• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طاہرہ کاظمی

کیا آپ نے بھیگے پروں والی چڑیا دیکھی ہے جو حملہ آور کو دیکھ کے تھر تھر کانپ رہی ہوتی ہے۔ اس کی روح آنکھوں میں سمٹ آتی ہے؟کیا آپ نے جنسی شکار ہونے والی لڑکیوں اور بچیوں کی وحشت بھری چیخیں سنی ہیں؟کیا کبھی آپ نے سوچا کہ زندگی کو کچھ لمحوں میں ہار جانے والی، ہماری ہی طرح کی جیتی جاگتی انسان تھی، ان کے خواب ہم سے مختلف نہ تھے؟کیا کبھی آپ نے سوچا کہ فرشتہ مومند اور زینب آپ کی بچیاں بھی ہو سکتی تھیں؟

کیا کبھی آپ نے ان کی آخری لمحوں کی کشمکش کی اذیت محسوس کرنے کی کوشش کی؟کیا کبھی آپ نے تصور کیا کہ پامال ہونے والی جب آخری سانسوں پہ ہو گی تو اپنے رب سے کیا گلہ کر رہی ہو گی؟آخر مسئلہ ہے کیا؟ حل کیوں نہیں ہو پاتا؟ معاشرے کی اس سنگین تصویر پہ ہمارا رد عمل کیا ہے آخر؟کچھ لوگ سنی ان سنی کرتے ہیں، اونٹ کی طرح ریت میں سر چھپا کے سوچتے ہیں جہاں آگ لگی ہے وہ میرا جہاں نہیں!

کچھ درد محسوس کرتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنے کا یارا نہیں!

کچھ دل ہی دل میں شکاری کو برا بھلا کہتے ہیں، اور ریاست کو قصور وار ٹھہراتے ہیں !

کچھ ماں باپ کا قصور گردانتے ہیں۔

کسی کو عورت کا باہر نکلنا اس کا سبب نظر آتا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ یہ سب عریاں لباس کا کیا دھرا ہے۔ ان سے پوچھنا ہے کہ جب ہماری مائیں سات پردوں میں لپٹ کے زندگی گزرتی کرتی تھیں تو تب تمہاری وحشت انہیں کیسے ڈھونڈ لیتی تھی۔

لیکن ایک بات طے ہے !

کیا اسکولوں میں صاحب دانش سر جوڑ کے سوچتے ہیں کہ اس بربریت کا علاج ڈھونڈا جائے؟ ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے جہاں ہر طبقے کی عورت کو سر اٹھا کے چلنے کا حق حاصل ہو۔ ہر بچی غبارے والے سے غبارہ لے سکے اور محفوظ رہے، نکڑ کی دوکان سے ٹافی خریدنے تو جائے، مگر گھر کا راستہ نہ گم کر بیٹھے۔

کیا ماہر تعلیم یہ سوچتے ہیں کہ ایک ایسا نصاب ترتیب دیا جائے ،جس میں ایک سبق عورت کی عزت کرنا ہو؟

نہیں،شاید ایسا کچھ نہیں ہوسکتا

قاتل کو پکڑنے کا مطالبہ ہوتا ہے، عورت کو مزید پردے میں رہنے کی ہدایت ہوتی ہے، چاردیواری مزید اونچی کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے، متاثرہ خاتو ن کے لواحقین سے ہمدردی ہوتی ہے، سوشل میڈیا پہ انصاف کے ہیش ٹیگ چلتے ہیں۔سب کچھ ہوتا ہے، مگر ایک کام نہیں ہوتا!وہ یہ کہ عورت کی بحیثیت انسان عزت کرنے کا خیال نہیں پھیلایا جاتا ،کیونکہ یہ وہ صلیب ہے جسے اٹھانے کے لئے ایقان کے کندھے درکار ہیں! ، یہ وہ چراغ ہے جس میں اپنے وجود کا تیل جلتا ہے۔عزت نہ کرنی ہے، نہ سیکھنی ہے، اور نہ سکھانی ہے !

پھر تھک کے عورت آواز اٹھاتی ہے، صرف اور صرف عزت کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور صرف آواز اٹھانے پہ معاشرے کی باغی عورت کا تمغہ پاتی ہے۔ باغی عورت کا تصور ہی معاشرے کے مردوں کی آنکھوں میں خون اتار دیتا ہے۔ وہ عورت کو محبوب تو بنا سکتا ہے پر عزت کا مقام دے کے آنکھ نہیں جھکا سکتا۔

کوئی سمجھ ہی نہیں پاتا کہ باغی عورت خود فنا ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ خود قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوتی ہے۔ اس کے دل میں شعلے بھڑک اٹھتے ہیں جب اس کے کانوں میں وہ سب چیخیں گونجتی ہیں۔ ان بچیوں کے جسم پہ لگا ایک ایک زخم اس کے اپنے جسم میں ٹیسیں پھیلاتا ہے۔ ان کی آخری سانسیں تصور کر کے باغی عورت کا اپنا سانس گھٹتا ہے۔ باغی عورت کو بستر چبھتا ہے جب اسے خیال آتا ہے کہ اس بچی کی لاش کوڑے کے ڈھیر پہ کھلے آسمان کے نیچے برہنہ پڑی تھی۔ 

جب ننھے سے جسم کو کتوں نے پیٹ بھرنے کے لئے بھنبھوڑا تھا، اس لمحے باغی عورت کو اپنے جسم پہ نوکیلے دانت محسوس ہوتے ہیں۔ سرد تاریک رات کا اندھیرا اور بے رحم آسمان روح میں غم کا بھاری پتھر اتارتا ہے۔اگر روز قیامت آپ نے اپنے حصے کے سچ کا روزنامچہ پیش کرنا ہے تو ہم سے تھوڑی سی آگ مستعار لیجیے اور دیکھیے کہ زندگی کی تاریک راہوں میں حق کے دیپ کیسے روشن کیے جاتے ہیں اور سنگ باری کے باوجود روح فرحت و انبساط کی کن بلندیوں پہ پرواز کرتی ہے۔

تازہ ترین