک (اقبال پارک) میں جمع ہوئے تو وہاں ان کیلئے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ پہلی بار قائد اعظم کو دیکھنے اور سننے آئے تھے۔ عظیم قائد کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب لوگوں کا جم غفیر قائد اعظم کی انگریزی میں کی گئی تقریر کو سمجھنے سے قاصر تھا لیکن ہر کوئی ان کے لفظوں کی تاثیراور معنوں کو دل کی شرح سے سمجھ رہا تھا اور ایک ایک لفظ اپنی سماعتوں میں اُتار رہا تھا۔
د و دن بعد 23مارچ کو سہ پہر 3بجے بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ قابل عمل ہوگا اور نہ ہی مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملی جغرافیائی اکائیوں کی جداگانہ علاقوںمیںحد بندی نہ ہو۔ قرارداد میںیہ بھی کہاگیا کہ ان علاقوںمیں جہاں مسلمان عددی اکثریت میں ہیں، جیسے کہ ہندوستان کےشمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، ان کو یکجا کرکے آزاد مملکت قائم کی جائے، جن میں شامل اکائیوں کو خودمختاری اور حاکمیت حاصل ہو۔ چوہدری خلیق الزماں نے اس قرارداد کی تائید کی اور مختصر خطاب کیا۔ بعد ازاں مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خان اور عبداللہ ہارون نے قرارداد کی تائید میں مختصر خطابات کیے اور اجلاس کی کارروائی اگلے روز کیلئے ملتوی ہوگئی۔
24مارچ کو دن کے سواگیارہ بجے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی اورمتحدہ صوبہ جات کے نواب محمد اسمعٰیل خان، بلوچستان کے قاضی محمد عیسٰی اور مدراس کے عبدالحمید خان نے قراردادِ پاکستان کے حق میں تقریریںکیں۔ اس دوران کچھ کام کاج نمٹانے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کرسی صدارت سنبھالی اور تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ اس موقع پر قائد اعظم ؒ نے مداخلت کرتے ہوئے عبدالرحمٰن صدیقی کو فلسطین پر قرارداد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سید رضاعلی اور عبدالحمید بدایونی نے اس قرارداد کی حمایت میں تقریریں کیں، جسے فوری طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس کے بعد آئین کی تبدیلی کے سلسلے میں دو مزید قراردادیں پیش کی گئیں اور انہیں بھی فوراً منظور کرلیا گیا ۔ اس کے بعد آئندہ سال کیلئے مسلم لیگ کے عہدیداران کا انتخاب عمل میں لایا گیا، جن کو فوراً توثیق مل گئی ۔ اس کے بعد جب قائد اعظم ؒنےاپنا مختصر خطاب ختم کیاتو رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔
قرارداد پاکستان کے بعد گویا تحریک آزادی میں ایک نئی جان سی پڑگئی۔ 1941ء میں مدراس میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد کو پارٹی کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور اسی بنیا د پر تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا لیکن اس وقت تک بھی ان علاقوںکی واضح نشاندہی نہ ہو سکی تھی، جن پر پاکستان قائم ہونا تھا۔
قرارداد کی منظوری کے بعد قائد اعظم ؒ نے جواہر لال نہرو اورگاندھی سے متعدد مذاکرات کیے۔ مارچ 1942ء میں کرپس کمیشن اور قائداعظم سمیت دیگر رہنمائوں کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے۔ قائد اعظم ؒ ان مذاکرات میں اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔
1946ء کے عام انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ قائد اعظم ؒ کی مدبرانہ قیادت میں مسلمانانِ ہند برصغیر میں اپنی الگ اسلامی جمہوری ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور واشگاف طور پر کہہ دیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اسلامی ماحول میں الگ زندگی بسر کرنے کاموقع دیے بغیر انگریز یہاںسے نہیں جاسکتے۔3جون 1947ء کو سلطنت برطانیہ نے برصغیر میں اپنی سب سے بڑی نوآبادی کی آزادی کا اعلان کیا اور ہندوئوں کی متعصب خواہشات کے برخلاف دو قومی نظریے کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی آزادی کا بھی پروانہ جاری کیا۔
14اگست 1947ء کو و ہ تاریخ ساز دن آگیا جب قائداعظم، ان کے رفقاء اور مسلمانانِ ہند کی تاریخی جدجہد سے مجبور ہو کر برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک پاکستان کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دی۔ اس طرح ایک ایسی اسلامی مملکت وجو د میں آئی جسے سیاسی، عسکری اور جغرافیائی اعتبار سے دنیا بھر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔