سابق وزیراعظم نواز شریف 9 ماہ پہلے لندن جانے سے لیکر 20 ستمبر 2020 کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں کی جانے والی تقریر تک مسلسل زیرعتاب ہیں جس نے حکومت کےاندراوردیگرحلقوں میں گرماگرمی پیداکردی ہےجواسےغداری کےمترادف سمجھ رہےہیں۔
کچھ حلقے اسے سٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردارکے حوالے سے فیصلہ کن قراردے رہے ہیں۔تاریخی نقطہ نگاہ میں اس طرح کے کردار کا تعین کرنا ضروری ہے کیونکہ شریفوں کو بھی اپنے سابقہ کردار کے حوالے سے ایسے ہی بہت سارے سوالوں کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔
نوازشریف کی تقریر کے بعد 2 اہم چیزیں لیک ہوئی ہیں۔ ایک آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے اے پی سی سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات اور دوسری رہنما ن لیگ اور سابق گورنرسندھ محمدزبیر کی آرمی چیف سے ملاقات۔
پہلی ملاقات جو دوگھنٹے جاری رہی مبینہ طور پر آرمی چیف کی دعوت پر گلگت بلتستان کے سٹیٹس کے حوالے سے تھی، جس میں آزادکشمیرکے وزیراعظم سمیت دیگر بھی شریک ہوئے۔جبکہ اے پی سی سے پہلے کسی ایسی ملاقات کے بارے میں کوئی خبرسامنے نہ آئی تھی۔
اس ملاقات کا نوازشریف کی تقریر کے بعد پتہ چلنے پر بحث جاری ہے ، کیونکہ یہ آف دی ریکارڈ رکھی گئی تھی، نہ تو میزبان کی طرف سے کوئی پریس ریلیز جاری کی گئی تھی نہ ہی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی مرکزی مہمان پارلیمانی قیادت نے جاری کی تھی۔ یہ ملاقات پہلی بار تجربہ کار سیاستدان وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی پریس کانفرس میں لیک ہوئی جس میں انہوں نے اس ملاقات کے خفیہ ہونے کاتاثر دیا۔
اس پر اپوزیشن رہنماؤں نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم دعوت پرگئے تھے درخواست پر نہیں۔تاہم، محمد زبیر اور آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے مابین ملاقات کے معاملے نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے۔
آئی ایس پی آر نے نہ صرف آئی ایس آئی چیف کی موجودگی میں اس ملاقات کی تصدیق کی بلکہ یہ انکشاف بھی کیا کہ محمد زبیر نے نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔
اس حوالے مسلم لیگ کے سینئررہنما نے اقرار کیا کہ وہ ایک سال میں دو بار آرمی چیف سے ملے، ایک دفعہ دسمبر میں وفاقی وزیر اسدعمر کے بیٹے کی شادی کے استقبالیہ میں جبکہ دوسری مرتبہ غیررسمی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد شیخ رشید کے نواز شریف پر مستقل حملے جاری رہے اور انہوں نے ان تمام سیاسی رہنماؤں کو للکارا جن کا دعویٰ تھا کہ وہ کبھی سٹیبلشمنٹ سے نہیں ملے تھے۔
انہوں نے یہاں تک کہا کہ اہم سیاسی جماعتوں کے تمام قائدین سٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔
شیخ صاحب اکثر مجھے پیر پگارہ کی یاد دلاتے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ عوامی سطح پر اقرار کیا کہ’’میں جی ایچ کیو کا بندہ ہوں‘‘ اور اسے کبھی نہیں چھپایا۔ اب، شیخ رشید کسی کے بھی ترجمان ہونے سے انکاری ہیں، تاہم، انھیں اپنے حالیہ انٹرویوز ، بیانات اور پریس کانفرسز کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
وزیراعظم عمران خان پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ہیڈز سے گفتگو میں اس تنازع میں شامل ہوگئے، اور انہوں نے دعوی کیا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں سٹیبلشمنٹ کی پیدوار ہیں۔
انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ نواز شریف اور آصف زرداری دونوں سیاست سے باہر ہو چکے ہیں جبکہ ان کی حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں۔انہوں نے کہا اگر اپوزیشن استعفے دیتی ہے تو میں ضمنی انتخابات کرادوں گا اور انہیں کوئی نشست نہیں ملے گی۔
پیپلزپارٹی سٹیبلشمنٹ نے نہیں بلکہ اینٹی سٹیبلشمنٹ فورسز نے اس وقت بنائی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے بغاوت کی اور مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہوئے۔
تاہم یہ سچ ہے کہ وہ اپنی 30 کی دہائی میں ایوب خان کی کابینہ میں بطور جونیئر وزیر شامل ہوئے۔
پاکستان کا اپنی پیدائش 14اگست 1947 سے لے کر اب تک مخمصہ طاقتور حلقوں کی فیصلہ سازی میں مستقل شمولیت رہاہے، چاہے وہ براہ راست فوجی حکمرانی ہو یا نام نہاد سیولین حکمرانی،یہاں تک کہ عمران خان اور شیخ رشید احمد کے بیانات سے بھی مداخلت نمایاں ہے۔
شیخ رشید جو پیپلز پارٹی کے سوا ضیاء الحق سے لیکر جنرل مشرف اور مسلم لیگ ن سے لیکر پی ٹی آئی کی حکومتوں میں اکثر کابینہ کا حصہ رہے ہیں حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے کے پیچھے کارفرما غیر سیاسی قوتوں کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔
پاکستان ایک ایسے سیاسی اور جمہوری نظام کی تلاش میں ہے جہاں عوامی بالادستی کا احترام کیا جائے اور تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حلف کا احترام کریں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی دائرہ میں خود غیر جمہوری ہیں اور ان کے اندر جمہوری کلچر کی کمی ہے۔