• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عائشہ یاسین

علی اپنے محلے کا سب سے شرارتی بچہ تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرتا رہتا ۔ کلاس میں بھی سب اس سے بہت پریشان رہتے تھے۔ استانی صاحبہ بھی روز اس کو کسی نہ کسی بات پر سزا دیتی تھیں۔ کبھی کرسی پر کھڑا کر دیتی تو کبھی کلاس سے باہر بھیج دیتی اور کبھی مرغا بھی بنا دیا کرتی تھیں لیکن علی اپنی شرارتوں سے باز نہ آتا۔ اسکول سے آتے ہی وہ دن بھر گلی میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومتا رہتا۔ کبھی کسی کے گھر کی بیل بجا کے بھاگ جاتا تو کبھی کسی بچے کی چیز چھین لیتا۔

آج جب علی اسکول سے واپس آیا تو کھانا کھاتے ہی باہر کھیلنے چلا گیا۔ آج محلے میں سناٹا تھا۔ سخت گرمی ہورہی تھی۔ علی راستے میں پتھروں کو ٹھوکر مارتا ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ کہ اچانک اس کو ایک گھر کے کونے میں ایک بلی بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ علی نے دور سے اس کو ڈرانے کی کوشش کی پر وہ بیچاری ہل بھی نہیں پائی۔ شاید اس کی طبیعت خراب تھی پر علی کو اس پر ذرا بھی ترس نہیں آیا۔ جب اس نے دیکھا کہ بلی ہل بھی نہیں پا رہی تو اس کو ایک شرارت سوجھی۔ اس نے بہت سارے پتھر اپنے جیب میں جمع کئے اور اپنی بوریت دور کرنے کے لئے بلی پر نشانہ بازی کرنے لگا۔ جب بھی بلی درد سے کراہتی تو اس کو اور بھی مزہ آتا ۔

بےچاری بلی تو بے زبان تھی اور بیمار ہونے کی وجہ سے بھاگ بھی نہیں پا رہی تھی۔ وہ وہیں روتی رہی لیکن علی کو اس پر رحم نہ آیا۔ کچھ دیر بعد کچھ کتوں کی بھونکنے کی آواز آئی۔ علی نے مڑ کر دیکھا تو کتے اس کی جانب ہی آرہے تھے۔ علی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جلدی سے دوڑ لگادی۔ وہ دو کتے تھے اور دونوں ہی علی کی طرف دوڑ رہے تھے۔ علی جیسے ہی گھر کے پاس پہنچا تو اس کو ٹھوکر لگی اور وہ زور سے وہ زمین پر گر پڑا۔ درد اور خوف سے وہ زور زور سے رونے لگا۔

ا س کی رونے کی آواز سن کر اس کے ابو باہر آگئے اور کتوں کو بھگایا۔ علی کے گھٹنوں سے بہت خون بہہ رہا تھا۔ علی کے ابو نے اس کو گود میں اٹھایا اور اندر لے جا کے مرہم پٹی کی۔ علی کو بہت تکلیف ہورہی تھی اور وہ روئے جارہا تھا۔ جب ابو نے اس کو دوا لگا دی تو اس سے سارا ماجرہ پوچھا۔ علی نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا تو اس کے ابو نے کہا، ”بیٹا کبھی کسی بے زبان جانور کے ساتھ برا سلوک نہیں کرنا چاہیے ورنہ بد دعا لگ جاتی ہے ۔ دیکھو اللہ نے تم کو تمہارے کیے کی سزا دی۔ اگر میں وقت پر نہیں آتا تو وہ آوارہ کتے تمہارے ساتھ کیا کرتے؟“ یہ سن کر علی اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوا اور ڈر کے مارے رونے لگا ۔ 

ابو نے اس کو روتا دیکھ کر کہا، ”چلو بیٹا ہم اس بلی کو گھر لے آتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔ جب وہ صحیح ہوجائے گی تو تم کو دعائیں دے گی اور اللہ بھی تم کو معاف کردے گا“۔ یہ سن کر علی بہت خوش ہوا اور ابو کے ساتھ جا کے بلی کو اپنے گھر لے ایا۔ ابو امی نے مل کر اس کو دوا لگائی اور علی فورا دودھ کا کٹورا لے آیا۔ 

علی دن رات بلی کی دیکھ بھال کرتا اور اس سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا۔ آہستہ آہستہ بلی صحت یاب ہوگئی اور علی نے اس کا نام کیٹو رکھا۔ پتا ہے بچوں اب علی اور کیٹو پکے دوست ہیں اور علی نے اب ہر برے کام سے توبہ کرلی ہے۔ کلاس میں اب سب اس کے دوست ہیں کیونکہ علی اب نہ کسی کو تنگ کرتا ہے نہ کوئی شرارت کرتا ہے بلکہ وہ سب کا خیال رکھتا ہے۔

تازہ ترین