• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فزکس میں ایک اصطلاح استعما ل ہوتی ہے Escape Velocity، اردو میں شاید ہم اسے ’سرعت فرار‘کہیں گے ، یہ وہ کم سے کم رفتار ہے جو ایک جسم کو کسی سیارے کی قوت ثقل کے دائرہ اثر سے باہر نکلنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

مثلاً جب ہم زمین پر کھڑے ہو کر ایک گیند کو ہوا میں اچھالتے ہیں تو وہ واپس زمین کی طرف آ جاتی ہے تاوقتی کہ ہم گیند کو اُس رفتار کے ساتھ نہ اچھالیں جو کشش ثقل کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے ۔

زمین کے کیس میں یہ رفتار سات میل فی سیکنڈ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب ایک راکٹ کوفضا میں چھوڑا جاتا ہے تو اسے زمین کے مدار سے نکلنے کے لیے کم از کم سات میل فی سیکنڈ کی رفتار چاہیے ہوتی ہے، یہ کام آسان نہیں ، اِس کے لیے بے پناہ ایندھن درکار ہوتا ہے ، جتنا زیادہ ایندھن بڑھتا ہے اتنا ہی راکٹ کا وزن بڑھ جاتا ہے اور یوں زمین کی قوت ثقل کو شکست دینا مشکل ہوتا چلاجاتا ہے ۔مگر ایک مرتبہ جب یہ رفتار حاصل ہو جاتی ہے تو پھر کسی مزید قوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور وہ جسم یا راکٹ از خود فضا میں تیرتا رہتا ہے۔

انسانوں کو بھی زندگی میں کامیابی کے لیے اسی escape velocity کی ضرورت ہوتی ہے ، جو شخص ایک مرتبہ یہ رفتار حاصل کرکے اپنے مدار کو توڑتا ہوا نکل جاتا ہے اس کے بعد کم از کم مادی اعتبار سے وہ از خود تیرتا رہتا ہے اور اسے مزید کسی قوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

زندگی میں یہ سرعت فرار کیسے حاصل کی جائے ، فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں ، اِس کے لیے کسی بھی موٹیویشنل اسپیکر کی ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے ۔ مسئلہ اُن لوگوں کا ہے جو یہ کامیابی توحاصل کر لیتے ہیں مگر اِس کے باوجود وہ کوئی رول ماڈل نہیں بن پاتے۔ اِس مرحلے پر آ کر طبیعات اور انسانی نفسیات کے راستے جدا ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان بہرحال راکٹ نہیں ہوتے اور بعض اوقات escape velocity حاصل کرنے کے باوجود انسانوں کا مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ کیوں؟

میری طرح آپ نے بھی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو اِس escape velocity کو حاصل کرنے کے بعد خود کو کسی ولی سے کم نہیں سمجھتے، اُن کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کامیابی کے اس درجے پر فائز ہو چکے ہیں جہاں اُن کی کہی ہوئی ہر بات کو قول فیصل سمجھنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کا اپنے بارے میں یہ تجزیہ دراصل اُس غیر معمولی کامیابی کی وجہ سے تشکیل پاتا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بے پناہ ایندھن جلایا ہوتا ہے۔

انہیں علم ہوتا ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں اور ہر کسی کے بس کا روگ بھی نہیں لہٰذا اُن میں اور عام انسانوں میں فرق ہے، اگر یہ فرق نہ ہوتا تو وہ بھی عام انسانوں کی طرح ناکامی کے مدار میں گھوم رہے ہوتے، اب وہ چونکہ راکٹ بن کر فضا میں تیر رہے ہیں اِس لیے انہیں زمین کے بونوں پر فوقیت حاصل ہے۔ یہاں تک اِس بات میں کچھ نہ کچھ وزن ہے۔ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب اِن راکٹ نما انسانوں سے اپنی کامیابی سنبھالی نہیں جاتی۔

ایسا انسان جب لا شعوری طور پر یہ سمجھنے لگے کہ اسے کوئی دوسرا شخص علم و دانش کی کوئی بات نہیں سکھا سکتا تو سمجھ لیں کہ اسے اپنی کامیابی کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے۔ کسی فلسفی کا قول یاد آگیا کہ جس لمحے میں کسی عام آدمی سے کوئی بات سیکھ رہا ہوتا ہوں، اُس لمحے وہ شخص میرا استاد ہوتا ہے۔ راکٹ نما انسانوں میں اپنے سے کم کامیاب لوگوں سے علم سیکھنے کی عاجزی ختم ہو جاتی ہے اور اِس کی جگہ اُن میں ایک عالمانہ تکبر آجاتا ہے۔

بظاہر وہ آپ سے انکساری سے پیش آتے ہیں مگر یہ انکساری وقتی اور نمائشی ہوتی ہے، اُس فلمی ہیرو کی طرح جو کسی ٹوتھ پیسٹ کے اشتہار کی خاطر چند سیکنڈ کے لیے مسکراتے ہوئے دانت نکالتا ہے اور کیمرہ بندہ ہوتے ہی اُس کے چہرے کا تناؤ واپس آجاتا ہے۔

کامیابی حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے اور اسے سنبھالنا اُس سے بھی مشکل۔راکٹ نما انسان معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی انتھک محنت سے اِس مقام تک پہنچتے ہیں، اِن سے حسد کرنے یا اِن پر بے جا تنقید کرنے کی بجائے اِن کی زندگی کا مطالعہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے وہ escape velocity کیسے حاصل کی۔ مگر یہ کرتے وقت اپنے پاس ایک چھلنی ضرور رکھ لینی چاہیے تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ مذکورہ انسان سے کامیابی سنبھالی بھی گئی یا نہیں۔

اگر ایسا انسان عالمانہ تکبر سے پیش آئے، اپنے سے کم تر لوگوں سے علم و دانش کی بات سیکھنے میں سُبکی محسوس کرے، کسی دوسرے شخص کی کامیابی کا کھلے دل سے اعتراف نہ کرے، خود کو عقل کُل سمجھے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے کی بات کو اہمیت نہ دے تو سمجھ لیں کہ اُسے کامیابی تو بے شک ملی مگر وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھا پایا۔سوال یہ ہے کہ اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر کسی کامیاب انسان کی شخصیت میں یہ خرابیاں پائی بھی جاتی ہوں تو اِن سے اُس کی کامیابی تو ماند نہیں پڑتی! شاید یہ بات درست ہے کیونکہ کوئی بھی انسان بے داغ شخصیت کا مالک نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی کمی اور کجی ہر کسی میں پائی جاتی ہے۔

مسئلہ صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ پھر ایسے راکٹ نما انسان کو اپنا رول ماڈل نہیں بنایا جا سکتا۔ رول ماڈل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو آئیڈلائز کریں جو اپنے آدرشوں اور اصولوں پر کھڑے رہتے ہیں، طاقت اور جبروت کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں اور لالچ، دھونس اور دھمکیوں کی پروا کیے بغیر اپنے ضمیر کے مطابق نظریات پر کاربند رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کسی escape velocity کی ضرورت نہیں ہوتی، اِن کے افکار روشنی کے چراغ جلاتے ہیں اور کائنات میں روشنی سے زیادہ تیز رفتار کوئی شے نہیں!

تازہ ترین