موٹروے پر ایک معزز خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے جو گھنائونی حرکت ہوئی یہ پہلی تو نہ تھی لیکن خدا کرے کہ آخری ثابت ہو۔ بنتِ حوا تو صدیوں سے اس نوع کی درندگی وحشت اور ظلم و ستم کو بھگت رہی ہے۔ گناہ مرد کا ہوتا ہے تھوپ عورت ذات پر دیا جاتا ہے۔ نظریں مردوں کی گندی، میلی اور غلیظ ہیں مگر چھپ کر عورت رہے۔ ہمارے دیہاتی و روایتی ماحول میں اس نوع کی ذہنیت آج بھی مسلط و حاوی ہے کہ عورت کو نام سے پکارنا یا اُس کا نام لکھنا بھی برا خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس نصیبوں جلی کے شادی کارڈ پر لکھے نام سے لگایا جا سکتا ہے ’’دختر نیک اختر بنت‘‘۔
موٹروے پر زیادتی کا شکار ہونے والی معزز خاتون کا سانحہ اس حوالے سے الگ نوعیت کا ہے کہ اس کی آہوں اور دکھ نے پوری پاکستانی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہر کسی نے اس پر بیتنے والی قیامت کو دل سے محسوس کیا، اس کی حمایت میں ہمارا پورا سوشل میڈیا اس طاقت کے ساتھ کھڑے ہوا کہ حکمرانوں نے اس سانحہ کی اہمیت کو محسوس کیا ورنہ اس سے بھی اندوہناک سانحات آئے دن یہاں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ بےحسی کا یہ عالم ہے کہ حکمران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، میڈیا میں اِن کی برائے نام کوریج ہوتی ہے۔ ایسے ایسے دلخراش واقعات ہوتے ہیں، چھوٹی چھوٹی پھولوں اور کلیوں جیسی بچیوں اور بچوں کے ساتھ شقی القلب وحشیوں، بےترس درندوں کی طرف سے ریپ ہی نہیں کیا جاتا اس کے بعد گلا دبا کر انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے اور پھر مزید ثبوت ختم کرنے کیلئے ان کی لاشوں کو پٹرول ڈال کر جلا دیا جاتا ہے یا گندے نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اگر ایسے سانحات کے اعدادوشمار قومی سطح پر جمع کئے جائیں تو وہ یقیناً ہوشربا ہونگے۔خواتین کے خلاف روا رکھے جانے والے تشدد اور ظلم و زیادتی کی داستان محض کسی ایک حوالے سے نہیں ہے، یہ بیچاری تو جس دن پیدا ہوتی ہے ہماری سوسائٹی میں بالعموم اسی روز ایک قسم کا سوگ منایا جاتا ہے۔ ایک ماں کی کوکھ سے دوسری یا تیسری بچی آ جائے تو پورے کنبے میں جو کیفیت ہوتی ہے اس کا کھلے بندوں اظہار خیال کیا جائے تو پھر اہلِ ستم کہیں گے کہ آپ فلاں نظریے پر چوٹ کر رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ نہ جانے کہاں کہاں جاکر اولادِ نرینہ کیلئے دعائیں منگوائی جاتی ہیں اور نہ جانے کن کن کی دکانداریاں نرینہ اولاد دلانے کیلئے چل رہی ہیں۔ کیا ہماری سوسائٹی یہ سننے یا جاننے کیلئے تیار ہے کہ اس منفی ذہنیت کی جڑیں کہاں سے پھوٹتی ہیں؟
اس درویش نے اپنی آنکھوں سے محض اس وجہ سے طلاقیں ہوتی دیکھی ہیں کہ فلاں عورت نے بیٹا کیوں نہیں جنا۔ اگر وہ بدنصیب پائوں پر گر کے طلاق رکوانے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اپنا سینہ جلاتے ہوئے اپنے اوپر سوتن کو قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہیں پاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری روایتی سوسائٹی میں پسند کی شادی کے حوالے سے جو نفرت، تعصب اور غیرت پائی جاتی ہے وہ الگ ایک طویل دردناک داستان ہے۔ غیرت کے نام پر ہماری بچیاں جس ایشو سے قتل ہوئی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں یہ آئے روز کے سانحات کسی طرح بھی موٹروے سانحہ سے کم نہیں ہیں لیکن چونکہ وہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے ہمارا قومی رویہ بالعموم اس حوالےسے بےحسی کا ہے، ہم ایسی خبر پڑھ کر روٹین کی حرکت سمجھتے ہوئے آگے گزر جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ جس نوع کی سفاکی روا رکھی گئی ہے اور جس نوع کی خبریں تسلسل سے آئی ہیں، کاش خواتین اور بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی کوئی این جی اوز اس کی تفصیل جمع کر کے میڈیا تک پہنچائیں۔لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ اس سماجی وحشت و سفاکی کا تدارک کیا ہے؟ کئی لوگ ہنگامی غصے میں بڑھکیں ماریں گے کہ ایسے درندوں کو سرعام پھانسی پر لٹکا دو، خوف کی ایسی فضا بنا دو کہ کوئی ایسی قبیح حرکت کرنے کا کبھی نہ سوچے۔ ناچیز کو اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ مجرموں کو سخت ترین سزائیں ملنی چاہئیں لیکن یہ مسئلہ محض سزائوں سے حل ہونے والا نہیں، چند ایک کو سزائیں دے کر باقی سب ویسے ہی رہے تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔
درویش کا زور دو باتوں کیلئے ہے۔ اول قانون کی بےلچک اور بلاامتیاز حکمرانی، دوئم منفی ذہنیت کو بدلنے کیلئے کارآمد مثبت شعوری کاوشیں۔ اگر کچھ کو تو تادیبی سزا ملے اور دیگر اثرورسوخ والے چھوٹ جائیں تو اسے قانون کی حکمرانی نہیں کہا جا سکتا۔ قانون پر عملدرآمد اتنی مضبوطی و تسلسل کے ساتھ ہونا چاہئے کہ ہر منفی ذہنیت والے کو یقین ہو جائے کہ وہ درندگی کرنے کے بعد کسی صورت قانون کے شکنجے سے بچ نہیں پائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے تادیبی سزا سے بچا نہیں سکے گی، اس کے ساتھ ساتھ جب تک آپ مجموعی قومی شعور کی سطح بلند نہیں کریں گے کسی ایک شعبہ حیات میں تبدیلی محض ڈرامے بازی کی حد تک رہے گی۔ اصل ضرورت انسانوں کو انسانیت سکھانے کی ہے، جب انسانیت آئے گی تو اس کے ساتھ تہذیب اور شائستگی ہی نہیں انسانی وقار و احترام کی سوچ بھی ابھرے گی۔ انسانی حقوق اور آزادیوں کو بھی تقدس حاصل ہوگا۔