• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے تمام مسائل کی ماں، یعنی Mother of all the Problems ہے،آبادی میںدھماکہ خیزاضافہ Population Explosion ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے آپ سرکار کراچی کی آبادی کم کریں۔ اگر آپ سرکار کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں، تو پھر سب سے پہلے آپ کو ہر قیمت پر، ہر صورت میں تباہ کن تیزی سے بڑھتی ہوئی کراچی کی آبادی کو روکنا ہو گا۔ اس کے بغیر آپ کراچی کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ نئے روڈ راستے بنوانے اور ٹوٹے پھوٹے راستوں کی مرمت کرانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ آپ ایک ہزار فلائی اوور بنوا لیں، کچھ نہیں ہو گا۔

آپ ایک لاکھ کالی پیلی نیلی بسیں چلائیںاس سے بھی کچھ نہیں ہو گا، انگریز کے دور کے نالے صاف کروانے اور نالوں کا جال بچھانے سے کراچی کا کوئی مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل نہیں ہو گا۔ ڈھائی لاکھ آبادی والا شہر ڈھائی کروڑ کی آبادی کا شہر بن چکا ہے۔ جس دھماکہ خیز تیزی سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کراچی کی آبادی تین کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ آپ جب تک کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو جنگی اور ہنگامی بنیادوں پر نہیں روکیں گے، کراچی آپ سرکار کے کنٹرول میں نہیں آئے گا۔

ہمارے ہاں اعداد و شمار بتانے والوں کا حال خستہ ہے۔ آپ اعداد و شمار کے بارے میں یقین سے کسی کو کچھ نہیں بتا سکتے۔ اعداد و شمار کا انحصار اندازوں پرہونے لگا ہے۔ کوئی ادارہ وثوق سے بتا نہیں سکتا کہ قدرتی طور پر کراچی کی آبادی میں کس حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی کراچی میں روزانہ کتنے بچے پیدا ہوتےہیں۔ کراچی اس قدر پھیل چکا ہے کہ کوئی یقین سے بتا نہیں سکتا کہ کتنی شرح فی صد سے قدرتی طور پر کراچی کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مگر طرح طرح کے طریقوں سے کراچی کی بڑھنے والی آبادی کے بارے میں کئی لوگ آپ کو اعداد و شمار بتانے بیٹھ جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق مختلف ذرائع سے کراچی میں آنےوالوں کی روزانہ تعداد ڈیڑھ سے دو ہزار ہے۔ مطلب یہ کہ مختلف طریقوں سے کراچی کی آبادی میں روزانہ ڈیڑھ سے دو ہزار نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے۔آبادی میں بے ہنگم ، بے قابو اضافے کی تصدیق شدہ مثال میں آپ کے آگے رکھنا چاہتا ہوں۔ انگریزوں نےکراچی کو چار ٹائونز میں تقسیم کیا تھا۔ وہ ٹائون اب تک ہیں۔ ایک ٹائون کا نام ہے فریئر ٹائون اس ٹائون میں فریئر ہال اورکنٹونمنٹ ، اور کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن شامل ہیں۔ فریئر ٹائون میں زیادہ تر انگریزوں کی کوٹھیاں ہوتی تھیں۔ فریئر ٹائون کی ایک اسٹریٹ کا نام ہے للی Lilly اسٹریٹ۔

للی اسٹریٹ میں انگریزوںکی چھ کوٹھیاں تھیں۔ اب ایک ایک کوٹھی کی جگہ ستر اسی فلیٹوں والی چھ فلک بوس عمارتیں کھڑی ہیں۔ جس گلی میں چھ فیملیز رہتی تھیں۔ اس گلی میں اب چھ سو فیملیز رہتی ہیں۔ گلی کی سڑک وہی ہے جو کہ چھ فیملیز کیلئے مناسب تھی۔ چھ گھروں کا ڈرینیج سسٹم اب چھ سو گھر استعمال کررہے ہیں چھ گھروںکیلئے نہانے دھونے اور پکانے کا پانی اب چھ سو فلیٹس میں رہنےوالی فیملیز استعمال کر رہی ہیں۔ چھ کوٹھیوں والی للی اسٹریٹ میں چھ سو فیملیز کیلئے نیا ڈرینج سسٹم نہیں لگ سکتا۔

آئے دن گلی گندے اور غلیظ پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ کوڑے کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر لگے رہتےہیں ۔ میں للی اسٹریٹ میں چھ کوٹھیوں کی جگہ بنی ہوئی فلک بوس عمارتوں کے ایک فلیٹ میں رہتا ہوں۔

کراچی کے اسکول اورکالجوں کے اپنے پلے گرائونڈ یعنی کھیل کے میدان ہوتے تھے۔ جب آبادی بے قابو ہو جاتی ہے ، تب شہر کے چپے چپے پر چھوٹے بڑے، ٹیڑھے میڑے گھر بننا شروع ہو جاتے ہیں کراچی کے اسکول اورکالجوں کے تمام کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہو چکا ہے۔

ہندو جیم خانہ کے عالیشان کرکٹ گرائونڈ پرکراچی پولیس کے بدنما فلیٹ بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ڈی آئی جی کا دفتر اور دوسری طرف خواتین پولیس اسٹیشن کا دفتر ہندو جیم خانہ کے کرکٹ گرائونڈ پر بنے ہوئے ہیں۔ اور یہ قبضہ عین گورنر ہائوس کے سامنے ہے۔ گورنر عمران اسماعیل اگر چاہیں تو گورنر ہائوس کی چھت پر چڑھ کر پولیس کے ہاتھوں متروکہ جائیداد پر قبضے کا منظر دیکھ سکتے ہیں۔ سرکارنے اگر اب بھی ریکارڈ توڑ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سد باب نہیں کیا، تو پھر آپ قدرت کی کارروائی کو روک نہیں سکتے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔

یہ تھیوری مالتھس کی ہے۔ آپ کو یہ سن کر تشویش بلکہ ڈر نہیں لگتا کہ جس جگہ ایک فیملی آباد تھی، عین اسی جگہ دس پندرہ منازل والی عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں اور ایک ایک عمارت میں ایک سو فلیٹ ہوتے ہیں۔ جب تک آپ حیرت زدہ نہیں ہونگے۔ آپ کراچی کے مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکیں گے۔

کراچی کی آبادی کچھ اس طرح کی ہیجانی کیفیت میں بڑھ رہی کہ جہاں ایک گھر تھا، وہاں ایک سوگھر بن چکے ہیں۔ جہاں ایک ہزار گھر تھے وہاں سو ہزار مکان بن چکے ہیں۔ جہاں ایک لاکھ گھر تھے، یعنی فیملیز تھیں وہاں ایک سو لاکھ یعنی ایک کروڑ فیملیز رہائش پذیر ہیں۔ فقیر کی بات سمجھ رہے ہیں نا سرکار آپ؟

کراچی کا کینسر دھماکہ خیز آبادی Population Explosion ہے۔ اسے مزید بڑھنے سے روکیے۔ پاکستان کے قوانین میں ایسا کوئی قانون تو ہو گا جس کے اطلاق سے آپ ایک شہر کو آبادی کے بوجھ تلے دھنس جانےکے المیہ سے بچا سکیں؟

تازہ ترین