گیارہ اگست سے پہلے راوی کے کنارے نیا شہر آباد کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے ،خوش فہمی اپنے عروج پہ تھی کہ کوئی متبادل نہیں ہے ، جو پریشانی کا مؤجب بن سکتے تھے وہ حسب معمول لائن میں لگ کر درکار قانون سازی کرا رہے تھے جن کی زبان کی سختی اقتدار کا مزا کر کرا کر رہی تھی نیب کے ذریعے ان کے کس بل نکالے جا چکے تھے ، اپوزیشن ایسے خاموش تھی کہ جیسے وہ حکومتی پالیسیوں سے مکمل مطمئن ہے۔
یہ سکوت حکومت کے لئے تو یقینا بہت سازگار تھا لیکن ان ٹیم منیجرز کو ایسے یک طرفہ کھیل میں مزا نہیں آ رہا تھا جنہوں نے کھلاڑیوں کی کارکردگی دیکھ کر آئندہ مقابلے کے لئے نئی ٹیم کا انتخاب کرنا ہے چنانچہ نیب نوٹس کے ایک لٹمس ٹیسٹ کے ذریعے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے مسلز آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔
مسلم لیگ ن کی وہ نائب صدر جس کا میڈیا میں نام لینا شجر ممنوعہ تھا اس نوٹس کے بعد اس کی تصویریں ٹی وی اسکرینوں کی زینت بننے لگیں ، پارٹی قیادت اور رہنماؤں سے مایوس لیگی کارکنان انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے لگے ، طویل عرصے سے غیر فعال سیاسی کارکنوں کے لئے تو مریم نواز کی پیشی کی صورت میں گویا عید کا سماں پیدا ہو گیا ، پارٹی قائد کی بیٹی سے اظہار یک جہتی کے لیے سوشل میڈیا پہ عہد و پیماں کئے جانے لگے ۔
گیارہ اگست کے دنگل کی حکمت عملی کے لئے میٹنگز ہونے لگیں، مریم نواز نے اس شو کے لئے اپنے والد اور پارٹی کے قائد سے خصوصی اجازت حاصل کی ، انہوں نے کچھ خاص ہدایات بھی جاری کیں جبکہ پارٹی صدر کو صرف آگاہ کیا گیا۔
دوسری طرف نیب اور حکومت اسی غلط فہمی میں تھےکہ طویل عرصے سے مار کھانے والی ن لیگ کے لئے گیارہ اگست کا نیب نوٹس بھی’’اب کے مار ‘‘ کے مترادف ہی ہوگا ، حکومت کے زیر انتظام انٹیلی جنس اداروں اور فیاض چوہان جیسے شاہ کے وفاداروں نے بھی شاہ کو یہی دلاسہ دیا کہ دو تین درجن لیگی کارکن صرف نعرے بازی سے اپنے اندر کا ابال نکالنے آئیں گے جن کے لئے چند پولیس اہلکار ہی کافی ہوں گے۔
چیئرمین نیب اور وزیر اعظم کو بھی سب اچھا کی رپورٹ بھیج دی گئی لیکن گیارہ اگست کا سورج طلوع ہوا اور جیسے جیسے دن چڑھتا گیا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارہ بجنے لگے ، مریم نواز کی ن لیگی کارکنوں کے ہمراہ پہلی جھلک نظر آئی تو گھروں میں بیٹھے کارکن بھی نیب آفس کے باہر جمع ہو گئے ، کارکنوں کا جوش اور تیور دیکھ کر بزدار حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے،پھر نیب آفس کے باہر جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا ،جو میڈیا مریم نواز کا نام آن ائیر کرنے سے پہلے سو بار غور کرتا تھا اس کی اسکرینوں پہ گھنٹوں مریم نواز ہی نظر آئیں۔
آئے روز اپوزیشن رہنماؤں کو طلبی کے نوٹس بھیج کر تماشا دیکھنے والا نیب خود تماشا بنا تو مریم نواز سے واپس چلے جانے کے لئے منتیں کرنے لگا لیکن اس کھیل میں اپنی فتح دیکھ کر اور طویل عرصے سے اپنے جذبات پہ قابو پانے والی نواز شریف کی بیٹی نے نیب کو للکارتے ہوئے واپس جانے سے انکار کر دیا۔
پھر نیب اور ن لیگ کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے بعد نیب نے مریم نواز کی اس روز کی پیشی کا نوٹس منسوخ کیا تو مریم نے گھر کی راہ لی تاہم تھوڑی دیر بعد بھرپور پریس کانفرنس کے ذریعے ثابت کر دیا کہ وہ اس لٹمس ٹیسٹ میں کامیاب ہو چکی ہے ۔
قارئین مریم نواز کی نیب میں طلبی بہت سوں کا لٹمس ٹیسٹ تھا، یہ ’’بول میری مچھلی کتنا پانی‘‘ کے مصداق مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے لٹمس ٹیسٹ تھا ، یہ دیکھنا مقصود تھا کہ اپنے قائد کی بیٹی سمیت سزا، نا اہلی اور صدر شہباز شریف سمیت پارٹی رہنمائوں کے خلاف مقدمات کے بعد کیا اس میں ابھی اتنی سکت ہے کہ یہ ضرورت پڑنے پہ اپنے کارکنوں کو اکٹھا کر سکے۔
یہ پارٹی کے صدر شہباز شریف کے لیے بھی لٹمس ٹیسٹ تھا کہ کیا وہ کچھ وقت یا کسی ہنگامی صورتحال میں اپنے مفاہمتی بیانیے کو ترک کر کے مزاحمتی رویہ اختیار کر سکتے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ بھی کہ وہ پارٹی صدر نہ سہی کیا بطور چچا مشکل میں گھری اپنی چہیتی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔
مریم نواز کی نیب میں پیشی مسلم لیگ ن کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بیانیے کا بھی لٹمس ٹیسٹ تھا کہ کیا اتنا کچھ سہنے کے بعد بھی پارٹی بالخصوص نواز شریف کی بیٹی اس بیانیے پہ قائم ہے ،مریم نواز کی نیب میں طلبی وزیر اعظم عمران خان کا بھی لٹمس ٹیسٹ تھا کہ کیا ان کی پالیسیوں کی بدولت اپوزیشن بالخصوص مریم نواز عوام میں غیر مقبول ہو چکی ہیں اور اب کسی بھی احتجاجی تحریک کے لیے ان کی آواز پہ کوئی کان نہیں دھرے گا اور یہ لٹمس ٹیسٹ کرنے والوں کا اپنا بھی لٹمس ٹیسٹ تھا کہ انہوں نے تو ایک ہی ٹوکری میں سارے انڈے ڈال دئیے تھے تو کیا اب بھی ان کے لیے کوئی متبادل نہیں ہے۔
قارئین اس لٹمس ٹیسٹ میں کون کس حد تک کامیاب رہا گیارہ اگست کی ویڈیوز کو ری وائنڈ کر کے دیکھ کر فیصلہ آپ خود کر لیں ، رہی بات مریم نوازکی تو وہ اس لٹمس ٹیسٹ کے ہر معیار پہ پورا اتری ہیں یہاں تک کہ اپنی طویل خاموشی کی وجوہات کا ذکر کر کے انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ مستقبل میں بھی ضرورت کی صورت میں’’ ووٹ کو عزت دو بیانیے ‘‘پہ کمپرو مائز کر کے قابل قبول ہو سکتی ہیں۔