• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فوج کے جن جوانوں نے جرأت مندی کے ساتھ سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے آئینی سوال اُٹھایا ہے وہ شاباش کے مستحق ہیں۔ یہ سوال فوج میں اعلیٰ عہدوں سے ذرا نیچے پائی جانے والی اُس فکر مندی کا اعلان ہے جسے عسکری ڈسپلن نے حصار میں لے رکھا ہے۔ فوجی افسروں کا سوال آئینی ہے کیونکہ 1973ء کے دستور کے وہ آرٹیکل ایک جیسے ہیں جن میں عدلیہ اور فوج کی توہین و تضحیک کو قابلِ دست اندازی بنایا گیا ہے۔ جس طرح پارلیمینٹ کے ایوان میں عدلیہ کی تضحیک پر پابندی ہے اسی طرح فوج کو بھی یہی تحفظ حاصل ہے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں عدلیہ کی شان میں گستاخی کرنے والے قطار اندر قطار کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ جب کہ فوج کی کھلے عام تذلیل کرنے والے بعض ملکی اور غیر ملکی تشہیری اداروں کے ہیرو ہیں۔ انصاف کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن خوف سے تحفظ کا اظہار سورة قریش میں واضح طور پر یہ احساس دلاتا ہے کہ خوف اور بھوک انسانی تمدن کے دو بنیادی مسائل ہیں۔ وہ بھی ابتدائے آفرینش سے۔ ایک ایسی سپاہ جس کی ہر کور، جس کے ہر ڈویژن، جس کی ہر بٹالین، جس کی ہر کمپنی اور جس کی ہر رجمنٹ میں ہر مہینے شہید جوانوں کے لاشے آتے ہوں۔ آئین میں نہ لکھا ہو تو بھی تکریم اس کا حق ہے۔ جو تعریف نہ کرنا چاہے تو یہ اُس کا ظرف ۔ بالکل اسی طرح پاکستان کی نظریاتی اساس بھی کھلی گولہ باری کی زد میں ہے ۔ جس طرح فوج کے اندر کی کیفیت پر ISPRبیان جاری نہیں کرتا ۔اسی طرح سرزمینِ وطن اپنے دفاع میں نہ چنگھاڑتی ہے نہ سوموٹو کارروائی کرتی ہے۔مرغی پہلے یا انڈا پہلے والی بحث کی بیماری کے دائمی مریضوں کو چھوڑ کر قیامِ پاکستان سے پہلے تحریکی طور پر اور آئینِ پاکستان کی تشکیل کے بعد دستوری طور پر۔یہ ہمارا طے شدہ رہنما ریاستی اصول ہے کہ پاکستان اسلامک، ڈیموکریٹک، ریپبلک ہے۔ یہ اصول سوچ کے تمام طبقوں، تقدیس کے سارے فرقوں اور سیاست کاری کے معتبر ترین نمائندوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی نے1973 ء میں حتمی طور پر طے کر دیا ہے۔ جسے شک ہو وہ کج بحثی یا پھراکیڈمک دلائل سے پہلے 12/اپریل1973ء کے دن نافذ کئے جانے والے متفقہ آئین کا دیباچہ کھولے جس کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے:۔
” ساری کائنات میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی واحد ذات کے پاس ہے اور پاکستان کے لوگ جو اتھارٹی استعمال کریں گے وہ اللہ تعالیٰ کی طے شدہ حدود کے اندر ایک مقدس امانت ہو گی“۔
آئین پاکستان کے دیباچے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو کسی مارشل لاء نے تخلیق کیا نہ ترتیب دیا۔ نہ ہی یہ دیباچہ کبھی تبدیل ہوا۔ آئین کی تشریح کے مستند ترین بین الاقوامی اصول کے مطابق پاکستان کا پورا آئین دیباچے کی چار دیواری سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا ۔یہی نظریہٴ پاکستان کی آئینی تعریف، وضاحت اور بنیاد ہے۔ میں اسے کسی بحث میں شریک طبقے کی کم نظری نہیں کہنا چاہتا اس لئے اسے ظالمانہ مذاق قرار دیتا ہوں کہ آئین کے دیباچے کو پڑھے بغیر کوئی پاکستان کو اور کوئی بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر قرار دیتا ہے۔ کوئی اسے ملّائیت پر مبنی پاپائیت کے کھاتے میں ڈالتا ہے اور کوئی اسے1977ء کے مارشل لائی ڈکٹیٹر کا حسنِ خیال کہہ کر مسترد کرتا ہے۔ جنگ اور نیوز کے صفحات میں یہ بحث جاری تھی، میں نے سوچا ختم ہو تو میں نظریہٴ پاکستان اور پاکستان کے آئینی تشخص کی وضاحت کروں لہٰذا پاکستان کے ریاستی تشخص کے بارے میں اپنا نقطہٴ نظر اپنی نئی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔ چونکہ ایک خاص خیال کے لوگ قیامِ پاکستان کے کچھ سطحی اور کمزور حوالوں سے کبھی قائدِ اعظم کی ذات، خدمات یا کبھی ان کی سیادت و قیادت کو توپوں کی زد میں رکھتے ہیں۔ اس لئے آئین کے دیباچے نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی سوچ کو بھی واضح کر دیا ہے۔ اس حوالے سے دیباچے کے الفاظ یہ ہیں:۔
”ہم پاکستان کے عوام اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ذ مہ داری کی آگاہی کے شعور کیساتھ۔ حصولِ پاکستان کیلئے عوام کی قربانیوں کے مدِنظر بانیٴ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے ڈیکلریشن کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسی جمہوری ریاست ہے جس کی بنیاد سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گی“۔
اس آئینی وضاحت کے بعد مجھے معلوم نہیں اس ریاست کی بنیاد کو کون کس طرح سے تین نکات سے علیحدہ کر سکتا ہے؟پہلا نکتہ یہ کہ پاکستان اسلامی نظریئے پر مبنی ملک ہے، دوسرے یہ ایک جمہوری ریاست ہے، تیسرے یہ کہ بادشاہت اور پاپائیت نہیں بلکہ ری پبلک ہے۔یہاں ریکارڈ درست رکھنے کیلئے یہ کہنا ضروری ہے کہ 1973ء کے آئین کی تشکیل سے پہلے وہ”ہینڈ میڈ“ دستور جس کے خلاف عوامی جدوجہد کے تاریخی شاعر حبیب جالب نے ”میں نہیں مانتا“ کا نعرہ خطہٴ پوٹھوہار میں کھڑے ہو کربلند کیا تھا، اُس آئین میں پاکستان کو”ری پبلک“ کا نام دیا گیا تھااس لئے کہ مطلق العنان بادشاہوں اور غیر جمہوری ناخداؤں کی پسندیدہ غذاؤں میں سے ایک ”بنانا ری پبلک“ ہے۔آئین میں دیئے گئے ریاست کے رہنما اصول پر مبنی باب 2 میں درج آرٹیکل نمبر31 کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ اس آرٹیکل کے پہلے حصے میں ریاست کے تمام اجزاء اور اتھارٹی آف اسٹیٹ کو اور ہر ایسے شخص کو جو ریاست کے کسی بھی دوسرے حصے یا اتھارٹی میں کوئی سرکاری کام کر رہا ہو اُسے پابند کیاگیا ہے کہ وہ ریاست کے ان رہنما اصولوں کی ذمہ داری سے پاسداری کرے ۔ اس سلسلے میں واضح طور پر پرنسپل آف پالیسی کے ضمن میں ایک علیحدہ آرٹیکل 29 بھی دستور میں شامل کیا گیا۔
اسلامی طرزِ زندگی کو ریاست کی پالیسی قرار دینے والا آرٹیکل31 تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ذاتی و اجتماعی طور پر اسلام کے بنیادی تصورات کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لئے لازمی اقدامات کئے جائیں اور اُنہیں وہ سہولتیں فراہم کی جائیں جن کے ذریعے وہ زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنے کا مفہوم سمجھ سکیں۔ یہ بات پھر کہنا پڑے گی کہ آرٹیکل31 پاکستان کے اوریجنل آئین میں شامل ہے۔ اس میں کسی جاہ پرست، موقع پرست، مطلب پرست اور دنیا پرست یا فرقہ پرست ڈکٹیٹر یا اس کے کسی درباری اور حواری کا کوئی حصہ نہیں۔ آج کا پاکستان نظریاتی مباحث، سیاسی افراتفری، فرقہ وارانہ جھگڑوں سمیت طبقاتی تقسیم کے جس” کراس روڈ“ پر کھڑا ہے، آئین کا دیباچہ اُن کا بھی شعور رکھتا ہے۔ میں یہاں راج نیتی کے ایک رہنما اصول کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جس کے مطابق معاشرے سوچے سمجھے توازن کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بے سبب اور بے قابو تصادم سماج کو ماضیِ مرحوم میں لے جاتا ہے۔ قوم ماضی سے سبق سیکھ سکتی ہے ماضی میں جی نہیں سکتی۔ مستقبل ان قوموں کا ہے جو حال کے ہوتے ہوئے بھی مستقبل میں جی رہی ہیں۔ یہاں پہنچ کر آئین کے دیباچے نے یہ ابہام دور کر دیا ہے کہ یہ کس کا پاکستان ہے۔ذرا پھر دیکھئے اپنے دستور کایہ دیباچہ”اس ریاست میں بنیادی حقوق کی لازمی گارنٹی ہو گی جس میں شامل ہیں ”سٹیٹس“ یعنی رُتبے کی مساوات، مواقع کی مساوات، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف میں برابری۔ سوچ کی آزادی کی ضمانت۔ مکمل آزادیِ اظہار۔ اعتقاد، مذہب اور عبادت کی آزادی، عوامی اخلاقیات کے مطابق“۔ہمارا آئین تین کمزور طبقات کے حقوق کی بات ایک سے زیادہ مرتبہ کرتا ہے۔ پہلا طبقہ اقلیتیں، دوسرا زیر دست لوگ اور تیسرے پسماندہ علاقے۔ پاکستان کا بنیادی نظریہ آئینی طور پر طے ہے جسے پسند نہیں وہ آئین بدل لے ورنہ آئین کو مان لے لیکن اصل بحث یہ نہیں بلکہ یہ بحث اصل مسائل سے فوکس ہٹانے کے لئے شروع کی جاتی ہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ آئین کو پکوڑے کے ٹھیلے پر پڑا ہوا لفافہ سمجھنے والے وہ طاقتور مافیا ہیں۔ جن کے قبضے میں پاکستان کی معاشی شہ رگ آ گئی ہے۔ ان کی اکثریت کے پاس دو سے زائد پاسپورٹ تین سے زائد ملکوں میں پراپرٹی اور چار سے زائد خطوں میں دلچسپی اور مفادات تقسیم شدہ ہیں۔آئین کا آرٹیکل63 (جی) اُسے نااہل قرار دیتا ہے جو عدلیہ کو بدنام کرے یا آرمڈ فورسز آف پاکستان کی تضحیک کرے یا دونوں اداروں کی توہین کرے۔ اگر فوج پاکستانی ہے۔ دستور بھی پاکستانی اور ملک نظریاتی تو پھر آدھا انصاف۔ آدھی سچائی اور آدھی دیانت، نہ اداروں کا تحفظ کر سکتی ہے اور نہ ہی سرزمین کا۔ سارا سچ، مکمل انصاف، برابر آئینی سلوک کی آواز وہاں سے بھی اُٹھ رہی ہے جہاں لوگ زبان دانی سے خدمت نہیں کرتے۔ ارضِ وطن پر جوانی لٹا کر خدمت کا لافانی ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کون ماں دھرتی کا قرض اُتار رہا ہے اور کون اسے مقروض بنا رہا ہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
تازہ ترین