وزیراعظم عمران خان نے منگل کے روز لاہور کے مضافات میں راوی ریور فرنٹ اربن پروجیکٹ منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا جس کے بارے میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ اگلے تین سال میں تیزی سے کام کریں گے اور ایک نیا شہر آباد ہوگا۔ نئے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے جو باتیں کہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ بڑی یا اعلیٰ منزل کے حصول کے لئے بڑی سوچ اور بڑے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن رہنمائوں نے اپنے معاشروں کو تبدیلی سے آشنا کیا انہوں نے پہلے بڑے خواب دیکھے اور بعدازاں ان خوابوں کو عملی تعبیر دی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہے۔ ہمیں اس کی تکمیل کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانا ہوں گے۔ ہمیں پہلے اپنے وطن کو فلاحی ریاست بنانا ہوگا پھر خود بخود اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی جائے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ میں نئے پاکستان کا تصور نظر آرہا ہے۔ کچھ لوگ مشکلات کو نئے پاکستان سے جوڑتے ہیں، مہنگائی سے متعلق عوام کا شکوہ جائز ہے، ماضی میں لئے گئے قرضوں کی واپسی کے لئے موجودہ حکومت کو سخت فیصلے کرنا پڑے جس کے باعث مشکلات پیش آرہی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواب دیکھنے اور انہیں عملی تعبیر دینے کی کوششوں سے اجتناب برتا جائے۔ منزل کے حصول کے لئے بڑی سوچ رکھنا اور کشتیاں جلاکر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم کی یہ سب باتیں درست ہیں۔ انہوں نے کئی خواب دیکھ کر بعض منصوبوں کو عملی شکل دی بھی ہے۔ مگر برسوں بلکہ عشروں سے اس ملک کے عوام پر جو کچھ بیت چکی ہے اس کے بعد عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ وہ تو کشتیاں ہی نہیں اپنے تن کا لباس اور زندہ رہنے کے لئے درکار خوراک کا بڑا حصہ بھی پیش کرچکا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے افراد یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے دو سال گزرنے کے بعد بھی ان کی زندگی میں اگر بڑی نہیں تو چھوٹی چھوٹی خوش کن تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہونے میں کیا امر مانع ہے۔ اس سوال کا جواب ماضی کی پالیسیوں کے باعث معیشت میں غیرمعمولی بگاڑ سمیت کئی حوالوں سے سامنے آیا ہے۔ سب سے بڑا حوالہ کورونا وباء سے پیدا ہونے والے بحران کا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کی حکمت عملی کے باعث کورونا وباء سے پیدا ہونے والی مشکلات بہت سے ملکوں کے مقابلے میں وطن عزیز میں کم ہیں۔ دوسری جانب حکومت کے بعض فیصلوں اور اقدامات مثلاً لنگر خانوں، پناہ گاہوں، ہیلتھ کارڈ، احساس پروگرام اور ای او بی آئی کی پنشن میں اضافے سے کچھ حوصلہ بھی ملتا ہے مگر بندہ مزدور کے اوقات نہ صرف بہت تلخ ہیں بلکہ محنت کش کے لئے روزگار بھی تاحال عنقا ہے۔ اس منظرنامے میں طویل المیعاد منصوبے بروئے کار لانے کے ساتھ کچھ ایسی تدابیر بھی ضروری ہوجاتی ہیں جن سے عام آدمی کو سہولت کا احساس ہو۔ پٹرول اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عام مہنگائی، کرپشن اور جرائم کے قصے ان امیدوں کو دھندلانے کے کا سبب بن رہے ہیں جو اس غریب ملک کے پسے ہوئے طبقات نے موجودہ حکومت سے وابستہ کی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں فوری نوعیت کے بعض اقدامات ضروری ہیں۔ اچھا ہو کہ پیٹرول کے نرخوں میں اضافے سے اجتناب برقرار رکھا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب آجاتا ہے۔ لاہور کے قریب نئے شہر کی تعمیر لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع اور حوصلہ افزا امکانات لائے گی۔ آبادی کو ایک حد میں رکھنے اور ماحولیاتی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مزید نئی بستیوں کی تعمیر اور پرانے شہروں کی حالت سدھارنے کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ اس باب میں اسلامی تعلیمات اور خلفائے راشدین کی ہدایت کے مطابق بسائے جانے والے شہروں کی مثالیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔