31 / دسمبر 2000 ء کی رات ٹھیک بارہ بجے گھڑی کی دونوں سوئیاں ہم آغوش ہوئیں اور بیسویں صدی اکیسویں صدی کو گلے لگا کر جدا ہوگئی۔ یہ جدید کلینڈر کے 2000ء سال کی وہ آخری شب تھی جب میں نے آسمان پر ہزاروں رنگ بکھیرتی آتش بازی کی قوس و قزاح کو دیکھتے ہوئے اور اس تاریخی لمحے کو محسوس کرتے ہوئے سوچا تھا کہ میں بھی نسل انسانی کے اس کارواں کا حصہ ہوں جس نے آج بیسویں صدی کا آخری سورج ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے اور کچھ دیربعد اکیسویں صدی کا نیا سورج کی اولین کرن اداسی لئے مسکرا رہی تھی تو میں نے اس منظر کو اس دعا سے باندھا تھا کہ اے رب ذوالجلال اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو تیری جانب سے محبت ، امن اور سلامتی کی نوید ملے۔ میں نے اس صبح کے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھ کر اپنی قوم کے لئے بھی ایک خاص دعا مانگی تھی لیکن جب دعا کے جذب میں موندھی آنکھیں کھول کر دیکھا تو آفتاب مجھ سے نظریں چراتے ہوئے یہ کہتا محسوس ہوا۔ #
قافلہ دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہرو درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
اور پھر چند ماہ کے بعد ہی دنیا نے عالمی سیاسی افق پر تیزی سے بدلتے ہوئے موسم اور خوفناک منظر بھی دیکھے۔نائن الیون کا المیہ دنیا کی سیاسی اور جنگی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے جس کے بعد عالمی سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا۔ افغانستان ،عراق، سیریا، لبنان، لیبیا، صومالیہ، سوڈان ، ایران بش ملٹری پلان میں شامل ممالک تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔ پاکستان کی سرزمین اس بدلتے ہوئے عالمی سیاسی سیناریو میں اہمیت اختیار کرچکی تھی۔گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی طویل جنگ کے اثرات پوری دنیا کی سیاست پر تو پڑے ہی لیکن ساتھ ہی انسانی حقوق پر یقین رکھنے والوں کے لئے بھیانک سوال بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ ڈرون اور خود کش حملوں اور بموں کے دھماکوں سے مسلسل بے گناہ شہری پاکستان اورافغانستان میں مارے جارہے ہیں۔ افغانستان کی زمینی جنگ تاریخ کی بد ترین جنگ کے طور پر آنے والے وقتوں میں یاد کی جائے گی اور حالات بتا رہے ہیں کہ یہ قتل و غارت گری آگے چل کر گوریلا وار کی صوت میں افغانستان کی گلیوں میں مزید خون بہائے گی۔ فضائی حملوں کی تاریخ امریکی ڈرون حملوں کی سفاکی کو بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ 2004ء سے لے کر اب تک امریکی ڈرون حملوں میں سیکڑوں معصوم بچے اور شہری افغانستان میں اور افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے شمال مشرقی علاقوں میں مارے جاچکے ہیں۔ ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں گھرا ہوا افغانستان جس قدرتی حسن کو مدت ہوئی جنگ کی بد صورتی نگل چکی ہے۔ افغانستان کے خوبصورت پہاڑی اورصحرائی علاقے، جنگلات، نباتات تباہ ہو رہی ہیں۔ انسانوں کی بربادی اور ماحولیاتی تباہی جنگ کے سب سے بڑے اثرات ہوتے ہیں۔ پاکستان کوبھی دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی جنگ میں امریکہ کا حلیف بننے کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ پاکستان کی سرزمین میدان جنگ بن چکی ہے۔ خود کش حملوں ، بموں کے دھماکوں ، بدامنی کے پیدا کردہ غیر مستحکم معاشرتی اور معاشی حالات نے پاکستانی عوام کو ادھ موا کردیا ہے۔ ادھر عرب اسپرنگ نے بیداری کی لہر لئے ایک ایسے موسم سے متعارف کرایا جو اہل عرب کے لئے زخموں کی بہار لئے اس طرح آیا کہ #
یک بیک شورش فغاں کی طرح
فصل گل آئی امتحان کی طرح
2010ء سے تاحال مصر، لیبیا، شام، لبنان، تیونس، چمن، بحرین، مراکو، سوڈان یہ سب ممالک اس موج کی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔ یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عرب سپرنگ بھی ہائی جیک ہوگئی ہے جسے امریکہ اپنے مفاد میں مزید طول دے رہا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں کو اپنی کلائنٹ سٹیٹس کے طور پر استعمال کرسکے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے اور جنگ کے اثرات نے دنیا میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر کیا ہے یا مزید خراب یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ عرب سپرنگ سے جنم لینے والی صورتحال میں جس طرح عام لوگ پس رہے ہیں۔ ادارے اورانفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔ بچے اور معصوم و بے گناہ شہری مارے جارہے ہیں یا کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ایسی صورتحال میں کیا بیداری کی یہ لہر ان معاشروں میں کوئی مثبت تبدیلی لے کر آئے گی یا انہیں ایسے حالات سے دوچار کرکے معاشی اور معاشرتی اعتبار سے سالوں پیچھے پہنچا دے گی۔ سیریا میں اب تک اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ستر ہزار (70,000 ) لوگ مارے جاچکے ہیں اور تقریباً 2 ملین (دو ملین) بچے اذیت ناک طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ غذائی کمی ،بیماریاں، بے گھری، تعلیم سے محرومی ، جنگ کے یہ سارے ثمرات یہ بے گناہ بچے جھیل رہے ہیں۔ اسی طرح عراق پر امریکی حملے میں IBC کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ چودہ ہزار سے زائد لوگ مارے گئے ۔ جن میں بچے عورتیں اور بے گناہ شہری شامل تھے۔ امریکی روایتی سیاسی فکر میں یہ عنصر تو قابل غور رہا ہے کہ اب تک عراق کی جنگ میں کتنے فوجی مارے گئے اور امریکی معیشت پر جنگ کا کیا اثر پڑا یا عراق کے معاملات میں امریکی حکمت عملی کی کیا قیمت چکانی پڑی لیکن خود عراقی عوام کو اس جنگ کے نتیجہ میں اپنی جانوں کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے امریکہ نے کبھی اس اہم نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
بغداد کے ایک فلم میکر حیدر دفار نے جنگ پر ایک دستاویزی فلم Dreams of Sparrows (ڈریم آف اسپیروز)کے نام سے بنائی ہے۔ یہ فلم عراقی تاریخ کی دو دہائیوں کی لہو میں ڈوبی ہوئی تصویر ہے۔ حیدر دفار کا کہنا ہے کہ اب عراقی عوام کی حالت زار ان چڑیوں کی مانند ہے جو ہمیشہ اپنے سستانے کے لئے درختوں ، پناہوں اور شاخوں کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔ آج بھی آزاد عراق میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ بقول دفار کے پہلے عراق میں لوگ اتفاقی حادثات میں مرتے تھے اب زندگی کو حادثہ سمجھ کر جیتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی جنگی اور سیاسی صورتحال کی وجہ سے عالمی اقتصادیات بھی بحرانی کیفیت سے دو چار ہے۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد جو امیدیں بندھی ہیں وہ دم توڑتی گئیں سیاسی تنازعات اور جنگوں نے ترقی پذیر ممالک کی حالت اور ابتر کردی ہے ہوسکتا ہے کہ اکیسویں صدی کو بیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے مقابلے میں مزید ابتر معاشی اور معاشرتی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ 2020ء تک دنیا میں نئے بحران پیدا ہونے کے خدشات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تیل کی طلب میں اضافہ سے مشرقی وسطیٰ میں جنگ چھڑنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ کلائمٹ چینج کے اثرات کے تحت پوری دنیا میں غذا اور پانی کی قلت جیسے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ یہاں تک کہ Arctic آرکٹک بھی جنگ کا میدان بن سکتا ہے جہاں تیل کے آخری ذخائر کی طرف دنیا کی نظر ہوگی۔ غرض اکیسویں صدی میں کرہ اراض پرموجود انسانی بستیوں کو جنگ اور جنگی تنازعات کی آلودگیوں سے جو خطرات لاحق ہیں انہیں دیکھتے ہوئے کسی ایک خطے کی جنگ کو محدود سمجھ لینا بھی ایک خطرہ ہے۔جس سے چوکنا ہو جانا چاہئے۔