• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں گاہ بہ گاہ ایسی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں،جنہوں نے دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی رفعت و عظمت کا سکّہ جمائے رکھا۔ ان ہی عہد ساز شخصیات میں بانیٔ پاکستان محمد علی جناح ؒ بھی شامل ہیں، جن کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے ایک علیٰحدہ وطن حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی بصیرت سے جہاں مسلمانوں کو ایک الگ ملک کے حصول کی خاطر تحریکِ آزادی پر ابھارا، وہیں اپنے اسلاف کے پیغام کو بھی عوام تک پہنچایا۔ بالخصوص، آزادئ پاکستان کا نعرہ تو اسی ایک مقصد کے لیے لگایا گیا کہ مسلمانوں کے لیےایک الگ خطّہ ہو، جہاں وہ آسانی سے اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ ایک ایسی سرزمین، جہاں آزادانہ ماحول میں خدائے بزرگ و برتر کی عبادت کی جاسکے۔ جب مقصد اس قدر عظیم ہو اور کارواں میں علامہ محمد اقبال، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر جیسی دیگر قد آور شخصیات موجود ہوں، تو یقیناً کام یابی قدم چومتی ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔اس وقت کون جانتا تھا کہ یہ بچّہ، کل برِصغیر پاک و ہند کا نقشہ بدل کر ایک عظیم سیاسی رہنما کہلائے گا، مگر قدرت کا قانون مسلّم ہے، اس کا ہر کام ’’کن، فیکون‘‘ کی عملی تعبیر ہوتا ہے۔ اور پھر یہ کہ جس شخص نے کم عمری ہی سے تعلیم و تعلّم اور انسانوں کی بھلائی کو اپنا شعار بنالیا ہو، اُسے بھلاکام یابی کے حصول سے کون روک سکتا ہے؟ محمد علی جناح نے ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی۔ میٹرک ممبئی کے ہائی اسکول سے، جب کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن کا سفر کیا۔ وہاں سے وکالت پر عبور حاصل کرنے کے بعد 1897ء کو ہندوستان واپس آئے اور وکالت کے پیشے میں مصروفِ عمل ہوگئے۔ 

تاہم، اُن کو حقیقی شہرت دس سال کی اَن تھک محنت کے بعد اُس وقت ملی، جب انہوں نے1907ء میں ایک سیاسی جماعت کے نمائندے، کاوکس کا مقدمہ لڑا۔ اگرچہ اس مقدمے میں کام یابی نہیں ملی، مگراُن کی قانونی منطق، ذہانت، برد باری اور وکالت کے بے باک انداز سے لوگ بے حد متاثر ہوئے۔اور جب اُن کی شہرت چہار دانگِ عالم پھیلنے لگی، تو کانگریس کے مشہور رہنما، بال گنگادھرتلک نے اُن کو اپنا قانونی مشیر رکھ لیا۔ اس طرح وہ کسی حد تک سیاسی میدان میں داخل ہونے لگے۔ اس سے قبل وہ 1906ء میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت، مسلم لیگ میں بھی شمولیت اختیار کرچکے تھے اور آگے چل کر 1916ء میں اسی جماعت کے صدر بھی بنے، بعدازاں، بوجوہ کسی حد تک مایوس ہونے کی بنا پر لندن چلے گئے اور مزید زندگی وہیں گزارنے کاعندیہ ظاہرکیا، مگر 1933ء میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سمیت بعض زعماء کے اصرار پر دوبارہ ہندوستان آگئے اور ایک بار پھر برصغیر کی سیاست میں قدم رکھا۔ سیاسی دنیا میں دوبارہ قدم رکھنے کے بعد اُنہیں بھنور میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر ہر موقعے پر سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے اور سیاست میں تعلقات کے بجائے اصول پرستی کو رواج دے کر مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطّے کے حصول کی آواز بلند کرنا شروع کی۔ قائدِ اعظم اور ان کے رفقائے کار کی کوششیں ثمر بار ہونے لگیں اور 1940ء کولاہور کی قرار دادِ پاکستان اور اس کے چھے برس بعد 1946ء کے انتخابات نے پاکستان کے لیے راہیں ہم وار کرنا شروع کردیں۔ 

جدوجہدِ آزادی کی اس تحریک میں بہت سے نامی گرامی لیڈرز شامل تھے، مگر ان سب میں قائد کا کردار بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سخت بیمار ہونے کے باوجود دن رات آزادئ وطن کی خاطر اَن تھک محنت میں مصروف تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح جب اُن کی گرتی صحت اور ہندوستان بھر کے طوفانی دوروں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتیں اور کچھ روز آرام کا مشور دیتیں تو، کہتے ’’کیا تم نے کبھی سُنا ہے کہ کوئی جنرل چُھٹی پر جائے، جب کہ اس کی فوج میدانِ جنگ میں مُلک کی بقا کی جنگ لڑرہی ہو؟‘‘ یہاں تک کہ تحریکِ آزادی کی خاطر انہوں نے اپنا مرض بھی چُھپائے رکھا۔ 

جب وہ ٹی بی جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوئے، تو ڈاکٹر پٹیل نے اُن کو خرابی ِصحت سے متعلق مکمل طور پر مطلع کردیا اور کہا کہ آپ کو تمام کام چھوڑنے ہوں گے۔ اس پر انہوں نے ڈاکٹر پٹیل کی طرف دیکھتے ہوئے دو ٹوک لہجے میں کہا ’’ڈاکٹر صاحب! مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے پیشے کے تقدّس کا خیال رکھتے ہوئے میری بیماری سے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ وہی راز ہے، جسے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے’’well guarded secret‘‘کا نام دیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد مائونٹ بیٹن نے اپنے سوانح نگار، زیگلر سے کہا کہ ’’اگر یہ معلوم ہوجاتا کہ جناح کی زندگی اس قدر مختصر ہے، تو ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی اور یوں پاکستان جناح کی زندگی میں نہ بن سکتا اور دوسرا کوئی جناح تھا ہی نہیں، جو پاکستان بناتا۔‘‘

حصولِ آزادی کے بعد قائد اعظم پہلے سے زیادہ سخت محنت کرنے لگے تھے، یہ وہ وقت تھا، جب اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے تن مَن دھن کی بازی لگانے کی ضرورت تھی، اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے سب کچھ کردکھایا۔ وہ ملک و قوم کی ہر شئے کو پہلے سے زیادہ قابل ِتحفظ و قابلِ محبت سمجھتے تھے۔ اس کی گواہی ان کے ہم عصر اور دوست احباب بھی دیا کرتے تھے۔ ایک بار جب قائد کو معلوم ہوا کہ سرکاری میٹنگز میں کھانے پینے کی اشیاء دی جاتی ہیں، جن کا خرچ سرکار ادا کرتی ہے، تو انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ آئندہ کابینہ کے کسی بھی فرد کو سرکاری خرچ سے کھانے پینے کی کوئی چیز فراہم نہ کی جائے۔ اسی طرح ایک بار جب اُن کے لیے ڈیڑھ روپے کا موزوں کا جوڑا خریدا گیا، تو اس سے بھی منع کیا اور کہا کہ کسی غریب ملک کے گورنرجنرل کو اتنی مہنگی چیزیں نہیں پہننی چاہئیں۔ ایک مرتبہ سرکاری استعمال کے لیے 37 روپے مالیت کا فرنیچر خریدا گیا۔ قائد اعظم نے لسٹ دیکھی، تو اس میں سات روپے کی ایک کرسی اضافی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ محترمہ فاطمہ جناح کے لیے ہے۔ انہوں نے فوراً لسٹ سے وہ کرسی کاٹ دی اور کہ’’اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لے لو۔‘‘

یکم جولائی 1948ءکو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر انہوں نے فرمایا ’’مَیں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے، جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔‘‘ مزید فرمایا ’’ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے، جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچّے اسلامی تصور پر قائم ہو۔‘‘ الغرض، جدوجہدِ آزادی کا یہ استعارہ، آزادئ پاکستان کی خاطر اپنا تن مَن دھن، قربان کردینے والا یہ عظیم رہنما11ستمبر 1948ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرکے علامہ محمد اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن گیا کہ؎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے.....بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا۔

تازہ ترین