• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شائستہ عابد

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک گائوں میں ایک پیارا سا بکری کا بچہ رہتا تھا۔اس کا نام ٹنکو تھا۔وہ ہر روز اپنے امی ابو کے ساتھ پارک جاتا جو گھر سے تھوڑےفاصلے پر تھا۔ وہ پارک بہت ہی سر سبز تھا۔ ہر سوتازہ گھاس اگی ہوئی تھی۔ٹنکو خوب اچھل کود کرتا ۔وہاں اور جانور بھی آتے تھے۔ مرغی اپنے تین بچوں کے ہمراہ ہوتی،خرگوش ،کچھوااور بندر بھی وہاں نظر آتے تھے۔مرغی کے بچے چوزے ،ٹنکوکے بہترین دوست تھے۔وہ سب مل کر کھیلتے اور خوب مزا کرتے۔سب جانور ٹنکو کو بہت پسند کرتے تھے،اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ سب کی مدد کرتا تھا۔وہ جب بھی کسی کو مشکل میں دیکھتا تو فوری اس کی مدد کو پہنچ جاتا۔ ایک دن مرغی کا ایک بچہ کھیلتے کھیلتے پارک سے باہر نکل گیا ۔

وہ قریبی درخت کے نیچے بنے چھوٹے سے سوراخ میں چھپا منہ نکالے سہما بیٹھا تھا۔ٹنکو اپنے امی ابو کے ساتھ پارک میں داخل ہو رہا تھا کہ اس کے کانوں میں چوزے کی روتی ہوئی آواز سنائی دی۔ ٹنکو کے ماں باپ تو پارک میں داخل ہو گئے، مگر وہ آواز کے تعاقب میں جب تھوڑا آگے گیا تو اسے ننھاچوزہ نظر آ گیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ پارک لے آیا۔مرغی کی جان میں جان آئی اور اس نے ٹنکو کا بہت شکریہ ادا کیا۔ یوں سب اس کے گن گاتے۔شام ڈھلنے پر ٹنکوسب کو اللہ حافظ کہہ کر اپنے امی ابو کے ساتھ گھر چلا جاتا تھا۔ ایک دن وہ یونہی شرارتیں کرتا چھلانگیں لگاتا پارک میں داخلے کی مخالف سمت سے باہر نکل گیا۔ 

اس نے دیکھا کہ دور اک گھنا جنگل ہے ۔وہاں بہت سے اونچے اونچے درخت دکھائی دے رہے تھے ۔اس نے سوچا کہ شاید وہاں کوئی اور خوبصورت پارک ہو اور ہم سب وہاں بھی سیر کو جا سکیں۔یہ سوچتا ہوا وہ اس جانب چل دیااور جنگل میں داخل ہو گیا۔ ننھے سے ٹنکو کو یہ گھنے اور او نچے درخت بہت ہی حیرت زدہ کر رہے تھے۔کہیں کہیں سے سورج کی چمکتی کرنیں بھی درختوں میں سے جھانک رہی تھیں ۔وہ ان درختوں کی طرف دیکھتا آہستہ آہستہ چلتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک ا سے کوئی زوردار آواز کے ساتھ اس کے سامنے آن دھمکا۔ٹنکو یک دم انتہائی خوف زدہ ہو گیا اور اپنی آنکھیں موند لیں ۔جب خاموشی ہوئی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔

یہ دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے کہ اس کے سامنے ایک موٹا تازہ شیر کھڑا تھا۔شیر نے اسے دبوچا اور اپنی غار میں لے گیا۔ اس نے ٹنکو کے گلے میں رسی باندھی اور رسی کا سرا ایک بھاری پتھر سے مضبوطی سے باندھ دیا۔ وہ خوف زدہ ہو کر خاموشی سے بیٹھ گیا۔شیر نے اس سے کہا کہ'' کل میں تمہارا ناشتہ کروں گا''۔یہ سن کر ٹنکو کی تو جان ہی نکل گئی اور وہ مزید سہم گیا۔شیر تو یہ کہہ کر سو گیا۔ٹنکو نے دیوار میں بنے ایک چھوٹے سے سوراخ سے دیکھا کہ باہر اندھیرا چھا چکا تھا۔وہ اپنے ماں باپ کے لئے بہت فکر مند ہو رہا تھا۔دوسری طرف اس کے ماں باپ اور تمام جانور بے حدپریشان تھے۔ان سب نے اسے ارد گرد کے تمام علاقوں میں ڈھونڈا ، پھر مایوس ہوکر گھر لوٹ گئے۔اس کے ماں باپ کی تو نیند ہی اڑ گئی تھی۔

ٹنکو کو پریشانی کے عالم میں بیٹھے بیٹھے رات کے کسی پہر نیند آ ہی گئی۔صبح ہو تے ہی شیر جاگ گیا۔شیر اونچی آواز میں دھاڑا توٹنکو کی آنکھ کھل گئی۔شیر نے اسے کہا کہ تیار ہو جائو ،اب تمہارا آخری وقت آ گیا ہے۔ اچانک ٹنکو کی نظر ایک خوفناک کالے سانپ پر پڑی جو قریبی دیوار میں بنے ایک سوراخ سے نکل رہا تھا اور شیر کو کاٹنے ہی والا تھا کہ ٹنکو چلا اٹھا،''شیر انکل بھاگیں،آپ کے پائوں کے پاس سانپ ہے'۔‘‘شیر جلدی سے وہاں سے ہٹ گیا اور دیکھا کہ واقعی وہاں سانپ موجود تھا۔

اس نے فورا سے مسل دیا اور غار سے باہر پھینک دیا۔شیر ٹنکو کے اس احسان پر بہت ہی حیران تھا کہ وہ تواس کو مارنے والا تھا، مگر پھر بھی اس نے میر ی جان بچائی۔اس کے دل میں ننھے ٹنکو کے لئے رحم آ گیا۔اس نے اس کی رسی کھول دی اور اس کا شکریہ ادا کیااور اسے باحفاظت جنگل سے باہر چھوڑ آیا ۔ ٹنکوخوشی سے اچھلتا ہواکچھ دیر بعد پارک پہنچ گیا۔وہاں سب اس کے لئے خاموش اور اداس بیٹھے تھے۔اس نے آواز لگائی،''میں آ گیا امی، ابو'۔سب نے اسے صحیح سلامت دیکھاتو بہت خوش ہوئے۔ ٹنکو نے سب کو ساری کہانی سنائی ۔

سبق: پیارے بچو! اگر کوئی آپ کا برا بھی چاہے تو پھر بھی آپ اس کے ساتھ بھلائی کرو۔اللہ ایسے لوگوں کو پسند فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔

تازہ ترین