معروف قطعہ نگار، نثر نگار اور شاعر رئیس ؔامرہوی تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے1914میںعلمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سےکیا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی ۔جون 1947 کو روز نامہ جنگ میں ان کا پہلا قطعہ شائع ہوا، پھر باقاعدگی سے ان کا قطعہ شائع ہوتا ،یہ سلسلہ تاحیات جاری رہا۔ روز نامہ جنگ میں ان کا ہفتہ وار کالم سیاسیات، سماجیات، مابعد الطبیعیات، نجوم، فلسفہ اور نفسیات پر بھی شائع ہوتا تھا،جس میں وہ قارئین کے خطوط کے جوابات بھی دیتے تھے۔22 ستمبر 1988کو شام رئیس امروہوی اپنے کمرے میں محوِ مطالعہ تھے کہ کسی نامعلوم شخص نے انہیںگولی مار کر شہید کردیا۔پراسرار علوم کے اس ماہر کا قتل آج تک اسرار کے پردے میں ہے۔
رئیس امروہوی کے قطعات وقت اور حالات پر تازہ ترین تبصرہ کی حیثیت رکھتے تھے۔قطعات کےلئے موضوع کا انتخاب اور شعری اسلوب و انداز کا تعین بھی ان کا طرہ امتیاز تھا۔وہ تمام اصناف سخن میں قادر الکلام تھے۔انہوں نے طنزیہ اور فکاہیہ کالم نگاری بھی کی لیکن اپنے قطعات کے سبب زیادہ جانے پہچانے جاتے تھے۔قطعہ نگاری کے باعث ان کی شاعری پس پردہ چلی گئی۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے قطعہ نگار تھے۔انہوں نے چالیس سال بلا ناغہ قطعہ نگاری کی۔ حالات حاضرہ پر ایسا جامع، بر محل اور برجستہ تبصرہ کرتے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو۔ ہر سیاسی، معاشرتی یا معا شی واقعات پر اگرآپ کے قطعات کو جمع کیا جائے تو ایک تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ان کے قطعات پانچ جلدوں میں محفوظ ہیں۔قطعات کا پہلا مجموعہ1960 میں شائع ہوا۔ ان کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار شامل ہیں، جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہیں۔
رئیس صاحب کے قطعات سادہ اور عام فہم ہوتے۔1966 میں بھٹو صاحب نے ایوب خان کی حکومت سے استعفیٰ دیاتو انہوں نے قطعہ کہا کہ:
کوئی اس مسئلے میں کیا بتائے
رئیس امروہوی صاحب کی رائے
کوئی عہدے سے جاتا ہے تو جائے
کوئی عہدے پہ آتا ہے تو آئے
1972 میں اس وقت کی صوبائی اسمبلی نے ایک بل کے ذریعے سندھی کو صوبے کی واحد سرکاری زبان قرار دیا۔ رئیس امروہوی اور دیگر اردو بولنے والوں نے اس کی شدید مخالفت کی، قرارداد کے اگلے دن رئیس امروہوی کا ایک نوحہ” اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ شائع ہوا ، جس میں انہوں نے اپنےجذبات کا بھرپور اظہار کیا تھا۔
رئیس امروہوی کی ادبی اور صحافتی و سیاسی بصیرت کا اندازہ آج کے حالات سے بھی کیاجاسکتا ہے۔ چالیس پچاس برس قبل ایک قطعے میں موجودہ دور کی مکمل عکس بندی ملاحظہ کریں
جو ہم سے طلبگار ہے تحسین و ثنا کا
وہ لائق تحسین و ثنا تو نہیں ہے
یہ ناداں امداد ہم لوگ ہیں اغیار کی جس پر
یہ قرض ہے قرض حسنہ تو نہیں ہے