یو ایف او(UFO) جیسی اڑن طشتری
گول شکل کا خلا میں اُڑنے والا جہاز 1950 ء کے بعد اکثر دیکھنے میں آتا تھا جو کہ اجنبی مخلوق کو زمین پر لاتاتھا ۔اب اس کو حقیقت میں ایجاد کرلیا گیا ہے ۔برطانیہ کی ایک کمپنی (AESIR) نے اڑنے والی گاڑیاںتیار کی ہیں جو مختلف جسامتوں کی ہیں اور یہ عمودی طور پرپرواز کرتی ہے ۔ اس میں طاقت پیدا کرنے کے لئے Coanda Effectکا استعمال کیا گیاہے ۔یہ اثر مایع جیٹ کو دائروی راستہ اختیار کرنے پر مجبور رکھتا ہے اور یہ گول جسم کی سطح کے ساتھ ہی حرکت کرتا ہے۔
اس عمل کا مشاہدہ ایک جلتی ہوئی موم بتی کو ایک گو ل کے پیچھے رکھ کر اورکین( can )پر ہوا پھینک کر کیا جاسکتا ہے ۔کمپنی کے تیار کردہ مختلف ہوائی جہازوں کا سائز 30 سینٹی میٹر قطر سے شروع ہو ااور اب 100 گرام تک کا وزن باآسانی اُٹھا سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ بڑے سائز کے ہوائی جہاز بھی ہیں جو ٹنوں کی مقدار میں مواد لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اس کی نمائش لندن میں ہونے والی دفاعی نظام اور آلات کی بین الاقوامی نمائش میں کی گئی ۔
ایندھن کے بغیر چلنے والا ہوائی جہاز
پینٹا گون کی ایڈوانس ریسرچ آرگنا ئزیشن Drapa نےVulture پروگرام کےتحت ایک مقابلے کا اعلان کیا ،جس میں ایسے جہاز تیار کیے جائیں گے جو کہ ایندھن بھرے بغیر چلتے رہیں گے ۔ کمپنی کے مطابق یہ بغیر انسان کے چلنے والے ابلاغ ونگہبانی کا فر یضہ انجام دینے والے جہاز ہو ں گے ۔ جو ہدف کے اوپر مستقل پرواز کرتے رہیں گے اور بغیر کسی رکاوٹ کے اطلاعات کو نشر کریں گے ۔ اس مقابلے میں پہلا اندارج ایک جہاز کا کروا یا گیا ہے، جس کا نام Odysseusہے اور اس کے Zترتیب والے پروں میں شمسی سیل نصب ہیں جو کہ سورج کی روشنی سے طاقت حاصل کرکے دن رات کام کرتے رہیں گے ۔
دنیا کا پہلا خود طاقت حاصل کرنے والا نینو سینسر
جار جیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے دنیا کے پہلے خود سے طاقت حاصل کرنے والے نینو سنسر تیار کئے ہیں ۔بجلی کے جنریٹر ز ہزاروں زنک آکسائیڈ کے نینو تاروں پر مشتمل ہوتے ہیں جو میکانی طاقت کو برقی طاقت،piezo Electricalاثرات کے ذریعے (میں اس وقت تبدیل کردیتے ہیں جب تاروں پر میکائی دبائو ڈالا جاتا ہے ۔piezo Electric اثرات کا اطلاق مختلف آلہ جات مثلا ًسگریٹ لائٹر کو جلانے کے لیے اور اس طر ح کی دیگر آلات کے لیے استعمال کیا جائے گا ۔یہ میکانی دبائو پورے مواد میں وولٹیج پیدا کرتا ہے ۔
نینو سینسرز مکمل طور پر ایک لچکدار سطح سے جڑے ہوتے ہیں اور ان کو دھاتی الیکٹروڈ سے منسلک کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔وہ لچکدار سطحیں جن پر یہ نینو سینسرز نصب ہوتے ہیں ، ان کو بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کو بھاگنے والے جوتوں ، مائیکرو فون (آواز سے پیدا ہونے والے میکانی ارتعاش کو بطور طاقت کے ماخذ استعمال کرنے کے لئے ) یا سمندرکی موجوں سے پیدا ہونے والی میکانی توانائی کا استعمال کیا جا تا ہے ۔
وائرس سپر بیٹری کے طور پر استعمال ہوں گے
میسا چوسیٹس انسٹی ٹیوٹ کیPaula Hammondاور ان کے ساتھی جینیاتی ترمیم شدہ بیکٹیریا تیا رکرنے میں کام یا ب ہو گئےہیں جو بعض بجلی کی موصل دھاتوں کے ساتھ باندھے جا سکتے ہیں ۔دھاتی غلاف چڑھی ہوئی ڈیوائس طاقت ور اور مستعد بیٹری کا کام کرسکتی ہے ، کیوں کہ اس کی پتلی لمبی ساخت میں بہت مختصر سی جگہ پرنمایاں مقدار میں چارج جمع کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے یہ روائتی بیٹریوں کے مقابلے میں زیادہ مستعد ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ جب وائرس کی بنی ہوئی ساخت انحطاط کا شکار ہوتی ہے تو دھاتی غلاف اس قدر طاقت ور ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے ۔’’وائرل بیٹریز‘‘ ایک زندہ خلیہ کے نصف سے بھی کم جسامت کی حامل ہیں اور ان کے اندر انتہائی چھوٹے طبی آلہ جات کو طاقت فراہم کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے علاوہ ان کو مختلف انتہائی چھوٹے برقی آلہ جات (ڈیوائس) میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثلاً نا سا کے تیار کردہ ’’ ڈرون مچھر‘‘ میں ان بیٹریوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔
چھپائی سے تیار ہونے والی بیٹریز
گذشتہ چند سالوں سے برقی آلات تیار کرنے کے حوالےسے باز گشت ہورہی ہے ،جن کو صنعتی پرنٹنگ مشینوں کے ذریعے لچکدار مواد پر چھا پا جاسکےگا اور پھر یہ سینسر ز،اسمارٹ لیبل وغیرہ کے طور پر کام کر سکیں گے ۔تا ہم چھپنے والی بیٹریز (Printable Batteries ) کے حوالے سے کام جاری ہے۔
Chemmitz،جرمنی میں قائم فران ہوفر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے الیکٹرونک نینو سسٹم نے کاغذجیسی باریک بیٹریز تیار کی ہیں جن کو Mass Printing کے ذریعے Silk Screenپر بنا یا جا سکتا ہے با لکل ایسے ہی جیسے ٹی شرٹوں پر چھپائی کا کام کیا جا تا ہے ۔ ہر بیٹری کا وزن صرف ایک گرام ہے اور اس میں 1.5وولٹ کی برقی طاقت موجود ہے ۔اس میں مختلف بیٹریز کو ایک ترتیب میں چپکا یا جا سکتا ہے جو کہ 3V,4V.5V,6Vکی برقی طاقت پیدا کر سکتی ہیں ہر بیٹری میں زنک اینوڈکی تہہ ہوتی ہے ۔ اس کا استعمال بیٹری کی طاقت سے چلنے والے بینک کارڈز اور چمکنے والے تہنیتی کارڈوں سمیت دوسری جگہوں پر بھی کیا جا رہا ہے ۔
روشنی خارج کرنے والی ٹی شرٹس
ایک نجی پینٹ کمپنی نے روشنی خارج کرنے والی ٹی شرٹس تیار کی ہیں جو کہ اسکرین پرنٹنگ کے ذریعے چھپائی کی جانے والی ٹی شرٹس پر چمکنے والے ڈیزائن میں استعمال کی جائے گی ۔اس طریقے کار میںان میں سیلیکا کے نینو اجزاء کو شامل کیا گیا ہے جو کہ ایک جیلGel))بناتے ہیں اور اس جیل کوچھپائی کے کام میں استعمال کیا جا تا ہے ۔کمپنی روشنی خارج کرنے والے پوسٹرز اور دوسرے پارچہ جات تیار کر رہی ہیں۔
زمین پر چھوٹے سورج
جنوبی فرانس کے قریب ایک مقام پر انسانی تاریخ کا سب سے عجیب و غریب تجربہ تیاری کے مراحل میں ہے ۔ اس کو بین الاقوامی تھر مو نیو کلئیر تجرباتی ری ایکٹر (ITER)کا نام دیا گیا ہے ۔اس کا مقصد اس عمل کو دوبارہ وقوع پذیر کرنا ہے، جس کے تحت سورج اور ستارے فیوژن تعامل کے ذریعے حرارت اور روشنی پیدا کرتے ہیں ، یہ وہ عمل ہے، جس میں ہلکے عناصر آپس میں مل کر بھاری عناصر بناتے ہیں اور اس عمل کے دوران بھاری مقدار میں توانائی کا اخراج ہوتا ہے ۔ہمارا سیارہ سورج سے اسی فیوژن تعامل کی وجہ سے کروڑوں سالوں سے حرارت حاصل کر رہا ہے اور اسی عمل سے خود بھی روشنی اور حرارت پیدا کرتا ہے۔
اس منصوبے پر یورپی یونین ، انڈیا، جاپان، چین، روس، جنوبی کوریااور امریکامشترکہ طور پر سر مایہ کاری کر رہے ہیں، جس کا تخمینہ 10بلین یورو لگا یا گیا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں قریباً 15سال لگے گے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد ہائیڈروجن کے دوبڑے آئسو ٹوپس ڈیوٹریم اورٹری ٹیئم کو آپس میں ملانا ہے ۔ہائیڈروجن کے ان دونوں آئسوٹوپس کا ملاپ(فیوژن) ایک بھاری عناصرہیلئیم اور بڑی مقدار میںتوانائی کی تشکیل پر ہوگا۔ ماہرین کواس سے پیدا ہونے والی حرارت کے بارے میں توقع ہے کہ اس عمل میں درکار توانائی سے 5-10گنا زیادہ ہوگی۔
فیوژن کے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے غیر معمولی تیز درجہ ٔحرارت کی ضرورت ہوگی جو کہ لازماً100بلین Kہونا چائیے۔اس کے لئے ایک خاص برتن کا استعمال کیا جائے گا ،جس میں Fusing Plasmaکو مقناطیسی طاقت کے ذریعے لٹکا یا جائے گا ،تا کہ اس بلند درجہ ٔحرارت پر برتن کی دھات پگھل کر بخارات نہ بن جائے ۔اس صدی کے اختتام تک ہمارے شہر فیوژن ری ایکٹرز سے توانائی حاصل کریں گے ،جس میں Deutruimکے ماخذ کے طور پر سمندری پانی کو استعمال کیا جائے گا ۔ اور ہم زمین پر انسانی ہاتھوں کے بنے ہوئے سورج سے مستفید ہوں گے۔
کریڈٹ کارڈ کی طرح پتلی ٹی وی اسکرین
یہ تو آپ کو معلوم ہے بعض نامیاتی ( کاربن پر مشتمل) مواد بجلی سے چارج کرنے پر روشنی خارج کرتے ہیں ۔ یہ نامیاتی موادنئی قسم کی ٹی وی اسکرین کے لئے بنیاد فراہم کر رہے ہیں۔جن کو OLEDS (Organic light emitting diodes)سے تیار کیا جاتا ہے ۔ان کی موٹائی صرف 0.30mm ہے جو کہ ایک کریڈٹ کارڈ کی موٹائی ہے اور کیوں کہ OLEDمواد اپنی روشنی خود پیدا کرسکتے ہیں۔ چنا ں چہ ان کو اسکرین کی پشت پر کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے سوائی چارج کی گئی پلیٹ کے جو کہ اسکرین پر الیکٹرون کو خارج کرے گی ۔ اس کے مقا بلے میں (LCD (Liquid Crystal Display Screen کے پکسل کو خارج کرنے کے لئے فلوریت یا LEDلیمپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب کہ پلازما اسکرین کو انہیں روشن کرنے کے لئے بجلی سے چارج ہونے والی گیس کے خانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئیOLEDپر مبنی ٹیکنالوجی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ روشنی ان نامیاتی سالموں سے خارج ہوتی ہے، جس سے اسکرین بنائی گئی ہیں وہ مختلف رنگوں میں چمکتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں LCDسفید روشنی خار ج کرتی ہے ،جس کو رنگوں کو تخلیق کرنے کے لئے فلٹر ز سے گذار ا جا تا ہے ۔ اس سے روشنی اور رنگوں کی طاقت میں کمی واقع ہوتی ہے ۔چناں چہ OLEDاسکرین کے رنگ ، فاسفوریسنٹ اسکرین جو کہ پلازما ٹی وی میں استعمال ہوتی ہے۔ان کے مقابلے میں کافی گہرے اور روشن ہوتے ہیں ۔
قدرت کی نقل کرکے... حیرت انگیز نئی ٹیکنالوجی
لاکھوں سال سے زندہ اجسام میں اڑنے ، تیرنے اور ماحولیات کے چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے ارتقاء کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے ان خصوصیات سے سائنس دانوں کو اس بات کا ادراک ہوا کہ ایسے آلات تیار کئے جائیں جو پہلے سے بہتر صلاحیتوں کے حامل ہوں ۔ اس عمل کو ’’Biomimicry‘‘ کہا جا تا ہے جو کہ حیاتیات اور انجینئرنگ کے درمیان راستہ بنانے کا عمل ہے مثلاً ٹڈی ایک دوسرے سے جڑ کر ایک مجموعے کی شکل میں سفر کرتی ہے ،مگر حیرت انگیز طور پریہ ایک دوسرے سے بالکل بھی نہیں ٹکراتے ہیں ،کیوں کہ ان کے اندر ایک وقت میں کئی سمتوںمیں دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ ان کی اس صلاحیت سے متاثر ہوکر آٹو موبائل انڈسٹری نے Anti -Collision سنسرز بنائے ہیںجو کہ کار کے گرد ہونے والی حرکت کا احساس کر لیتے ہیں او ر ڈرائیور کو ٹکرائو سے آگاہ کردیتے ہیں۔
قوی الجثہ پشت پر کوہان والی وھیل پانی میں انتہائی پھرتی سے سفر کرتی ہے اس کی حرکت سائنس دانوں کے لئے ایک معمہ ہے، کیوں کہ اس کے آگے والے پرپرچھوٹے ابھارہیں جو کہ ایروڈائنامکس کے اصول کے حوالے سے غلط سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ مچھلی کے اگلے پروں کو ہموار یا چپٹا ہونا چاہیے۔ تاہم ایرو ڈائنا مکس مطالعہ جات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پنکھے کے پروں کے آگے والے کنارے زیادہ طاقت سے ہوا کو اٹھاتے ،کم آئوٹ پٹ دیتے اور نچلے گھمائو کی رفتار زیادہ طاقت کے ساتھ ہوتی ہے ۔اب اس ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہوائی ٹربائن تیار کئے جا رہے ہیں۔